ضبط ولادت اور وصیتہ العینین
سوال: دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے آج اسلام کیا حل پیش کرتا ہے؟ برتھ کنٹرول (پیدائش روکنے) کے لیے دواؤں کا استعمال، فیملی پلاننگ وغیرہ کو کیا آج بھی غیر شرعی قرار دے کر ممنوع قرار دیا جائے گا؟ کیا ایک مسلمان زندگی میں اپنی آنکھیں عطیہ کرسکتا ہے کہ موت کے بعد کسی مریض کے لیے استعمال ہوسکیں؟ کیا یہ قربانی گناہ تو نہ ہوگی اور قیامت میں یہ شخص اندھا تو نہ اٹھے گا؟
جواب: دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے اسلام صرف ایک ہی حل پیش کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے رزق کے جو ذرائع پیدا کیے ہیں، ان کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے اور استعمال کرنے کی کوشش کی جائے اور جو ذرائع اب تک مخفی ہیں، ان کو دریافت کرنے کی پیہم سعی کی جاتی رہے۔ آبادی روکنے کی ہر کوشش خواہ وہ قتل اولاد ہو یا اسقاط حمل، غلط اور بے حد تباہ کن ہے۔ ضبط ولادت کی تحریک کے چار نتائج ایسے ہیں جن کو رونما ہونے سے کسی طرح نہیں روکا جاسکتا۔
(۱) زنا کی کثرت۔
(۲) انسان کے اندر خود غرضی اور اپنا معیار زندگی بڑھانے کی خواہش کا اس حد تک ترقی کرجانا کہ اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اور اپنے یتیم بھائیوں اور اپنے دوسرے محتاج امداد رشتہ داروں کا وجود بھی نا گوار گزرنے لگے۔ کیوں کہ جو آدمی اپنی روٹی میں خود اپنی اولاد کو شریک کرنے کے لیے تیار نہ ہو، وہ بھلا دوسروں کو کیسے شریک کرسکے گا؟
(۳)آبادی کے اضافے کا کم سے کم مطلوب معیار بھی جو ایک قوم کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے، برقرار نہ رکھنا۔ اس لیے کہ جب یہ فیصلے کرنے والے افراد ہوں گے کہ وہ کتنے بچے پیدا کریں اور کتنے نہ کریں، اور اس فیصلہ کا مدار اس بات پر ہوگا کہ وہ اپنے معیار زندگی کو نئے بچوں کی آمد کی وجہ سے گرنے نہ دیں، تو بالآخر وہ اتنے بچے بھی پیدا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے جتنے ایک قوم کو اپنی قومی آبادی برقرار رکھنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں کبھی کبھی یہ نوبت بھی آجاتی ہے کہ شرح پیدائش شرح اموات سے کم تر ہوجاتی ہے۔ چنانچہ یہ نتیجہ فرانس دیکھ چکا ہے، حتیٰ کہ اس کو ’’بچے زیادہ پیدا کرو‘‘ کی تحریک چلانی پڑی اور انعامات کے ذریعہ سے اس کی ہمت افزائی کی ضرورت پیش آگئی۔
(۴) قومی دفاع کا کمزور ہوجانا: یہ نتیجہ خصوصی طور پر ایک ایسی قوم کے لیے بے حد خطرناک ہے جو اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن آبادی میں گھری ہوئی ہے، پاکستان کے تعلقات ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ جیسے کچھ ہیں، سب کو معلوم ہے اور امریکہ کی دوستی نے کمونسٹ ممالک سے بھی اس کے تعلقات خراب کردیے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ہندوستان، چین، روس اور افغانستان کی آبادی ہم سے تیرو گنی ہے۔ ان حالات میں لڑنے کے قابل افراد کی تعداد گھٹانا جیسی کچھ عقل مندی ہے، اسے ایک صاحب عقل آدمی خود سوچ سکتا ہے۔
آنکھوں کے عطیے کا معاملہ صرف آنکھوں تک ہی محدود نہیں رہتا۔ بہت سے دوسرے اعضا بھی مریضوں کے کام آسکتے ہیں اور ان کے دوسرے مفید استعمال بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ دروازہ اگر کھول دیا جائے تو مسلمان کا قبر میں دفن ہونا مشکل ہوجائے گا۔ اس کا سارا جسم ہی چندے میں تقسیم ہوجائے گا۔ اسلامی نظریہ یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے جسم کا مالک نہیں ہے۔ اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مرنے سے پہلے اپنے جسم کو تقسیم کرنے یا چندہ میں دینے کی وصیت کرے۔ جسم اس وقت تک اس کے تصرف میں رہے گا جب تک وہ اس کے جسم میں خود رہتا ہے۔ اس کے نکل جانے کے بعد اس جسم پر اس کا کوئی حق نہیں ہے کہ اس معاملے میں اس کی وصیت نافذ ہو۔ اسلامی احکام کی رو سے یہ زندہ انسانوں کا فرض ہے کہ اس کا جسم احترام کے ساتھ دفن کردیں۔
اسلام نے انسانی لاش کی حرمت کا جو حکم دیا ہے وہ دراصل انسانی جان کی حرمت کا ایک لازمہ ہے۔ ایک دفعہ اگر انسانی لاش کا احترام ختم ہوجائے تو بات صرف اس حد تک محدود نہ رہے گی کہ مردہ انسانوں کے بعض کار آمد اجزا زندہ انسانوں کے علاج میں استعمال کیے جانے لگیں، بلکہ رفتہ رفتہ انسانی جسم کی چربی سے صابن بھی بننے لگیں گے (جیسے کہ فی الواقع جنگ عظیم نمبر ۲کے زمانے میں جرمنوں نے بنائے تھے)۔ انسانی کھال کو اتار کر اس کو دباغت دینے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اس کے جوتے یا سوٹ کیس یا منی پرس بنائے جاسکیں۔ (چنانچہ یہ تجربہ بھی چند سال قبل مدراس کی ایک ٹینری کرچکی ہے) انسان کی ہڈیوں اور آنتوں اور دوسری چیزوں کو استعمال کرنے کی بھی فکر کی جائے گی حتیٰ کہ اس کے بعد ایک مرتبہ انسان پھر اس دور وحشت کی طرف پلٹ جائے گا کہ جب آدمی آدمی کا گوشت کھاتا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ اگر ایک دفعہ مردہ انسان کے اعضاء نکال کرعلاج میں استعمال کرنا جائز قرار دے دیا جائے تو پھر کس جگہ حد بندی کرکے آپ اسی جسم کے دوسرے ’’مفید‘‘ استعمالات کو روک سکیں گے اور کس منطق سے اس بندش کو معقول ثابت کرسکیں گے۔
(ترجمان القرآن۔ جنوری ۱۹۶۲ء)