اجتہاد کے حدود
سوال: میرے ایک جرمن نو مسلم دوست ہیں جن سے میرا رابطۂ مراسلت قائم ہے۔ وہ مجھ سے اپنے بعض علمی و عملی اشکالات بیان کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حال ہی میں ان کا ایک خط آیا ہے جس میں انہوں نے دریافت کیا ہے کہ فقہی احکام میں ’’اجتہاد‘‘ کے اصول کے تحت کہاں تک تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام کے بہت سے تفصیلی احکام فقہا کے اخذ کردہ اور مرتب کردہ ہیں اور نبیﷺ کی وفات کے بعد بعض خاص جغرافیائی اور تمدنی حالات کی پیدا وارہیں۔ کئی صدیوں تک تو اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا گیا تھا مگر اس کے بعد اصولاً ضرورت اجتہاد کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاً اسے بند کردیا گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں بالخصوص یورپ کے مسلمانوں کو بعض احکام کی تعمیل میں دشواری پیش آتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ وضو کے مسئلے کو لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وضو میں ہر مرتبہ پاؤں دھونا اہل یورپ کو مشکل اور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہاں لوگ ہمیشہ جراب اور بند جوتے استعمال کرتے ہیں، اس لیے پاؤں کے گرد آلود یا ناپاک ہونے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ سردیوں میں پاؤں دھونا آسان بھی نہیں ہوتا۔ یہی معاملہ منہ دھونے کا ہے۔ یورپ کے شہروں میں بالعموم مٹی نہیں اڑتی اور پسینہ بھی برائے نام آتا ہے اس لیے ان کے نزدیک منہ اور پاؤں کا دن میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہونا چاہیے۔
آپ براہ کرم میرے دوست کے خیالات پر صحیح اسلامی نقطۂ نظر سے تنقید کریں اور اس کا جو پہلو اصلاح طلب ہو، واضح فرمائیں تا کہ میں انہیں اطمینان بخش جواب دے سکوں۔
جواب:آپ کے جرمن دوست نے اپنے سوالات کا آغاز تو اس بات سے کیا ہے کہ فقہا کے بیان کردہ احکام میں حالات کے لحاظ سے کہاں تک ترمیم کی جاسکتی ہے، لیکن آگے چل کر جہاں وہ ایک متعین مثال پیش کرتے ہیں، وہاں فقہا کے بیان کردہ احکام میں نہیں بلکہ خود قرآن مجید کی نصوص میں ترمیم کا سوال پیدا ہوجاتا ہے۔ وضو میں منہ، کہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھونے اور سر پر مسح کرنے کا حکم تو قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔(المائدہ آیت ۶)
پھر منہ اور پاؤں دھونے کے حکم کی جو وجہ آپ کے دوست نے سمجھی ہے، وہ بھی صحیح نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم محض گرد صاف کرنے کے لیے دیا گیا ہے اور جہاں گرد و غبار نہ ہو، وہاں اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالاں کہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے ہی نہیں۔ دراصل اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کے قابل ہونے اور قابل نہ ہونے کی حالت کے درمیان فرق کیا جائے تا کہ آدمی جب اس کی عبادت کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے جسم اور لباس کا جائزہ لے کر دیکھے کہ آیا میں خدا کے حضور حاضر ہونے کے قابل ہوں یا نہیں، اور جانے سے پہلے اپنے آپ کو پاک صاف کرکے اہتمام کے ساتھ جائے۔ اس طرح عبادت کی اہمیت دل میں جاگزیں ہوتی ہے اور آدمی اسے اپنے عام کاموں سے ایک مختلف اور بالاتر نوعیت کا کام سمجھ کر بجا لاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پانی نہ ملے، وہاں تیمم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، حالاں کہ تیمم سے بظاہر کوئی صفائی بھی نہیں ہوتی۔
علاوہ بریں وضو میں جس صفائی کا حکم دیا گیا ہے، اس سے ایک ضمنی مقصد یہ بھی ہے کہ پنج وقتہ نماز کی وجہ سے آدمی کو پاک رہنے کی عادت پڑ جائے۔ گندگی لازماً صرف مٹی اور گرد و غبار کی وجہ سے ہی نہیں ہوتی۔ آدمی کے مسامات میں سے ہر وقت کچھ نہ کچھ فضلات خارج ہوتے رہتے ہیں۔ اگر اسے دھویا نہ جاتا رہے تو یہ مادے جسم کی سطح پر جم جم کر بو پیدا کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب لوگوں کے منہ سے بھی بو آتی ہے، ان کے بدن میں بھی ایک طرح کی سڑاند ہوتی ہے، اور ان کے جوتوں اور جرابوں میں بھی تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ اسلام اس کو پسند نہیں کرتا کہ اس کے پیرو کسی حیثیت سے بھی نفرت انگیز حالت میں رہیں۔ یورپ کے لوگ اس بدبو کو دبانے کے لیے عطریات اور لونڈر استعمال کرتے ہیں۔ حالاں کہ بدبو کو اوپری خوشبوؤں سے دبانا کوئی پاکیزگی و طہارت نہیں ہے۔
جاڑے کے زمانے میں یا سرد علاقوں میں پاؤں دھونے کی زحمت سے بچانے کے لیے شریعت نے پہلے ہی یہ آسانی رکھ دی ہے کہ آدمی ایک دفعہ وضو میں پاؤں دھونے کے بعد موزے پہن لے۔ پھر ۲۴ گھنٹے تک مقیم کے لیے اور ۷۲ گھنٹے تک مسافر کے لیے پاؤں دھونے کی حاجت نہیں ہے، بشرطیکہ اس دوران میں وہ موزے نہ اتارے۔
ان جرمن دوست کو کہیے کہ حالات و ضروریات کے لحاظ سے اسلام کے فروعی احکام میں ضروری رد و بدل تو ہوسکتا ہے۔ لیکن اس طرح کا رد و بدل کرنے کے لیے شریعت کی گہری واقفیت درکار ہے۔ ہر شخص کو سطحی طور پر یہ اختیارات نہیں دیے جاسکتے۔
(ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۲ء)