بعض فقہی و اعتقادی اختلافات اور ان کی نوعیت
سوال: چند متفرق امور کے بارے میں سوالات ارسال ہیں، مختصر جوابات دے کر مطمئن فرمائیں۔
(ا) شیطان اور نفس امارہ کے حملوں سے بچنے کے لیے کون کون سے شرعی اصول ضوابط اختیار کیے جائیں تاکہ حلاوت ایمان نصیب ہو اور کفر و عصیان سے دل بے زار ہو۔ کیا اوراد و ظائف بھی اس مقصد کے حصول میں معاون ہوسکتے ہیں؟
(ب) اگر حیات طیبۂ نبویہﷺ کے واقعات کو مآخذ دین کی حیثیت حاصل ہے اور ان سے تشریعی احکام کا انتزاع نا گزیر ہے تو ان کی کتابت و تدوین عہد نبویؐ میں کیوں نہیں ہوئی۔
(ج) یہ بات مشہور ہے اور کتب متداولہ نیز ابن حزم کی اجتہاد و قیاس کے خلاف یورش سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ وہ امام داؤد ظاہریؒ اور ان کے اتباع، اجتہاد، استنباط، قیاس اور استحسان کے شدید مخالف ہیں۔ لیکن خود ابن حزم ہی کی کتابوں سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اجتہاد کے عادی ہیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ حقیقت الامر کیا ہے؟ کیا یہ کوئی تعبیر کا فرق ہے یا سچ مچ وہ اجتہاد کے قائل نہیں ہیں اور اگر نہیں ہیں تو ان کے اپنے اجتہاد کی توجیہ اور پس منظر کیا ہے؟
(د) اہل تشیع کی کتب حدیث اور ان کے مؤلفین کا کیا پایہ ہے؟
(ہ) سب سے پہلے حجیت حدیث کا انکار کس نے کیا ہے، اس کی نوعیت و علت کیا تھی؟
جواب: آپ کے ارشاد کے مطابق بموجب مجمل جوالات حاضرہیں۔
(ا)نفس امارہ سے بچنے کے لیے ایک ہی کار گر ہتھیار ہے اور وہ ہے خوف خدا کے استحضار کے ساتھ محاسبۂ نفس، اوراد و وظائف اس میں مدد گار ہوسکتے ہیں مگر دو شرطیں لازم ہیں۔ ایک یہ کہ ذکر کے ساتھ فکر بھی ہو، دوسرے یہ کہ ابتداع سے پرہیز کرکے ان اذکار و ادعیہ پر قناعت کی جائے جو قرآن و حدیث صحیح میں وارد ہیں۔
(ب) احادیث کے منضبط نہ کیے جانے کی وجہ سمجھنے کے لیے اس وقت کے ماحول کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ اس وقت لکھنے پڑھنے والے کم تھے اور سامان کتابت اور بھی زیادہ کم یاب تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید کو محفوظ کرنے کے لیے بھی کھجور کے پتے، جھلیاں، تختیاں وغیرہ استعمال کی جاتی تھیں۔ اب یہ آخر کس طرح ممکن تھا کہ حضورﷺ کے ساتھ ہر وقت ایک کاتب کاغذ قلم لیے لگا رہتا اور تمام حرکات و سکنات قلم بند کرتا رہتا۔ ویسے بھی یہ بات غیر فطری ہے کہ ایک آدمی کے ساتھ سفر و حضر میں اور حلوت و جلوت میں کاتبین لگے رہیں اور ہر تقریر، گفتگو، فعل، ترک فعل، سکوت وغیرہ کو لکھتے رہیں اور ظاہر ہے کہ جب کتابت کا اصول لازم کردیا جاتا تو پھر آنحضورﷺ کے بعض اعمال و اقوال کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا تھا اور انہیں بتمام و کامل احاطہ تحریر میں لانا قطعاً محال اور عملاً نا ممکن تھا۔ آپؐ کا قول و فعل بلاشبہ شک و شبہ حجت ہے اور اسے ہونا ہی چاہیے۔ لیکن حجت ہونے کے ساتھ آخر یہ کب ضروری ہے کہ ہر چیز ہر وقت فوراً لکھ ہی لی جائے۔ جب یہ ثابت ہے کہ آنحضورﷺ کے قول و فعل کا حجت ہونا صحابہ کرامؓ کے ذہن نشین تھا تو یہ بات عین تقاضائے عقل و فطرت ہے کہ انہوں نے ہر بات کو غور سے دیکھا اور سنا ہوگا، آپس کے معاملات میں وہ ان افعال و اقوال سے سند لاتے ہوں گے اور ہر معاملہ میں یہ خیال رکھتے ہوں گے کہ کیا کچھ حضورﷺ سے ثابت ہے اور کیا کچھ ثابت نہیں ہے۔ یہ سنت نبویﷺ کی حفاظت کا فطری راستہ تھا اور یہی امت نے اختیار کیا۔
