انعامی بانڈز
سوال:آج کل حکومت کی طرف سے امدادی قرضوں کے تمسکات جو انعامی بانڈز کی شکل میں جاری کیے گئے ہیں، ان میں شرکت کرنا اور ان پر متوقع انعام حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قمار نہیں۔ کیوں کہ ہر شخص کی قرض کی اصل رقم بہرحال محفوظ ہے جو بعد میں ملے گی۔ اس پر کوئی متعین شرح سے اضافہ بھی بانڈز ہولڈر کو نہیں ملتا جسے سود قرار دیا جائے۔ براہ کرم اس کاروبار کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے۔ کیوں کہ بہت سے لوگ اس معاملے میں خلجان کا شکار ہیں۔
جواب: انعامی بانڈز کے معاملہ میں صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈز بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں۔ جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہر وثیقہ دار کو اس کی دی ہوئی رقم پر فرداً فرداً سود دیا جاتا تھا، مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کرکے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے ’’انعامات‘‘ کی شکل میں دیا جاتا ہے، اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ ’’انعامات‘‘ کن کو دیے جائیں، قرعہ اندازی کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ پہلے ہر وثیقہ کو سود کا لالچ دے کر اس سے قرض لیا جاتا تھا۔ اب اس کی بجائے ہر ایک کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ شاید ہزاروں روپے کا ’’انعام‘‘ تیرے ہی نام نکل آئے، اس لیے قسمت آزمائی کرلے۔
یہ صورت واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے اور روح قمار بھی۔ جو شخص یہ وثائق خریدتا ہے وہ اولاً اپنا روپیہ جان بوجھ کر ایسے کاموں میں قرضے کے طور پر دیتا ہے جس میں سود لگایا جاتا ہے۔
ثانیاً جس کے نام پر ’’انعام‘‘ نکلتا ہے، اسے دراصل وہ سود اکھٹا ہو کر ملتا ہے جو عام سودی معاملات میں فرداً فرداً ایک ایک وثیقہ دار کو دیا جاتا تھا۔
ثالثاً جو شخص بھی یہ وثیقے خریدتا ہے، وہ مجرد قرض نہیں دیتا بلکہ اس لالچ کو قرض دیتا ہے کہ اسے اصل سے زائد ’’انعام‘‘ ملے گا اور یہ لالچ دے کر قرض لینے والا اس کو قرض دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے اس میں نیت سودی لین دین ہی کی ہوتی ہے۔
رابعاً جمع شدہ سود کی وہ رقم جو بصورت ’’انعام‘‘ دی جاتی ہے، اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس پر لاٹری میں لوگوں کے نام ’’انعامات‘‘ نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا تمام باقی لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کو مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقم قرض نہیں ماری جاتی بلکہ صرف وہ سود، جو سودی کاروبار کے عام قاعدے کے مطابق ہر دائن کو اس کی دی ہوئی رقم قرض پر ملا کرتا ہے، انہیں نہیں ملتا، بلکہ قرعہ کے ذریعے سے نام نکل آنے کا اتفاقی حادثہ ان سب کے حصول کا سود ایک یا چند آدمیوں تک اس کے پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ بعینٖہ قمار تو نہیں ہے مگر اس میں روح قمار ضرور موجود ہے۔
(ترجمان القرآن۔ جنوری ۱۹۶۳ء)