کیا ’’نور‘‘ اور ’’کتاب مبین‘‘ ایک شئے ہے؟
سوال: تفہیم القرآن کے مطالعہ سے دل کو سکون اور ذہن کو اطمینان ہوتا ہے۔ لیکن سورۂ مائدہ (رکوع سوم آیت ۱۵۔ تفہیم القرآن اول) میں قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ کا ترجمہ و تفسیر کرتے وقت آپ سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے ایک گروہ کو اپنے مفید مطلب مواد ملنے اور دوسرے گروہ کو آپ کی علمیت پر انگشت نمائی کا موقع حاصل ہونے کا پورا امکان ہے۔ آپ نے آیت کے اس حصہ کا ترجمہ یوں فرمایا ہے:
’’تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے…)‘‘۔
اس ترجمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ’’روشنی‘‘ کو ایک الگ شے اور ’’حق نما کتاب‘‘ کو بالکل دوسری چیز سمجھتے ہیں۔ اسی کے حاشیہ (نمبر ۳۸) سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے وہاں تحریر فرمایا ہے۔
’’جو شخص اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے‘‘۔ گویا آپ’’نور‘‘ سے رسول کریمؐ کی ذات یا ان کی زندگی اور ’’کتاب مبین‘‘ سے قرآن مجید مراد لے رہے ہیں۔ حالانکہ اگلی آیت کا دوسرا لفظ بِہِ اللہُ صاف بتا رہا ہے کہ ان دونوں (نور اور کتاب مبین) سے مراد ایک چیز ہے، دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اگر دو الگ ہوتیں تو بِہٖ کی جگہ بِھِمْ آتا جیسا کہ آپ کا ترجمہ خود بتا رہا ہے: ’’جس کے ذریعہ (نہ کہ جن کے ذریعہ) سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو …‘‘
رہا یہ سوال کہ دونوں اگر ایک ہی چیز ہیں تو وہ چیز کیا ہے؟ رسول یا قرآن مجید؟ یہ تو آپ بھی تسلیم فرمائیں گے کہ رسول اکرمؐ کو سارے قرآن میں نہ کہیں ’’نور‘‘ کہا گیا ہے اور نہ ’’کتاب مبین‘‘ ! البتہ قرآن کریم کو کئی مقامات پر (مثلاً سورۂ نساء آیت ۱۷۴، سورۂ الاعراف آیت ۱۵۷، سورۂ شوریٰ آیت ۵۲ اور سورۂ تغابن آیت ۸) ’’نور‘‘ سے یاد کیا گیا ہے اور ’’کتاب مبین‘‘ تو وہ ہے ہی۔
اب یہ سوال ہے ’’نور‘‘ اور ’’کتاب مبین‘‘ کے درمیان جو ’’واؤ‘‘ ہے وہ کیسی ہے؟ اور اس کا مفہوم اگر ’اور‘ نہیں ہے تو کیا ہے؟ یقیناً ’’واؤ‘‘ عاطفہ بھی ہوتی ہے جس کا مطلب ’اور‘ ہوتا ہے۔ لیکن ’واؤ‘ تفسیری اور توضیحی بھی ہوتی ہے اور قرآن کریم میں متعدد مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ یہ تو آپ کو علم ہی ہے کہ قرآن اپنی تفسیر آپ بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ الحجر آیت ۱:
الٓرٰ۔ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْآنٍ مُّبِیْنٍ۔
ترجمہ: یہ کتاب یعنی واضح قرآن کی آیات ہیں۔
کیا یہ ترجمہ ٹھیک ہوگا: ’’الٓر، یہ کتاب اور قرآن واضح کی آیات ہیں‘‘؟ (حالانکہ کتاب اور واضح قرآن ایک چیز ہیں)
اسی طرح سورۂ ’’نمل‘‘ کی ابتدائی آیت:
طٰسٓ، تِلْکَ آیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔
ترجمہ: طٰس ٓ، یہ قرآن یعنی ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔
طٰس ٓ: ’’یہ قرآن اور ایک کتاب واضح کی آیتیں ہیں‘‘ کے ترجمے سے شک پڑتا ہے کہ شاید ’قرآن‘ اور شے ہو اور ’کتاب واضح‘ اور چیز! حالانکہ قرآن اور کتاب واضح ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ ’’واؤ‘‘ تشریح اور تفسیر کے لیے (یعنی کے معنوں میں) بھی استعمال ہوتی ہے۔ آیت زیر نظر (قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ) میں بھی ’واؤ‘ توضیحی و تفسیری ہی ہے۔
آپ کا ترجمہ دراصل یوں ہونا چاہئے تھا:’’تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی یعنی ایک ایسی حق نما کتاب آگئی ہے جس کے ذریعے…‘‘۔
اور تشریحی نوٹ (حاشیہ نمبر ۳۸) یوں ہوتا تو درست ہوتا،’’… جو شخص اللہ کی کتاب سے روشنی حاصل کرتا ہے اسے فکر و عمل…‘‘
رہا رسول کا ذکر تو وہ اسی آیت کے پہلے حصے میں ’’یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا… عَنْ کَثِیْرٍ‘‘ کے الفاظ میں ہوچکا ہے۔
متاخرین میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں اسی حصہ کا ترجمہ: ’’تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور (وہ) ایک کتاب واضح (ہے یعنی قرآن مجید…) اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ…‘‘ کیا ہے۔
انہی کے شاگرد مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی نے اپنی انگریزی تفسیر میں اسی مقام پر ’’مبین‘‘ کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
