تصوف سے متعلق چند تصریحات
سوال: میں دعوت الی اللہ اور اقامت دین اللہ کے کام میں آپ کا ایک خیر خواہ ہوں، اور مل کر کام کرنے کی ضرورت کا احساس رکھتا ہوں۔ میں آپ کی طرف سے لوگوں کے اس اعتراض کی مدافعت کرتا رہتا ہوں کہ آپ تصوف کو نہیں مانتے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے میرے ایک سوال کا جواب دیا تھا کہ میرے کام میں اہل تصوف اور غیر اہل تصوف سب کی شرکت کی ضرورت اور گنجائش ہے۔ باقی میں جب صوفی نہیں ہو تو مکار نہیں بن سکتا کہ خواہ مخواہ تصوف کا دعویٰ کروں۔ آپ کا یہ جواب سیدھا ساہ اور اچھا تھا مگر قلم کی لغزش انسان سے ہوسکتی ہے۔ آپ اپنے رسالے ہدایات (صفحہ ۳۱) میں لکھتے ہیں:
”ذکر الٰہی جو زندی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں، جو بعد کے ادوار میں صوفیاء کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے۔“
یہ چوٹ اگر آپ جمیع صوفیہ پر نہ کرتے تو آپ کی دعوت کو کیا نقصان پہنچتا؟ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو واقعی صوفیہ کا حال معلوم نہیں یا آپ صوفیہ سے نفرت ظاہر کرکے تحریک اسلامی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ امید ہے کہ آپ اپنی اس عبارت میں تبدیلی کردیں گے“۔
جواب: کسی مسئلے میں کسی شخص یا گروہ سے اختلاف کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ آدمی اس شخص یا گروہ کا مخالف ہے یا اس کا دشمن، یا جملہ مسائل میں اسے غلط کار سمجھتا ہے۔ آخر آپ حضرات خود شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کی بہت سی آرا سے اختلاف کرتے ہیں اور بسا اوقات بڑے زور و شور سے ان کی آرا کے خلاف استدلال کرتے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی لینے میں کوئی شخص حق بجانب ہوگا کہ آ پ ان آئمہ ثلاثہ اور ان کے پیرو و علما کے مخالف ہیں اور ان کو قاطبۃً خطا کار قرار دیتے ہیں اور ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں؟
اس لیے میری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے اس طرز فکر پر نظر ثانی فرمائیں اور اختلاف رائے کو مخالفت و عداوت اور عناد کے ساتھ خلط ملط نہ فرمائیں۔
میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کا جو طریقہ قرآن و سنت اور صحابہؓ سے ثابت ہے وہی کافی ہے اور اسی پر ہمیں اکتفا کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہے اور اس میں کمی و بیشی کرنا درست ہے نہ مفید۔ اس سے ہٹ کر جو طریقے جس نے ایجاد کیے ہیں، یا دوسرے ادیان و ملل کے متبعین سے اخذ کیے ہیں، ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس رائے میں اگر کوئی غلطی ہے تو آپ اس پر مجھے دلائل کے ساتھ متنبہ فرمائیں۔ میں پھر اس پرغور کروں گا۔ لیکن میں اس الزام سے برأت ظاہر کرتا ہوں کہ اس اختلاف رائے کی وجہ سے میں صوفیا کا مخالف ہوں، یا تصوف کا دشمن ہوں، یا اہل تصوف کو بالکلیہ مطعون کرتا ہوں۔
