انگریزی میں نماز
سوال: میں اکیس سال کا ایک انگریز مسلمان ہوں۔ ایک سال قبل جب کہ میں سومالی لینڈ میں ایک فوجی افسر تھا، اس وقت اسلام جیسی عظیم نعمت سے سرفراز ہوا۔ میرا سوال اسلام کی سرکاری زبان سے متعلق ہے۔ اس سے پیشتر جب میں مسیحیت کا پیرو تھا، اس وقت میں اپنی عبادت اور کتاب مقدس اپنی مادری زبان (انگریزی) میں پڑھا کرتا۔ اب جب کہ میں دائرہ اسلام میں آچکا ہوں، تو مجھے نماز اور قرآن مجید دونوں عربی زبان میں پڑھنے پڑتے ہیں۔ اس تبدیلی سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں عربی کی پابندی کی وجہ سے، خواہ اس میں کتنا ہی حسن کیوں نہ ہو، بہت بڑی روحانیت سے محروم کردیا گیا ہوں۔
میں آپ کا انتہائی سپاس گزار ہوں گا اگر آپ میری اس معاملہ میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں نماز انگریزی میں ادا کرسکتا ہوں؟ اس مسئلہ پر شرح صدر حاصل کرنے کے لیے براہ کرم مجھے ان قدیم آئمہ اسلام کے نام بتائیں جنہوں نے اس مسئلہ پر اظہار خیال کیا ہو۔
اگرچہ یہ میری ذاتی الجھن ہے لیکن میں یہ بات قدرے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ چیز خصوصاً یورپ میں بہت سے غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ لندن میں میرے بعض دوستوں نے مجھے یہ مشورہ دیا ہے کہ میں اس معاملہ میں جناب کی طرف رجوع کروں۔ مجھے امید ہے کہ جناب کی رہنمائی میرے لیے انتہائی قیمتی ہوگی۔
جواب: مجھے آپ کے قبول اسلام کی خبر سن کر قلبی مسرت ہوئی۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمارے ایک بھائی کو نورِ ہدایت سے نوازا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو دین حق میں مزید ہدایت اور استقامت عطا فرمائے۔ آپ کو دین کے احکام اور مسائل سمجھنے میں مدد دینے کی خدمت جس حد تک بھی انجام دے سکتا ہوں، اس کے لیے ہر وقت بخوشی حاضر ہوں۔ آپ جب چاہیں میری خدمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
نماز کی زبان کے بارے میں آپ نے جو سوال کیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ نماز صرف عربی زبان ہی میں ادا کی جاسکتی ہے کیوں کہ نماز کا سب سے اہم جز قرآن مجید کی تلاوت ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے، اور اس کا ترجمہ خواہ کتنا ہی صحیح ہو، بہرحال قرآن مجید نہیں ہے، نہ اس پر کلام اللہ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ دوسری جو چیز نماز میں پڑھی جاتی ہے، وہ سب نبیﷺ نے مقرر کی ہیں اور جن الفاظ میں آنحضرتﷺ نے ان کی تعلیم دی ہے، انہی میں ان کو پڑھنا چاہیے۔ دوسری زبان کے الفاظ اول تو ان کے صحیح معنی ادا نہیں کرتے، اور کسی حد تک وہ ادا کریں بھی تو بہرحال وہ پیغمبر اسلامﷺ کے بتائے ہوئے الفاظ کے قائم مقام نہیں ہوسکتے یہی وجہ ہے کہ شروع سے آج تک کے تمام فقہائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ نماز عربی زبان ہی میں ادا کی جانی چاہیے۔ نہ قرآن کے اصل الفاظ کی جگہ ان کا ترجمہ پڑھا جاسکتا ہے اور نہ نبیﷺ کے بتائے ہوئے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلا جاسکتا ہے۔
البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ جو غیر عرب انسان نیا نیا مسلمان ہو اور فوراً ہی عربی زبان میں قرآن مجید اور دوسرے اذکار صلوٰۃ پڑھنے کے قابل نہ ہوسکے وہ کیا کرے؟ امام ابو یوسفؒ اور امام محمد (امام ابو حنیفہ کے دو فاضل شاگردوں) کی رائے یہ ہے کہ ایسا شخص اپنی زبان میں ترجمہ پڑھ سکتا ہے مگر اسے جلدی سے کوشش کرنی چاہیے کہ عربی زبان میں نماز پڑھنے کے قابل ہوجائے۔ امام ابو حنیفہؒ پہلے اس بات کے قائل تھے کہ عربی زبان کے تلفظ کی قدرت رکھنے والے شخص کے لیے بھی غیر عربی میں نماز پڑھنا جائز ہے، مگر بعد میں انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا اور وہی رائے اختیار کی جو ان کے دو جلیل القدر شاگردوں، امام ابو یوسفؒ اور امام ابو محمدؒ نے ظاہر کی ہے۔ لیکن امام شافعیؒ کی رائے یہ ہے کہ نماز کسی حال میں بھی عربی کے سوا دوسری زبان میں ادا نہیں کی جاسکتی۔ جو شخص عربی تلفظ پر قادر نہ ہو، وہ نماز میں سبحان اللہ اور الحمد اللہ جیسے مختصر الفاظ پڑھتا رہے اور اس امر کی کوشش کرے کہ جلدی سے جلدی عربی میں نماز ادا کرنے کی قدرت اسے حاصل ہوجائے (آپ اس مسئلہ کی تحقیق کرنا چاہیں تو ہدایہ کی مشہور شرح فتح القدیر جلد اول، صفحہ ۱۹۹، ۲۰۱، امام سرخسی کی المبسوط جلد اول صفحہ ۳۷، اور بزدَوِی کی کشف الاسرار صفحہ نمبر ۲۵ ملاحظہ فرمائیں)۔
ایک ایسی زبان میں نماز پڑھنا جس کو آدمی نہ سمجھتا ہو اور جس کے صرف الفاظ ہی وہ زبان سے ادا کر رہا ہو، بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے اور سرسری نگاہ میں آدمی اس کو کچھ غیر فطری سا محسوس کرتا ہے۔ لیکن آپ ذرا گہری نگاہ سے دیکھیں تو اس کی عظیم مصلحتیں آپ کے سامنے واضح ہوجائیں گی۔
ایک مذہب کے اپنی اصل شکل اور روح کے ساتھ برقرار رہنے کا انحصار زیادہ تر اس بات پر ہے کہ اس کی تعلیم اپنے اصل الفاظ میں محفوظ رہے۔ ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں کبھی اصل کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ نہ اصل کی پوری روح اور اس کی کامل معنویت دوسری زبان میں منتقل کی جاسکتی ہے۔ ترجمہ ہر شخص اپنی فہم کے مطابق کرے گا اور دو مترجموں کے ترجمے کبھی متفق نہ ہوسکیں گے۔ یہ معاملہ تو انسانی تصنیفوں کے ترجمے میں ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کے کلام اور پیغمبرانہ الفاظ کو پوری روح اور معنویت کے ساتھ دوسری زبان میں منتقل کیا جاسکے اور یہ کہا جاسکے کہ یہ ترجمہ اصل کا قائم مقام ہے۔
دنیا کے مذاہب کو بگاڑنے میں ایک بہت بڑا دخل اس چیز کا ہے کہ ان کی ساری بنیادی کتابیں اپنی اصلی زبان میں محفوظ نہیں رہیں اور ان کے پیروؤں کا سارا انحصار مختلف زبانوں کے مختلف ترجموں پر ہوگیا جن میں باہم کوئی موافقت نہیں ہے اور جن کے اندر آئے دن ترمیم ہوتی رہتی ہیں۔ مسلمانوں کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے مذاہب کا مدار جس کتاب پر اور جس پیغمبر کی تعلیمات پر ہے وہ کتاب بھی اپنی اصل زبان میں موجود ہے اور اس پیغمبر کی تعلیمات بھی اسی زبان میں محفوظ ہیں جس میں وہ دی گئی ہیں۔ اب یہ ہماری طرف سے بڑی نادانی ہوگی کہ ہم اس نعمت کی قدر نہ کریں، اور اپنے مذہب کا مدار بھی ترجموں ہی پر رکھنے کا دروازہ کھول دیں۔ سب سے بڑی طاقت جو ہمیں قرآن مجید اور تعلیم پیغمبر سے وابستہ رکھتی ہے، یہی نماز ہے جسے ہم روزانہ پانچ وقت پڑھتے ہیں۔ اس کی زبان بدل دینے کے بعد مشکل ہی سے اپنے دین کے اصلی سر حشموں سے ہمارا رشتہ قائم رہ سکے گا۔
