نباتات و حشرات کی موت و حیات
سوال: مندرجہ ذیل دو امور آپ کی خاص توجہ کے مستحق ہیں کہ ان پر آپ کے غور و خوض سے میری الجھن دور اور دیگر قارئین تفہیم القرآن کے علم میں اضافہ ہوگا۔
(۱) سورۂ النحل صفحہ ۵۵۰ پر آیت ۶۵ کا آپ نے مندرجہ ذیل ترجمہ کیا ہے، ’’(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو) کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور مردہ پڑی ہوئی زمین میں اس کی بدولت جان ڈال دی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں حاشیہ ۵۳ پر آپ نے جو تحریر فرمایا، اس کا اختصار حسب ذیل ہے:
’’پچھلی برسات کے بعد جو نباتات مرچکی تھی، یا بے شمار حشرات الارض جن کا نام و نشان تک گرمی کے زمانے میں باقی نہ رہا تھا (یعنی مرچکے تھے) یکایک پھر اسی شان سے نمودار ہوگئے (یعنی دوبارہ زندہ ہوگئے) پھر بھی تمہیں نبیﷺ کی زبان سے یہ بات سن کر حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا‘‘۔
زندگی بعد الموت کی یہ مثال بالکل خلاف حقیقت و مشاہدہ ہے۔ کوئی پیڑ یا پودا مکمل طبعی موت کے بعد زندہ نہیں ہوتا، چاہے کتنی ہی برساتیں گزر جائیں۔ صرف وہ جڑیں پھوٹتی ہیں جن میں زندگی کی کچھ رمق باقی رہتی ہے۔ دوم کیڑے مکوڑے گرمیوں میں یقیناً مرجاتے ہیں جو عرصۂ دراز تک بے حس و حرکت(Hybrnated) پڑے رہتے ہیں یا انڈے، لاروا، پیوپا کی صورت میں زمین، لکڑیوں، درازوں، سوراخوں، پانی وغیرہ کسی جگہ پر موجود رہتے ہیں اور مناسب درجۂ حرارت و رطوبت اور موافق موسم کے آتے ہی اپنے اپنے خول سے نکل آتے ہیں۔ مکھی، مچھر، پروانے، کھٹمل اور زمین کے تمام حشرات الارض کے مختلف ادوار زندگی ہوتے ہیں۔ اور دنیا کے ہر خطّے کی آب و ہوا کے مطابق وہ درجات مختلف اوقات میں پایۂ تکمیل پاتے ہیں۔ لہٰذا یہ مثال کہ نباتات یا حشرات الارض موت کے بعد دنیا ہی میں دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں، قطعی خلاف حقیقت ہے۔
اس تفسیر کو قلم بند کرنے سے پہلے اگر آپ علم نباتات(Botany) اور علم الحشرات(Entomology) کے کسی عالم یا متعلم سے مشورہ کرلیتے یا ان کے متعلق کوئی کتاب ہی مطالعہ فرمالیتے تو ایسے اہم موضوع پر اتنی عام غلطی نہ سرزد ہوتی۔ ایسی پُرمغز اور عظیم تفسیر میں ایسی خلاف سائنس یا خلاف حقیقت و مشاہدہ بات پڑھ کر وہ لوگ جن کو آپ سے عقیدت نہیں ہے یا جو آپ کی عظمت کے قائل اور علمیت سے واقف نہیں ہیں بقیہ مضامین کو بھی اس پیمانے پر ناپیں گے۔ میں یہ گزراشات اپنے محدود علم اور ایک ماہر حشرات الارض سے مشورہ کرنے کے بعد لکھ رہا ہوں۔
(۲) تفہیم القرآن، سورۂ الاعراف حاشیہ ۸۷ کی مندرجہ ذیل سطر قابل توجہ ہے:
