مسئلہ حیات النبیﷺ
سوال: آج کل دینی حلقوں کی فضا میں حیات النبیﷺ کا مسئلہ ہر وقت گونجاتا رہتا ہے اور علمائے کرام کے نزدیک موضوع سخن بنا ہوا ہے۔ شروع میں تو فریقین اپنی اپنی تائید میں علمی دلائل دے رہے تھے مگر اب تکفیر بازی، طعن و تشنیع اور پگڑی اچھالنے تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ الاما شاء اللہ۔
بعض مساجد میں بآواز بلند کہا جارہا ہے کہ انبیاء اسی طرح زندہ ہیں جس طرح کہ دنیا میں زندہ تھے اور حیات النبیﷺ کا منکر کافر ہے۔ بعض دوسرے حضرات حیات جسمانی کے عقیدے کو مشرکانہ بلکہ منبع شرک قرار دے رہے ہیں۔ جہاں تک فضائل کا تعلق ہوتا ہے وہاں ادنیٰ سے ادنیٰ بات جو قرآن کریم اور خبر متواتر کے خلاف نہ ہو، مانی جاسکتی ہے۔ لیکن جب بات عقیدہ کی حد تک پہنچ جائے، تو وہاں قطعی الثبوت دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ براہ کرم میرے دل کی تسلی اور تشفی کے لیے حیات النبیﷺ پر روشنی ڈالیں۔
جواب: حیات النبیﷺ کے بارے میں آج کل جس طریق پر علمائے کرام کے مابین بحث چل رہی ہے، اس کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ اس کا کچھ حاصل ہی ہے۔ عقیدے کی حد تک ہمارا اس بات پر ایمان کافی ہے کہ آنحضورﷺ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور آپؐ کی ہدایت ابد تک کے لیے کامل ہدایت ہے، عمل کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ ہم آنحضورﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں جسے معلوم کرنے کی خاطر قرآن اور حدیث اور سنت ہمارا مرجع و منبع ہے۔ اب آخر اس بحث کی حاجت ہی کیا ہے کہ نبی کریمﷺ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کس معنی میں زندہ ہیں۔ برزخی و روحانی حیات ہو یا جسمانی حیات، بہرحال اس امر واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آنحضورﷺ کا ۱۱ ہجری میں وصال ہوچکا ہے، امت کی ہدایت کے لیے آپ بنفس نفیس ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، اور آپؐ کا اتباع کرنے کے لیے ہمیں آپؐ کی ذات اقدس کی طرف رجوع کرنے کی بجائے قرآن اور حدیث ہی کی طرف رجوع کرنا ہے۔ حیات برزخی یا حیات جسمانی کی بحث کا کوئی بھی فیصلہ ہو، اس سے اس امر واقعہ میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔
پھر یہ بحث اس لیے بھی غیر ضروری اور لاطائل ہے کہ ہم اس خاص معاملے میں کوئی متعین عقیدہ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے مکلف ہی نہیں کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس مسئلے سے بالکل خالی الذہن ہویا اس میں رائے قائم کیے بغیر مرجائے تو اس کے ایمان میں کوئی نقص واقع نہ ہوگا، نہ آخرت میں اس سے پوچھا جائے گا کہ تو نے حیات النبیﷺ کے برزخی و جسمانی ہونے کے بارے میں عقیدہ کیا رکھا تھا۔ قرآن و حدیث میں کوئی ایسی واضح اور قطعی ہدایت اس باب میں نہیں دی گئی جو ہمیں ایک خاص عقیدہ رکھنے کا پابند کرتی ہو، نہ یہ مسئلہ صحابہ کرامؓ کے درمیان زیر بحث تھا، نہ آنحضورﷺ کے جانشینوں نے کسی کو اس معاملے میں کوئی خاص عقیدہ رکھنے کی کبھی تلقین کی۔
میں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حیات النبیﷺ کے مسئلے میں حضرات علما وہی غلطی کر رہے ہیں جو خلق قرآن کے بارے میں خلیفہ مامون نے کی تھی۔ یعنی جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسلام کا ایک عقیدہ اور ایمانیات کا ایک رکن قرار نہیں دیا تھا اور نہ جسے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کی نجات کا مدار رکھا تھا، اور نہ جس پر اعتقاد رکھنے کی خلق کو دعوت دی تھی، اسے خواہ مخواہ عقیدہ اسلام اور رکن ایمان بنایا جارہا ہے، اس کے ماننے یہ نا ماننے کو مدار نجات قرار دیا جارہا ہے، اس پر اعتقاد رکھنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور اعتقاد نہ رکھنے والوں کی تکفیر و تفسیق کی جارہی ہے، دین میں جن چیزوں کی یہ حیثیت تھی ان کو صاف صاف اور حتمی طور پر بیان کردینے میں اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور علیٰ روٗس الاشہادان کی طرف دعوت دی ہے۔ یہ مسئلہ ہر گز ان مسائل میں سے نہیں ہے اور اسے زبردستی ان مسائل میں شامل کرنا یا ان کا سا درجہ دینا کلیۃً غلط کاروائی ہے۔ اگر کوئی شخص اس مسئلے میں قطعاً خالی ذہن ہو یا اس کے بارے میں کوئی عقیدہ و رائے نہ رکھتا ہو، اس سے قیامت میں کوئی باز پرس نہ ہوگی اور اس کے انجام اخروی پر اس عدم رائے یا خلوئے ذہن کا کوئی اثر مترتب نہ ہوگا۔ البتہ خطرے میں وہ شخص ہے جو اس مسئلے میں ایک عقیدہ قائم کرتا اور اس کی تبلیغ کرتا ہے، کیوں کہ اس کے عقیدے میں صحت اور عدم صحت دونوں کا احتمال ہے۔
(ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۵۹ء)