ایک مذہب کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ چیز بھی نہایت ضروری ہے کہ اس کی عبادات اپنی اصلی شکل پر قائم رہیں اور لوگ ان کے اندر اپنے حسب منشا ردّو بدل کر لینے میں آزاد نہ ہوں۔ مذہب کا سب سے اہم حصہ اس کی عبادات ہوتی ہیں۔ انہی کے اتباع اور احترام اور التزام سے بقیہ تعلیمات دین کو قوت نافذہ حاصل ہوتی ہے اور خود ان عبادات کو جو چیز پیروان مذہب کے لیے مقدس و محترم اور واجب الاتباع بناتی ہے وہ یہ یقین ہے کہ ان کا ہر جزو اور ہر لفظ اس اقتدار اعلیٰ کا مقرر کردہ ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں۔ یہ یقین ایسی صورت میں ختم ہوجائے گا جب کہ عبادت کی شکلیں اور ان کے الفاظ مقرر کرنے میں لوگوں کی اپنی رائے اور مرضی کا دخل شروع ہوجائے گا، اور اس کے متزلزل ہوتے ہی پورے دین کے مسخ ہونے اور اس کے احکام کی پیروی سے لوگوں کے آزاد ہونے کا راستہ کھل جائے گا۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ تمام دنیا میں ہر قوم اور ہر ملک کے لیے اور ہر زبان بولنے والوں کے لیے اذان اور نماز کی ایک ہی زبان ہونا وہ عظیم الشان قوت رابطہ ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ملت اور عالمگیر برادری بناتی ہے۔ آپ خواہ اس کرہ زمین کے کسی گوشے میں چلے جائیں، اذان کی آواز سنتے ہی محسوس کرلیں گے کہ یہاں آپ کی ملت کا کوئی شخص یا گروہ ہے اور وہ نماز کے لیے بلا رہا ہے۔ نماز کے لیے آپ جہاں بھی جائیں گے وہی ایک جانی پہچانی آواز سنیں گے خواہ آپ لندن میں ہوں یا نائجیریا میں یا انڈونیشیا میں۔ اپنے ساتھی مسلمانوں کی زبان کا ایک لفظ بھی چاہے، آپ نہیں جانتے ہوں، مگر نماز میں نہ آپ ان کے لیے اجنبی ہوں گے نہ وہ آپ کے لیے۔ اس کی بجائے اگر نماز ہر ایک اپنی مادری زبان میں پڑھنے لگے اور اذان بھی ہر جگہ مقامی زبان ہی میں دی جانے لگے تو یہ عالمگیر برادری بے شمار چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ براعظم ہندو پاکستان میں تین سو سے زائد زبانیں ہیں۔صرف اسی سرزمین میں ایک مسلم ملت کے اتنے ہی ٹکڑے ہوجائے گے جتنی یہاں زبانیں ہیں، اور ایک مسلمان اپنے علاقے سے باہر نکال کر نہ اذان کو پہچان سکے گا، نہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھ سکے گا۔ یہی کیفیت دنیا کے دوسرے خطوں میں پیش آئے گی۔ اور پھر حج کے موقع پر تو شاید منارہ بابل کی سی حالت رونماہو۔ یہ دراصل مسلمانوں میں اسی (Nationalistion of The Church) کی ابتدا ہوگی جس میں مسیحی دنیا مبتلا ہو کر نبرد آزما قومیتوں میں بٹ گئی۔ کیا آپ کو اس نعمت کا احساس نہیں ہے کہ قوم پرستی، نسل پرستی، رنگ پرستی اور زبان پرستی سے پارہ پارہ ہوجانے والی انسانیت کے لیے اسلام نے عالمگیر وحدت کا یہ کتنا بڑا ذریعہ پیدا کیا ہے جو دنیا بھر کے لیے عربی اذان، عربی نماز، عربی کلمہ اور عربی زبان کی چند معروف اور مشترکہ مذہبی اصطلاحات کی شکل میں آپ کو نظر آرہا ہے؟ اسی ’’سرکاری زبان‘‘ کی بدولت ہی تو مسلمان ہر جگہ مسلمان کو پہچانتا اور اس کے ساتھ اس طرح مل جاتا ہے جیسے ازل سے ان روحوں میں کوئی قریبی رشتہ ہو۔
جہاں تک نماز کو پڑھنے کی ضرورت کا تعلق ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر یہ ضرورت اس بڑے نقصان کو، جس کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں، انگیز کیے بغیر بھی پوری کی جاسکتی ہے۔ نماز کے لیے قرآن کی چند سورتیں کافی ہیں اور قرآن مجید کے سوا باقی تمام اذکار جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں، صرف چند فقروں پر مشتمل ہیں۔ ان کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا ترجمہ بآسانی ذہن نشین کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے جسے آپ بجا طور پر ’’روحانی قدر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
(ترجمان القران۔ محرم و صفر ۱۳۷۷ھ، اکتوبرو نومبر ۱۹۵۷ء)