واقعہ قرطاس کی تحقیق
سوال:رسول اللہﷺ کی وفات کے وقت مشہور واقعہ قرطاس کی اصل نوعیت کیا ہے؟ حضرت عمرؓ کا اس معاملہ میں کیا موقف ہے؟
جواب: اس واقعہ کے متعلق امام بخاریؒ نے کتاب العلم، کتاب الجزیہ اور کتاب المغازی میں، امام مسلمؒ نے کتاب الوصیۃ میں، اور امام احمدؒ نے مسند ابن عباس میں متعدد روایات مختلف سندوں سے نقل کی ہیں جن کا سلسلہ ابن عباسؓ پر تمام ہوتا ہے۔ کسی دوسرے صحابی سے اس باب میں کوئی صریح روایت منقول نہیں ہوئی ہے۔ خلاصہ ان سب روایات کا یہ ہے کہ وفات سے چار روز پہلے جمعرات کے دن حضور نبی کریمﷺ پر مرض کی شدید تکلیف طاری تھی اور آخری وقت قریب معلوم ہو رہا تھا۔ اس حالت میں آپؐ سے حاضرین سے فرمایا کہ لکھنے کا سامان لاؤ، میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اس وقت گھر میں بہت سے لوگ جمع تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا رسول اللہ اس وقت سخت تکلیف میں ہیں، ہمارے پاس قرآن مجید موجود ہے، اللہ کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے۔ اس پر اختلاف ہوگیا۔ بعض لوگوں نے کہا، نہیں سامان کتابت لے آنا چاہیے تاکہ حضورﷺ وہ چیز لکھوادیں جس کے بعد ہم گمراہ نہ ہوسکیں اور بعض اصحاب نے حضرت عمرؓ کے خیال کی تائید کی۔ کچھ اور لوگوں نے کہا کہ حضورﷺ سے پھر دریافت کرلو، آپؐ واقعی کچھ لکھوانا چاہتے ہیں یا یہ بات آپؐ نے غلبۂ مرض کی وجہ سے گھبراہٹ میں فرمائی ہے۔ اس طرح بعض لوگ آپس میں بحث کرنے لگے اور بعض حضورﷺ سے آپؐ کا مدعا پوچھنے میں لگ گئے۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا:
ذَرونِیْ فَالَّذِیْ اَناَ فِیْہِ خَیْرٌ مِّمَّا تَدْعُوْنِیْ اِلَیْہِ۔ قُوْمُوْا عَنِّیْ وَلَاَ یْنَبَغِیْ عِنْدِیْ التَّنَازُعَ۔
’’مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، میں جس حالت میں ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔ میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے پاس جھگڑا کرنا ٹھیک نہیں ہے‘‘۔
اس کے بعد حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ دوسری یہ کہ جو وفود باہر سے آئیں، ان کی اسی طرح خاطر داری کرنا جس طرح میں کرتا تھا۔ اور تیسری بات حضورﷺ کی زبان سے ادا نہ ہوئی، یا راوی سے فراموش ہوگئی۔ روایات اس باب میں بھی واضح نہیں ہیں کہ ابن عباسؓ نے اس کو فراموش کیا یا بیچ کے کسی راوی نے۔
یہ ہے کل کائنات اس قصے کی۔ اگر کوئی سیدھے طریقے سے یہ بات سمجھنا چاہے تو اصل صورت معاملہ کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی۔ اپنے محبوب ترین پیشوا اور رہبر کو دنیا سے رخصت ہوتے دیکھ کر سب لوگوں پر اضطراب کا عالم طاری تھا۔ مرض شدت پکڑ چکا تھا۔ سب کی آنکھوں کے سامنے حضورﷺ سخت کرب کی حالت میں مبتلا تھے۔ ابن عباسؓ کا اپنا حال یہ تھا کہ اس واقعہ کے سالہا سال بعد ایک روز شاگردوں کے سامنے ان کی زبان پر جمعرات کا لفظ آیا اور یکایک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ شاگردوں نے پوچھا جمعرات کا کیا قصہ ہے جسے یاد کرکے آپ یوں بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔ فرمایا وہ دن آنحضرتﷺ پر سخت تکلیف کا تھا (اِشْتَدَّ بِالنَّبِیِّﷺ وَجْعَہٗ) اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عین اس وقت جب کہ حضورﷺ پر یہ حالت طاری تھی، آپ کے ہاں جاں نثار خادموں پر کیا گزری ہوگی۔ اس حالت میں قلم دوات منگوانے کے لیے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا اور غرض یہ بیان فرمائی کہ ایسی کوئی چیز لکھوادیں جس سے امت بعد میں گمراہ نہ ہونے پائے۔ مرض کی شدت میں ممکن ہے کہ بات صاف بھی زبان مبارک سے ادا نہ ہوئی ہو۔ اسی وجہ سے حاضرین کو شبہ ہوا کہ گھبراہٹ میں آپؐ نے کچھ فرمایا ہے جسے پھر پوچھ کر تحقیق کرنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر جو کچھ کہا، اس کا صاف مطلب تھا کہ ’’حضورﷺ اس وقت سخت تکلیف میں مبتلا ہیں، اس حالت میں آپؐ امت کے لیے فکر مند ہو رہے اور کچھ لکھوانے کی زحمت اٹھانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ آپؐ کے بعد گمراہ نہ ہونے پائیں۔ لیکن اس وقت آپؐ کو یہ زحمت دینا مناسب نہیں ہے، امت کی ہدایت کے لیے قرآن موجود ہے، انشاء اللہ وہی گمراہی سے بچانے کے لیے کافی ہوگا‘‘۔ ممکن ہے اس کے ساتھ حضرت عمرؓ کو یہ بھی اندیشہ ہوا ہوکہ اگر تحریر لکھواتے لکھواتے حضورﷺ کا وقت آن پورا ہوا اور بات ادھوری رہ گئی تو کہیں وہ الٹی فتنے ہی کی موجب نہ بن جائے۔ بہرحال یہ بالکل فطری امر تھا کہ اس موقع پر کوئی علم اور ہدایت کی حرص میں اس بات کا طالب ہوا کہ حضورؐ سے ضرور کچھ لکھوالیا جائے، اور کوئی اس شک میں پڑ گیا کہ حضورﷺ واقعی کچھ لکھوانا چاہتے ہیں یا شدت مرض کی وجہ سے گھبراہٹ میں کچھ فرما رہے ہیں۔ ان تینوں قسم کے لوگوں میں سے کسی کی بات بھی ایسے موقع پر نہ تو خلاف توقع تھی اور نہ اسے نا مناسب کہا جاسکتا ہے۔
اب رہ گئی یہ بات کہ حضورﷺ جو کچھ لکھوانا چاہتے تھے، آیا اس کی نوعیت عام نصائح کی سی تھی یا کسی ایسے اہم حکم کی جسے ثبت کرادینا امت کی ہدایت کے لیے ضروری تھی تو اس کا فیصلہ بعد کے واقعات نے خود ہی رد کردیا۔ حضورﷺ اس واقعہ کے بعد بھی چار دن تک زندہ رہے۔ ان دونوں میں مرض کی شدت کا حال بھی یکساں نہیں رہا اور اس زمانے میں وہی سب لوگ آپؐ کے پاس بیٹھے بھی نہیں رہے جو جمعرات کے دن اس وقت خاص پر موجود تھے، بلکہ اس مدت میں آپؐ کو مسجد نبوی میں تشریف لے جانے اور جماعت صحابہ کرامؓ سے خطاب کرنے کا موقع بھی ملا تھا۔ اگر واقعی کوئی اہم حکم ایسا ہوتا جسے ضبط تحریر میں لانا ضروری تھا تو حضورﷺ ان دنوں میں کسی وقت بھی اپنے کاتبوں میں سے، یا خود اہل بیت میں سے کسی کو بلا کر اسے لکھواسکتے تھے یا زبانی ارشاد فرماسکتے تھے۔ اس سے حضرت عمرؓ کے اس موقف کی صحت بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ انہوں نے ٹھیک سمجھا تھا کہ شدت مرض میں امت کی فلاح کے لیے حضورﷺ فکر مند ہو رہے ہیں اور کچھ نصائح لکھوانا چاہتے ہیں، کسی بنیادی مسئلے کا فیصلہ لکھوانا اس حالت میں پیش نظر نہیں ہے۔ اس لیے اس تکلیف اور کرب کے عامل میں حضورﷺ کو یہ زحمت دینا ٹھیک نہیں، ہمیں قلم دوات لانے کی بجائے حضورﷺ کو یہ اطمینان دلانا چاہیے کہ آپؐ ہمارے لیے پریشان نہ ہو، آپؐ اپنی امت کو وہ کتاب ہدایت دے کرجا رہے ہیں،جو انشاء اللہ اسے کبھی گمراہ نہ ہونے دے گی۔
آخر میں حضرت علیؓ کی بھی ایک روایت ملاحظہ فرمالی جائے، جسے مسند احمد میں نقل کیا گیا ہے۔ اس میں حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
اَمَرَنِی اَنَ اتِیْہِ بِطَبقٍ یَکْتُبُ فِیْہِ مَالَا تَضِلُّ اُمَّۃٌ بَعْدِہٖ قَالَ فَخَشَیْتُ اَنْ تَفُوْتَنِیْ نَفْسُہٗ قَالَ قُلْتُ اِنِّی اَحْفَظُ وَاَعِیْ قَالَ اُوْصِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزّکوٰۃِ وَمَا مَلَکَت اَیْمَانُکُمْ۔
’’مجھے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ شانے کی ایک ہڈی لے آؤں تاکہ آپؐ اس پر ایک ایسی چیز لکھ دیں جس سے آپؐ کی امت آپؐ کے بعد گمراہ نہ ہو۔ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں اس کے لاتے لاتے آپؐ کی وفات نہ ہوجائے۔ اس لیے میں نے عرض کیا، آپؐ فرمائیں، میں یاد رکھوں گا۔ اس پرحضورﷺ نے فرمایا، میں وصیت کرتا ہوں نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرنے کی اور ان غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی جو تمہارے ملک میں ہوں‘‘۔
(ترجمان القرآن۔ نومبر ۱۹۵۸ء)