قرآن و حدیث کا باہمی تعلق:
سوال: رسائل و مسائل حصہ دوم، صفحہ ۶۲۔ ۶۳ پیرا گراف میں آپ نے لکھا ہے:
’’قرآن میں اگر کوئی حکم عموم کے انداز میں بیان ہوا ہو اور حدیث یہ بتائے کہ اس حکم عام کا اطلاق کن خاص صورتوں پر ہوگا تو یہ قرآن کے حکم کی نفی نہیں ہے بلکہ اس کی تشریح ہے۔ اس تشریح کو اگر آپ قرآن کے خلاف ٹھہرا کر رد کردیں تو اس سے بے شمار قباحتیں پیدا ہوں گی جن کی مثالیں آپ کے سامنے پیش کروں تو آپ خود مان جائیں گے کہ فی الواقع یہ اصرار غلطی ہے‘‘۔
اگر آپ اس عبارت کے آخر میں چند مثالیں اس امر کی پیش فرماتے تو مستفسر کو مزید تشفی ہوجاتی۔ مجھے چند ایسی امثلہ کی ضرورت ہے جس سے ایک منکر حدیث مان جائے کہ ایسا کرنے سے (تشریح کو قرآن کے خلاف ٹھہرانے سے) فی الواقع قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ بہتر ہوگا اگر آپ چار امثلہ مہیا فرمادیں۔
میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ حدیث قرآن کی وضاحت کرتی ہے مگر میں کسی حکم کے قرآن میں نہ ہونے اور خلاف قرآن ہونے میں تمیز نہیں کرسکتا۔ ازراہ کرم آپ چار امثلہ ایسی پیش فرمادیں جس سے میرے لیے دونوں باتوں (خط کشیدہ) کا فرق پوری طرح واضح ہوجائے؟
جواب: حدیث قرآن کی جس طرح تشریح کرتی ہے، اس کی بہت سی مثالوں میں سے چند یہ ہیں:
قرآن کہتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔ اس میں چوری کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کا اپنا بچہ ایک پیسہ بھی آپ کی جیب سے نکال لے تو وہ بھی چور قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہاتھ کی بھی کوئی حد نہیں بتائی گئی ہے۔ سیدھا یا بایاں؟ کلائی کے پاس سے یا شانے کے پاس سے یا کہنی کے پاس سے؟ ان سب امور کے متعلق سارے تعینات حدیث میں کیے گئے ہیں۔ انہیں آپ نظر انداز کردیں تو اندازہ کر لیجیے کہ حکم کی تعمیل میں کیسی کچھ زیادتیاں ہوسکتی ہیں۔
قرآن حج کی فرضیت کا عام حکم دیتا ہے اور یہ صراحت نہیں کرتا کہ آیا ہر سال ہر مستطیع مسلمان پر حج فرض ہے یا عمر میں ایک مرتبہ ادا کرنا کافی ہے۔ مؤخرالذکر بات صرف حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ اگر اسے آپ قبول نہ کریں تو قرآنی حکم کے عموم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر سال ہر مستطیع مسلمان حج کے لیے جائے۔
قرآن چند اقسام کی عورتوں کو حرام قرار دینے کے بعد کہتا ہے کہ ان کے ماسوا دوسری عورتوں سے نکاح کرنا تمہارے لیے حلال ہے۔ ان حرام کی ہوئی عورتوں میں محرمات ابدیہ کے علاوہ صرف سالی کا ذکر ہے جب کہ اس کی بہن آدمی کے نکاح میں زندہ موجودہ ہو۔ عورت کی خالہ اور پھوپھی کا ذکر نہیں ہے۔ یہ بات حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ عورت کی اپنی بہن کی طرح اس کے باپ کی بہن اور اس کی ماں کی بہن بھی اس کے ساتھ ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس تشریح کو نظر انداز کردیا جائے تو آدمی حکم کے عموم سے غلط فائدہ اٹھا کر وہی خرابی برپا کرسکتا ہے جس سے روکنے کے لیے شریعت نے جمع بین الاختین کو حرام کیا ہے۔
قرآن سونے اور چاندی کے جمع کر رکھنے پر سخت وعید کرتا ہے۔ سورۃ توبہ کی آیت ۳۵۔ ۳۶ کے الفاظ ملاحظہ فرمالیں۔ اس کے عموم میں اتنی گنجائش بھی نہیں ہے کہ آپ سونے چاندی کا ایک تار بھی اپنے گھر میں رکھ سکیں۔ یہ حدیث ہی ہے جس نے اس کے منشا کی توضیح و تشریح کی ہے۔
قرآن میں کسی حکم کا نہ ہونا اور حدیث میں ہونا صرف یہ معنی رکھتا ہے کہ حدیث قرآن سے زائد ایک حکم بیان کرتی ہے، نہ یہ کہ حدیث قرآن سے مخالف حکم دے رہی ہے۔ مثلاً نماز کی رکعات اور اس میں پڑھی جانے والی عبارات اور نماز کی دوسری تفصیلات قرآن میں نہیں ہیں۔ حج کے تمام مناسک قرآن میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔ زکوٰۃ کا نصاب اور اس کی شرحیں اور دوسری تفصیلات قرآن میں نہیں ہیں۔ اذان کے الفاظ قرآن میں نہیں ہیں۔ اس طرح کے جتنے زائد احکام ہم کو حدیث سے ملتے ہیں، وہ قرآن سے زائد ضرور ہیں مگر اس کے خلاف نہیں ہیں۔ قرآن کے خلاف ہونا یہ ہے کہ قرآن ایک چیز کا حکم دے اور حدیث اس سے منع کرے۔ یا اس کے برعکس قرآن منع کرے اور حدیث اس کا حکم دے۔ ایسی کوئی مثال صحیح حدیث میں نہیں پائی جاتی۔
(ترجمان القرآن۔ فروری ۱۹۶۱ء)