’’مبین سے اشارہ نکلتا ہے کہ قرآن مجید نہ صرف فی نفسہٖ نور ہے بلکہ یہ دوسری اشیاء کو بھی واضح اور روشن بنا دیتا ہے‘‘۔
امید ہے کہ آپ ان گزارشات کی روشنی میں ’’تفہیم القرآن‘‘ کے اس حصہ پر نظر ثانی فرمائیں گے تاکہ ایک فریق کو اپنے غلط عقائد کے لیے غذا اور فریق دیگر کو تنقید کا موقع میسر نہ آسکے۔
جواب: آپ کا خط ملا۔ آیت قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰٰبٌ مُّبِیْنٌ کا جو ترجمہ میں نے کیا ہے، اس سے پہلے متعدد مترجمین بھی وہی ترجمہ کرچکے ہیں، اور اس کی تفسیر میں بھی میں منفرد نہیں ہوں، بلکہ متعدد اکابرین نے بھی اس کی یہی تفسیر کی ہے، پہلے چند اردو تراجم ملاحظہ کیجیے:
شاہ ولی اللہ صاحبؒ کا ترجمہ: آمد بشما از جانب خدا نورے و کتابے روشن یعنی قرآن۔
شاہ ولی الدین صاحبؒ: آئی تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور کتاب بیان کرنے والی۔
شاہ عبدالقادر صاحبؒ: تم پاس آئی ہے اللہ کی طرف سے روشنی اور کتاب بیان کرتی۔
مولانا محمود الحسن صاحبؒ: بے شک تمہارے پاس آئی ہے اللہ کی طرف سے روشنی اور کتاب ظاہر کرنے والی۔
یہ تو ہیں پچھلے بزرگوں کے ترجمے۔ اب ذرا اکابرین کی تفسیریں بھی ملاحظہ ہوں:
ابن جریرؒ نور کی تفسیر کرتے ہیں: یعنی بالنور محمداًﷺ الذی اناراللہ بہ الحق واظھر بہ الاسلام و محق بہ الشرک۔ (نور سے مراد محمدﷺ ہیں جن کے ذریعے سے اللہ نے حق کو روشن کیا، اسلام کو غالب فرمایا اور شرک کو مٹا دیا)۔
امام رازیؒ لکھتے ہیں: فیہ اقوال، الاوّل ان المراد بالنور محمد و بالکتاب القرآن۔ والثانی ان المراد بالنور الاسلام و بالکتاب القرآن۔ والثالث النور والکتاب ھو القرآن وھٰذا ضعیف لانّ العطف یوجب المغایرۃ بین المعطوف و المعطوف علیہ۔ (اس آیت کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ نور سے مراد محمدؐ ہیں اور کتاب سے قرآن۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نور سے مراد اسلام اور کتاب سے مراد قرآن ہے۔تیسرا قول یہ ہے کہ نور اور کتاب سے مراد قرآن ہی ہے مگر یہ قول کمزور ہے کیونکہ عطف میں لازم ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان مغایرت ہو)
علامہ آلوسی نے بھی اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے کہ نور سے مراد نبیﷺ کی ذات ہے۔
مولانا شبیر احمد صاحب نے اگرچہ یہ بات کہ نور سے مراد نبی کریمﷺ ہیں، لفظ شاید کے ساتھ لکھی ہے، لیکن اس کے سوا کوئی دوسری تفسیر انہوں نے بیان نہیں کی ہے۔ اس لیے معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ بھی اسی تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں، مگر ’’شاید‘‘ کالفظ انہوں نے اس بنا پر لکھا ہے کہ قرآن میں نور سے مراد حضورﷺ کی ذات ہونے کی تصریح نہیں ہے۔
آپ نے اس تفسیر پر جو اشکال یَّھْدِیْ بِہٖ کی ضمیر واحد سے وارد کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اس امر کی متعدد نظیریں موجود ہیں کہ واؤ عطف کے ساتھ دو الگ ہستیوں کا ذکر کرنے کے بعد صیغئہ واحد استعمال کیا گیا ہے اور وہاں واؤ کو عطف تفسیر کے معنی میں لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ نور میں فرمایا: وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ (آیت ۴۸) کیا یہاں آپ واؤ کو تفسیر کے معنی میں لیں گے؟ درحقیقت ایسے مواقع پر ضمیر واحد اس وجہ سے استعمال کی جاتی ہے کہ دونوں حکم میں ایک ہوتے ہیں۔ اللہ کا حکم اور رسول کا حکم دو الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی حکم ہے جو اللہ اور رسول دیتے ہیں۔ دونوں میں تخائف ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح کتاب کی ہدایت اور رسول کی ہدایت دونوں جدا جدا نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہدایت دیتے ہیں۔
باقی رہا آپ کا یہ خیال کہ اس تفسیر سے بعض لوگ غلط استدلال کرسکتے ہیں، تو اس کے متعلق میں یہ عرض کروں گا کہ اصل گمراہی نبیﷺ کی ذات کو نور ہدایت قرار دینا نہیں ہے بلکہ آپؐ کی بشریت کا انکار ہے۔ آپؐ کے لیے محض لفظ نور کے استعمال سے اگر کوئی شخص یہ استدلال کرتا ہے کہ آپؐ بشر نہ تھے کیونکہ قرآن میں آپؐ کو ’’نور‘‘ کہا گیا ہے، تو وہ آخر اس بات کا کیا جواب دے گا کہ قرآن میں تو آپ کو سراج منیر (روشنی دینے والا چراغ) بھی کہا گیا ہے، پھر کیا اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبیﷺ بشر نہ تھے بلکہ ایک ’’چراغ‘‘ تھے۔
(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۷ء)