قطبین میں نماز
سوال: ترجمان، جلد، ۵ عدد ۱، میں قطبین میں اوقات سحر و افطار پر ڈاکٹر حمید اللہ کا مضمون شائع کیا گیا ہے۔ اسی بحث کو زیادہ تفصیل سے ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب انٹروڈکشن ٹو اسلام میں پیش کیا ہے پہلی دفعہ میں نے سرسری نظر سے مضمون دیکھا تو اچھا لگا۔ لیکن دوبارہ غور سے پڑھنے پر سخت قابل اعتراض محسوس ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کا استدلال یہ ہے کہ خط استوا سے قطبین کی طرف جائیں تو دن اور رات کا تفاوت بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ۴۵ درجے عرض البلد تک تو یہ تفاوت قابل برداشت ہوتا ہے لیکن اس سے آگے نہیں۔ لہٰذا اس عرض البلد سے آگے تمام مسلمان ۴۵ درجے کے اوقات طلوع و غروب کے مطابق نماز روزے کا اہتمام کریں۔
اگر اس تجویز کوما ن لیا جائے تو کینیڈا، امریکہ کے شمالی حصے، سارے یورپ، ماسوااسپین اور اٹلی کے، نیز تقریباً پورے روس کے مسلمانوں کو اپنے مقام کے طلوع و غروب کے حساب سے ارکان دین ادا کرنے کی بجائے گھڑی کے حساب سے سارے کام کرنے چاہئیں۔ میری اطلاع ہے کہ پیرس مسجد کی اقتدا میں پیرس کے مسلمان رمضان میں یہی کرتے ہیں۔ وہ ریڈیو مراکش لگائے رکھتے ہیں اور جیسے ہی مراکش میں افطار کی اذان ہوتی ہے، وہ افطار کرلیتے ہیں چاہے سورج سر پر کھڑا ہو۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
میں نے لندن کا سب سے طویل روزہ دیکھا ہے۔ سحر سے افطار تک تقریباً ۱۷ گھنٹے بنے تھے۔ لیکن پنجاب کے تیرہ چودہ گھنٹے کے روزے زیادہ مشکل معلوم ہوتے ہیں۔ اتنے طویل روزہ کے باوجود افطار کے وقت پیاس بالکل نہ ہوتی تھی۔ بھوک ضرور لگتی تھی لیکن اس سے طبیعت اتنی نڈھال نہ ہوتی تھی جتنی اپنے ہاں ہوتی ہے۔ آخر یورپ کے مسلمانوں کے لیے کیوں کر جائز ہے کو وہ مقامی طلوع و غروب کو نظر انداز کرکے مراکش کی پیروی کریں؟
میرے ایک شناسا نے ڈاکٹر حمید اللہ سے لکھ کر پوچھا تھا کہ ۴۵ عرض البلد انہوں نے کیوں تجویز کیا۔ جواب ملا کہ صحابہ کرامؓ یہیں تک گئے تھے۔ اس لیے اسے حد کے طور پر لیا ہے۔
اس مسئلہ پر آپ کی کیا رائے ہے؟ رسائل و مسائل میں آپ کے جواب نظر سے گزرے ہیں لیکن وہ بہت عمومی قسم کے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر صاحب نے اتنی تفصیل میں جا کر معمولی اور غیر معمولی منطقوں کی حدود کا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ لندن میں یہ سوال اس لیے اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ یورپین نو مسلم سورج کی بجائے گھڑی کے مطابق عبادات قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کا بس چلے تو جمعہ کی نماز اتوار کو ادا کریں۔ یہ تجویز کئی دفعہ میرے سامنے آئی ہے۔
جواب: قطبین کے قریبی علاقوں کے اوقات عبادت کے معاملہ میں مجھے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے اجتہاد سے قطعاً اتفاق نہیں ہے۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں رات اور دن کا الٹ پھیر ۲۴ گھنٹے کے اندر ہوجاتا ہے۔ ان میں روزہ و نماز کے اوقات اسی قاعدے پر ہونے چاہئیں جو خط استوا سے قریب تر مقامات کے لیے ہے، خواہ رات دو ہی گھنٹے کی ہو یا دن دو گھنٹے کا رہ جائے۔ البتہ اس کے آگے جہاں رات اور دن ۲۴ گھنٹوں سے متجاوز ہوجاتے ہیں، وہاں گھڑیوں کے حساب سے اوقات مقرر کیے جائیں اور ایسے مقامات پر تعین اوقات مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ کے معیار پر کیا جانا چاہیے۔