زکوٰۃ اور ٹیکس میں فرق
سوال: موجودہ آزاد تمدنی دور میں بھی کیا غربا و مساکین کے لیے امراء و رؤساء سے زکوٰۃ فنڈ جبراً وصول کیا جانا مناسب ہوگا جب کہ وہ دیگر کئی ٹیکسوں کے علاوہ انکم ٹیکس بھی ادا کرتے ہوں؟
جواب: زکوٰۃ کے متعلق پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک عبادت اور رکن اسلام ہے، جس طرح نماز، روزہ اور حج ارکان اسلام ہیں۔ جس شخص نے بھی کبھی قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہے، وہ دیکھ سکتا ہے کہ قرآن بالعموم نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے اور اسے اس دین کا ایک رکن قرار دیتا ہے جو ہر زمانے میں انبیائے کرام کا دین رہا ہے۔ اس لیے اس کو ٹیکس سمجھنا اور ٹیکس کی طرح اس سے معاملہ کرنا پہلی بنیادی غلطی ہے۔ ایک اسلامی حکومت جس طرح اپنے ملازموں سے دفتری کام اور دوسری خدمات لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب نماز کی ضرورت باقی نہیں۔ کیوں کہ انہوں نے سرکاری ڈیوٹی دے دی ہے، اسی طرح وہ لوگوں سے ٹیکس لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب زکوٰۃ کی ضرورت نہیں کیوں کہ ٹیکس لے لیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کو اپنے نظام الاوقات لازماً اس طرح مقرر کرنے ہوں گے کہ اس کے ملازمین نماز وقت پر ادا کرسکیں۔ اس طرح اس کو اپنے ٹیکسیشن کے نظام میں زکوٰۃ کی جگہ نکالنے کے لیے مناسب ترمیمات کرنی ہوں گی۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں میں کوئی ٹیکس ان مقاصد کے لیے اس طرح استعمال نہیں ہوتا ہے جن کے لیے قرآن مجید میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اور جس طرح اس کے تقسیم کرنے کا حکم ہے۔
(ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۶۱ء)