سات آسمانوں کی حقیقت
سوال قرآن کریم کی ظاہری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سات آسمان چند مخصوص مواضع کا نام ہے جو اس زمین سے علیحدہ مکانات ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے اوپر چھت کی طرح ہیں مثلاً سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ۔ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا۔ وَزَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْعَ۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کے باقاعدہ دروازے ہوں گے مثلاً وَّفُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتْ اَبْوَابًا احایث میں اس کی تشریح حدیث معراج میں ملتی ہے۔ جس میں صریح طور پر سات آسمانوں کو ساتھ علیحدہ علیحدہ مکانات تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر آپ نے تفہیم القرآن جلد ۱ سورہ بقرہ حاشیہ ۳۴ کے تحت لکھا ہے کہ ’’بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے‘‘۔
ازراہ کرم اس عبارت کی ان نصوص کی روشنی میں تشریح کریں تاکہ آپ کا بیان کردہ نظریہ پوری طرح ذہن نشین ہوجائے۔
جواب: جو اشیا کبھی انسان کے علم اور تجربے میں نہیں آئی ہیں ان کے لیے انسانی زبان میں الفاظ نہیں پائے جاتے، ایسی چیزوں کا جب قرآن و حدیث میں ذکر کیا جاتا ہے تو انسانی زبان کے وہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو انسان نے اپنے دائرہ محسوساس میں پائی جانے والی اشیاء کے لیے وضع کیے ہیں۔ ان الفاظ کو بالکل ان کے لغوی معنی میں لے لینام درست نہیں ہے، بلکہ ان کی مدد سے غیر محسوس اشیاء کے متعلق صرف ایک اجمالی تصور ذہن میں قائم کرنا چاہیے۔ تاہم اگر کوئی شخص چھت کا لفظ سن کر اپنے گھر کی چھت کا خیال کرسکتا ہو، اور دروازے کے لفظ سے اس کے ذہن میں صرف وہی تصویر آسکتی ہو جو اپنے گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں سے اس کے مشاہدے میں آتی رہی ہے تو وہ بیچارہ معذور ہے، اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ جس طرح بات کو سمجھنے کی قدرت رکھتا ہے اس سے زیادہ وسیع مفہوم میں اسے سمجھے۔
(ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۶ء)