قرآن تو ایک قابل کتابت چیز تھا اور مختصر تھا، اس لیے لکھ لیا گیا۔ مگر حضورﷺ کی تئیس سالہ زندگی کے احوال اور حرکات و سکنات کو اور اس ماحول کو جس میں حضورﷺ نے یہ سب کام سر انجام دیے۔ عالم واقعہ میں آتے ہی عالم تحریر میں نہیں لایا جاسکتا تھا۔ مجرد ظہور کے وقت تو یہ سارے امور ذہنوں اور حافظوں میں ہی محفوظ کیے جاسکتے تھے اور دیکھنے والوں سے سننے والوں تک زبانی ہی پہنچائے جاسکتے تھے۔ چنانچہ یہ عمل پورے استیعاب، تواتر اور تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ حتیٰ کہ باقاعدہ مفصل تدوین وہ کتابت کے لیے جملہ سازو سامان اور آسانیاں مہیا ہوگیں اور سنت کا یہ عظیم الشان ذخیرہ سینوں سے سفینوں میں منتقل ہوگیا۔
(ج) اجتہاد و استنباط اور قیاس و استحسان ایک ایسی چیز ہے جس سے کسی طرح مفر نہیں ہے۔ جو شخص بھی محدود احکام منصوصہ کو غیر محدود احوال انسانی پر منطبق کرنے کی کوشش کرے گا، اسے لامحالہ ان چیزوں سے کام لینا پڑے گا۔ اصل اختلاف ان چیزوں کے بالفعل استعمال میں نہیں ہے بلکہ استعمال کی کثرت و قلت میں ہے۔ یا پھر ان الفاظ و اصطلاحات میں ہے جن سے ان کے معنی کو تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک شخص کی تعبیر پر دوسرا شخص قدح کرتا ہے، اور لوگوں میں مشہور ہوجاتا ہے کہ وہ سرے سے اس چیز کا قائل ہی نہیں۔ ایک شخص استکثار پر عملاً یا قولاً زور دیتا ہے اور دوسرا اس پر کچھ اس شان سے معترض ہوتا ہے کہ گویا اس کا اعتراف کثرت استعمال پر نہیں بلکہ نفس شے کے استعمال پر ہے۔ ان اشارات کو نگاہ میں رکھ کر آپ نہ صرف امام داؤد ظاہریؒ اور ابن حزم کے مسلک کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ ان اختلافات کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں جو مثلاً اہل الرائے اور اہل الحدیث میں قیاس ورائے کے استعمال پر ، اور امام مالک ؒاور امام شافعیؒ میں استحسان و مصالح مرسلہ کے مسئلے پر ہوئے ہیں۔
(د) اہل تشیع کی فقہ و حدیث کا وسیع مطالعہ کیے بغیر اس کے بارے میں کوئی تفصیلی اور محققانہ رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ فی الجملہ جو کچھ کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اور ان کے ذخیرہ حدیث میں بنیادی اختلاف یہ ہے کہ وہ صحابہ کی عظیم اکثریت کو چھوڑ کر صرف اہل بیت کی روایات پر اعتماد کرتے ہیں اور اہل بیت کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر محدود ہے۔ لیکن ہم اہل سنت، اہل بیت اور جملہ صحابہ کی روایات لیتے ہیں۔ نیز ان کی راویوں میں بڑی تعداد ایسے غالی حضرات کی ہے جو اپنے خیالات میں نہایت متشد تھے اور انہوں نے واقعات کو اپنے مخصوص رنگ میں رنگ دیا ہے۔
(ہ) غالباً حجیت حدیث کے اولین منکرین خوارج اور معتزلہ ہیں۔ خوارج نے اس لیے حدیث کا انکار کیا ہے کہ ان کے مسلک کی اکثر باتیں حدیث کے خلاف پڑتی تھیں اور معتزلہ نے اس لیے انکار کیا کہ دوسرے مذاہب اور فلسفیانہ مسالک کے لوگوں سے بحثیں کرکے انہوں نے اسلام اور اس کے متعقدات کی حقانیت کا اثبات جن دلائل پر موقوف سمجھ لیا تھا، ان میں سے اکثرحدیث سے ٹکراتے تھے۔ اسی طرح مناظروں کے بعد انہوں نے عقائد کی جو شکل بنائی تھی، وہ بھی احادیث سے مطابق نہ تھا اور بعض حدیث سے ثابت شدہ چیزوں کو عقلی مناظروں میں صحیح ثابت نہ کرنے کی انہیں کوئی راہ نہ ملتی تھی۔ یہ دشواری اپنے عقلی مزعومات کی بنا پر انہیں بعض آیات قرآنی کے بارے میں بھی پیش آتی تھی۔ لیکن قرآن مجید کا انکار نا ممکن تھا۔ اس لیے آیات کی تو عجیب و غریب اور دلچسپ تاویلیں کی گئیں اور احادیث کا سرے سے انکار کردیا گیا۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الثانی ۱۳۷۳ھ، مارچ ۱۹۵۴ء)