سوال: آپ نے تھوڑی سی بدگمانی سے کام لے کر یہ سمجھا کہ شاید میں اختلاف اور مخالفت میں فرق نہیں کرتا۔ الحمد اللہ مولانا……ؒ نے ہم کو ایسی تربیت دی ہے کہ ہم دونوں میں فرق کریں۔ اصلاح باطن کے بارے میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے، بعینہٖ یہی نصیحت ہم اپنے متعلقین کو کرتے ہیں۔ ہم میں اور آپ میں شاید کوئی لفظی اختلاف ہو رہا ہو۔ مثلاً شوافع و حنابلہ سے ہم اختلاف کرتے ہیں مگر ہم یہ ہر گز نہیں کہتے ہیں کہ امام شافعیؒ کی رائے غیر صحیح یا باطل ہے۔ مزید آپ یہ فرماتے ہیں کہ وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیا کے مختلف گروہوں نے ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے، میں ان کی چند مثالیں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ نیز یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جو شخص صحیح کے خلاف طریقے پر ہے، اس کو آپ کیا فرمائیں گے؟ میں تو اس کے ساتھ صرف اختلاف نہیں بلکہ مخالفت بھی رکھتا ہوں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ ایک شخص کو صحیح کے خلاف طریقے پر بھی سمجھیں اور پھر اس کے ساتھ مخالفت بھی نہ رکھیں۔
جو طریقہ کتاب و سنت سے ہٹ کر نہ ہو، بلکہ اس کی روح اور مغز تک پہنچنے کے لیے ایجاد کیا گیا ہو، اس کو غالباً آپ اپنے اصول کے مطابق اجتہاد فرمائیں گے (بدعت نہیں فرمائیں گے)۔ اسے قبول کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار حاصل ہے مگر اسے باطل یا غیر صحیح نہیں فرماسکتے۔ اگر آپ فرمائیں گے تو پھر اس سے نہ صرف اختلاف رائے ہوگا بلکہ مخالفت ضروری ہوگی۔
ان امور کے بارے میں تصریح فرمادیں تو بحث ختم ہوجائے گی۔
جواب:پچھلے عنایت نامے کے جواب میں شاید میں اپنی بات آپ کے سامنے پوری واضح نہ کرسکا۔ اسی لیے آپ کو پھر اس سلسلے میں کچھ ارشاد فرمانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ورنہ اگر مدعا آپ پر واضح ہوجاتا تو امید نہ تھی کہ یہ ضرورت محسوس ہوتی۔ مختصراً اپنی بات کی پھر وضاحت کرتا ہوں۔
یہ تو آپ جیسے صاحب علم سے مخفی نہیں ہے کہ المجتھد یُخْطی ویُصِیْب پھر یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ سلف سے خلف تک اہل علم نے نہ تو یہ طریقہ کبھی اختیار کیا ہے کہ جس کے فضل و شرف کے قائل ہوں۔ اس کو بے خطا سمجھیں، اور نہ یہی ان کا طریقہ رہا ہے کہ جس کے اجتہاد میں کسی چیز کو غلط اور خطا سمجھیں، اس کی مخالفت پراتر آئیں اور اس کے فضل کا انکار کردے۔ اس کی بجائے انہوں نے جس چیز کو خطا سمجھ، اسے دلیل کے ساتھ رد کردیا۔ مگر اجتہاد کی غلطی کو کسی صاحب فضل کے فضل میں قادح نہیں مانا۔ وہ خطائے اجتہادی کو خطا بھی کہتے ہیں اور اس سے اختلاف بھی کرتے تھے، مگر اس کے ساتھ مجتہد کا احترام بھی ملحوظ رکھتے تھے اور اس کی خطا کے سبب سے اس کے صواب پر پانی نہ پھیر دیتے تھے۔
یہی مسلک اس معاملہ میں میرا بھی ہے۔ میں یہ نہیں مان سکتا کہ مثلاً جن بزرگوں نے سماع کو تقرب الی اللہ کے ذریعہ کی حیثیت سے اختیار کیا، ان کا اجتہاد صحیح تھا یا مثلاً جن حضرات نے تصور شیخ کا طریقہ اختیار کیا، وہ اپنے اجتہاد میں صائب تھے۔ میں ان چیزوں کو غلط سمجھتا ہوں اور ان سے اختلاف کرنا اور لوگوں کو ان سے اجتناب کا مشورہ دینا ضروری سمجھتا ہوں مگر اس کے ساتھ ان صوفیائے کرام کی شان میں کوئی گستاخی کرنا درست نہیں سمجھتا جن کی طرف یہ طریقے منسوب ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ اگست ۱۶۹۱ء)