’’خدا کے حکم سے لاٹھی کا اژدہا بننا اتنا ہی غیر عجیب واقعہ ہے جتنا اسی خدا کے حکم سے انڈے کے اندر بھرے ہوئے چند بے جان مادوں کا اژدہا بن جانا غیر عجیب ہے۔‘‘ مندرجہ بالا جملے میں عجیب یا غیر عجیب کی بحث سے قطع نظر، میری گزارش صرف یہ ہے کہ جس انڈے سے کوئی جاندار شے پیدا ہوتی ہے مثلاً اژدہا، مچھلی، چھپکلی، مرغی، کبوتر وغیرہ اس انڈے کے اندر مادہ بے جان نہیں ہوتا، بلکہ قطعی جاندار ہوتا ہے۔ یعنی اس انڈے میں نر و مادہ کے تولید کا مجموعہ موجود(ovum+sperm) ہوتاہے۔بے جان مادے والا انڈہ وہ ہوتا ہے جو مادہ بغیر نر کے دیتی ہے اور اس کو عرف عام میں خاکی انڈہ کہتے ہیں اور جس میں کسی طرح بھی بچہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت کے باعث تو آپ کی دلیل مضحکہ خیز بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قوت معجزہ کو غلط سائنٹفک استدلال سے ثابت کرنا اور بھی عجیب ہوجاتا ہے۔
جواب: آپ نے میری تصیح کی جو کوشش فرمائی ہے اس کے لیے شکر گزار ہوں۔ جہاں تک سورۂ نحل والی آیت کا تعلق ہے اس میں استدلال اس عام منظر سے ہے جو ہر دیکھنے والا برسات کے موسم میں دیکھتا ہے۔ اسی عام مشاہدے کی تشریح میں نے کی ہے۔ میرے اصل الفاظ یہ ہیں:
’’یہ منظر ہر سال تمہاری آنکھوں کے سامنے گزرتا ہے کہ زمین بالکل چٹیل میدان پڑی ہوئی ہے۔ زندگی کے کوئی آثار موجود نہیں، نہ گھاس پھونس ہے نہ بیل بوٹے، نہ پھول پتی اور نہ کسی قسم کے حشرات الارض۔ اتنے میں بارش کا موسم آگیا۔ زمین کی تہوں میں دبی ہوئی بے شمار جڑیں یکایک جی اٹھیں اور ہر ایک کے اندر سے وہی نباتات پھر برآمد ہوگئی جو پچھلی برسات میں پیدا ہونے کے بعد مرچکی تھی۔ بے شمار حشرات الارض جن کا نام و نشان تک گرمی کے زمانے میں باقی نہ رہا تھا، یکایک پھر اسی شان سے نمودار ہوگئے جیسے پچھلی برسات میں دیکھے گئے تھے…‘‘۔
رہا بیالوجی اور علم نباتات اور علم حشرات کے نقطہ نظر سے اس مسئلے کا گہرا جائزہ، تو اس کے متعلق آپ کے مشورے کے مطابق میں انشاء اللہ دوسرے ماہرین سے بھی پوچھو لوں گا، اور آپ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ خود اپنی معلومات اور اپنے اہل علم احباب کی رائے اس پہلو سے مجھے بتائیں گے کہ گھاس کی جڑوں اور حشرات الارض کے متعلق یہ خیال کہ ’’طبعی موت کے بعد ان کا بارش میں جی اٹھنا ممکن نہیں ہے، اور صرف وہی جڑیں اور حشرات دوبارہ زندہ ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نہ کسی شکل میں حیات کی رمق باقی ہو‘‘۔ آیا یہ تجربے اور علمی مشاہدے پر مبنی ہے، یا اس قیاس پر کہ بہرحال طبعی موت کے بعد کسی چیز کا جی اٹھنا تو غیر ممکن ہے اس لیے جو چیز بھی بارش میں زندگی لیے ہوئے نمودار ہوئی ہے وہ ضرور اپنے اندر کچھ حیات لیے ہوئے سورہی ہوگی؟
صحرائے عرب کا وہ حصہ جس کو الربع الخالی کہتے ہیں، بسا اوقات دس دس سال تک بارش سے بالکل محروم رہتا ہے، اور گرمی کے موسم میں درجۂ حرارت وہاں ۱۲۴ سے ۱۴۰ ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ اس پر بھی جب وہاں بارش ہوتی ہے تو صحرا کی ریت پر گھاس اگ آتی ہے اور حشرات الارض رینگنے لگتے ہیں۔ یہ بات اس علاقے کے متعدد سیاحوں نے بیان کی ہے۔ ۱۹۵۹ء کے آخر میں جب میں عرب کا سفر کرتا ہوا تبوک پہنچا تو اتفاق سے اس روز بارش ہوگئی۔ وہاں کے گورنر اور قاضی نے مجھے بتایا کہ یہ بارش پورے پانچ سال بعد ہوئی ہے۔ اس کے بعد جب میں تبوک سے روانہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہی صحرا جسے آتے ہوئے میں نے راستے میں بالکل سونا دیکھا تھا، اب اس پر گھاس اگی ہوئی ہے۔ گاڑی سے اتر کر حشرات الارض کو تلاش کرنے کا مجھے خیال نہیں آیا۔ لیکن گھاس تو میرے سامنے موجود تھی۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ محض مفروضہ ہے کہ ۵۔۱۰ سال تک جڑیں کسی نہ کسی درجے کی حیات لیے ہوئے اندر ضرور موجود ہوں گی جو بارش میں تازہ ہوگیں یا فی الواقع ایسا کوئی تجربہ و مشاہدہ ہوا ہے کہ جو جڑیں بارش میں زندہ ہوگئیں وہ وہی تھیں جن میں اس نوعیت کی حیات باقی تھی؟ نیز کیا در حقیقت جڑوں کی طبعی موت اور کسی درجے کی حیات کے درمیان کوئی قطعی خطِ امتیاز سائنس میں معلوم کیا جاسکا ہے؟
یہی سوال حشرات الارض کے بارے میں بھی ہے کہ صحرا کی ریت میں طویل مدت کی خشک سالی اور شدید گرمی کے بعد جو حشرات بارش کے بعد نمودار ہوجاتے ہیں، آیا ان کے بارے میں یہ تحقیق کیا جاچکا ہے کہ وہ بارش سے پہلے کسی نوعیت کی زندگی لیے ہوئے محض سو رہے تھے یا یہ محض ایک قیاسی مفروضہ ہے؟ ان امور پر اگر کچھ روشنی ڈالیں تو میں تفہیم القرآن میں اس مضمون کے تمام حواشی پر تحقیق کے ساتھ نظر ثانی کرسکوں گا۔ اس مسئلے پر اچھی طرح تحقیق ہونی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ بعض نباتات و حیوانات میں اللہ تعالیٰ نے اعادہ خلق اسی دنیا کے اندر رکھا ہے تاکہ حیات بعد موت کی نشانی بن سکے۔ اسی وجہ سے قرآن میں جگہ جگہ بارش کے اثر سے مردہ زمین کے جی اٹھنے کا ذکر کیا گیا ہے اور اسے حیات بعد موت کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔
لاٹھی سے اژدہا بننے کے معجزے پر جو کچھ میں نے لکھا ہے، اس کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی پھر وضاحت کیے دیتا ہوں۔ ایک بار درشُدہ(Firtilised) انڈے کے اندر جو مذکر و مؤنث مادہ تولید زندگی لیے ہوئے موجود ہوتا ہے، وہ بھی ایک مادی پیکر ہی ہوتا ہے جس میں زندگی خدا کی ڈالی ہوئی ہوتی ہے، ورنہ وہ مادہ جس سے اس کا جسم بنا ہوا ہوتا ہے بجائے خود اپنے اندر کوئی حیات نہیں رکھتا۔ اب فرق جو کچھ بھی ہے، وہ صرف اس امر میں ہے کہ اژدہوں کی عام پیدائش ان انڈوں سے ہوتی ہے جن کے اندر ابتداء ً زندگی نر اور مادہ کے اتصال سے مادی پیکر میں پیدا کی جاتی ہے، اور پھر اسے بتدریج نشونما دے کر اژدہا بنایا جاتا ہے۔ مگر معجزے سے لاٹھی کا جو اژدہا بنا، اس میں لاٹھی کے مادی پیکر میں خدا نے براہ راست اژدہے والی حیات پیدا کردی اور اسے اژدہے کی صورت بھی عطا کردی۔ میرا استدلال یہ ہے کہ لاٹھی سے براہ راست اژدہا بنانا صرف اس بنا پر معجزہ ہے کہ یہ واقعہ عام معمول سے ہٹ کر پیش آیا۔ ورنہ اس مادہ ذکر و اُنثیٰ (Ovum+Sperm)سے جو اژدہا پیدا ہوتا ہے وہ بھی معجزہ ہے۔ اس کے معجزہ ہونے کا تصور ہمارے ذہن میں نہ آنے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اسے عام معمول سمجھتے ہیں۔
(ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۶۸ء)