نماز کی قصر و قضا
سوال: میرے بعض عراقی دوست جو کئی سالوں سے لندن میں مقیم ہیں، اب تک نماز قصر کرکے پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مسافرت کی حد نہ تو قرآن میں آئی ہے اور نہ حدیث میں۔ فقہا کی اپنی اختراع ہے لہٰذا ہم نہیں مانتے۔ جب تک اپنے وطن سے باہر ہیں، مسافر ہیں۔ قصر کریں گے، چاہے ساری عمر لندن میں گزر جائے۔ ان کو کس طرح مطمئن کروں کہ ان کی روش غلط ہے۔
یہی حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ روزہ کی تو قضا ہے لیکن نماز کی نہیں۔ بعد میں روزہ رکھنے کا حکم قرآن میں ہے لیکن جو نماز ایک دفعہ کھو گئی، وہ ہمیشہ کے لیے کھو گئی۔ قرآن میں کہیں قضا نماز کا ذکر نہیں ، نہ ہی حدیث میں اس کے متعلق کچھ ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب: افسوس ہے کہ عرب ممالک کے نوجوان نہ تو خود دین کاکافی علم رکھتے ہیں اور نہ وہ فقہائے مجتہدین میں سے کسی کا اتباع ہی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے آئے دن ان کے عجیب عجیب اجتہادات سننے میں آتے رہتے ہیں۔ مسافر کے معاملہ میں امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور ایک روایت کی رو سے امام مالکؒ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جو شخص کسی مقام پر چار دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہو، اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ کا مسلک یہ ہے کہ دس دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت مسافر کو مقیم بنا دیتی ہے۔ امام اوزاعیؒ بارہ دن کی اور امام ابو حنیفہؒ پندرہ دن کی حد مقرر کرتے ہیں۔ علمائے اسلام میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اپنے شہر سے نکل کر کسی دوسرے مقام پر کوئی شخص چاہے، مہینوں اور برسوں رہے مگر وہ مسافر ہی رہے گا اور قصر کرتا رہے گا۔ البتہ فقہا یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی کسی مقام پر اس طرح رکا ہوا ہو کہ ہر وقت اس کے کوچ کرجانے کا امکان ہو اور ٹھہرنے کی نیت نہ ہو، تو خواہ وہاں اسے مہینوں رکا رہ جانا پڑے، وہ قصر کرسکتا ہے۔ انہی وجوہ سے نبیﷺ نے تبوک میں پندرو دن اور فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں اٹھارہ دن قصر فرمایا۔ (مسند احمد، ابوداؤد) اور انہی وجوہ سے صحابہ کرام کا لشکر آذربائیجان کی مہم میں دو مہینے قصر کرتا رہا۔ (مسند احمد)
یہ بات بھی سخت حیرت انگیز ہے کہ یہ لوگ نماز کی قضا کے قائل نہیں ہیں۔ حالاں کہ یہ چیز بکثرت احادیث سے ثابت ہے اور تمام فقہائے اسلام بالاتفاق اس کے قائل ہیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں کوئی ایک قابل ذکر فقیہ بھی اس کا قائل نہیں ہوا ہے کہ روزے کی قضا تو واجب ہے مگر نماز کی قضا واجب نہیں۔ بخاری، مسلم، نسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی اورمسند احمد میں متعدد احادیث حضرت انسؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، اور ابو قتادہ انصاریؓ سے مروی ہیں جن میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نماز کو انسان بھول جائے یا سوتا رہ جائے اور نماز کا وقت نکل گیا ہو تو جس وقت بھی اسے یاد آئے یا وہ بیدارہو اسے وہ چھوٹی ہوئی نماز پڑھ لینی چاہیے۔
یہ ہے حضورﷺ کا قولی حکم۔ رہا آپؐ کا اپنا فعل، تو ابو سعید خدریؓ، جابر بن عبداللہؓ اور عمران بن حصینؓ سے متعدد واقعات مسند احمد، بخاری، مسلم اور نسائی میں منقول ہیں جن میں وہ بتاتے ہیں کہ نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ نے چھوٹی ہوئی نمازیں ادا کی ہیں۔ ایک سفر میں رات بھر چل کر آخر وقت میں قافلے نے پڑاؤ کیا اور اترتے ہی سب پر نیند غالب ہوگئی۔ یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا تو اس کی گرمی سے لوگ بیدار ہوئے۔ حضورﷺ نے فوراً اذا ن دلوائی اور جماعت کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی۔ غزوۂ خندق میں ایک روز عصر کی نماز قضا ہوئی اور حضورﷺ نے مغرب کے وقت ادا کی۔ اور ایک اور دن اسی غزوۂ میں ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں قضا ہوئیں اور ایسے وقت یہ تینوں نمازیں ادا کی گئیں جب کہ عشاء کا وقت شروع ہو رہا تھا۔ اس کے بعد یہ کہنے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ جو نماز چھوٹ گئی، وہ معاف ہے؟