چند احادیث کے اشکالات کی توضیح
سوال: ایک عرصہ سے دو تین چیزیں میرے دماغ پر بوجھ بن رہی ہیں۔ اس لیے مجھے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
(۱) بخاری شریف کی تیسری حدیث میں نزول وحی اور حضور ﷺ کی کیفیات کا ذکر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول وحی کی ابتدا میں آنحضرتﷺ پر اضطراب طاری ہوگیا تھا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ حضورﷺ گھبرائے کیوں تھے؟ یہ بات کہ یہ رسالت کی ذمہ داریوں کے احساس کا نتیجہ تھا، دل کو مطمئن نہیں کرتی ورنہ ورقہ کے پاس لے جانے کے کوئی معنی نہیں بنتے۔ بعض لوگوں کا یہ اشتباہ کہ حضورﷺ پر اس وقت اپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا، کچھ با معنی بات نہیں معلوم ہوتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو جن کے پاس آپ یہ معاملہ لے کر گئے تھے کیا وہ ان کیفیات کے پس منظر کو حضورﷺ سے زیادہ جانتے تھے۔ ورقہ کے یہ الفاظ ’’ھٰذا النَّامُوسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللہ عَلٰی مُوْسٰی‘‘ اس امر کے مؤید ہیں کہ واقعی حضورﷺ پر اپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد صورت حال مزید مخدوش ہوجاتی ہے۔ صحیح صورت حال کیا ہے؟
(۲) باب الشروط فی الجہاد و المصالحۃ، حدیث نمبر ۱۲۶۶ میں صحابہ کی ارادت مندی اور عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے عروہؓ ذکر کرتے ہیں:فَوَ اللہِ مَاتَنْخَمْ رَسُولُ اللہﷺ نَخَامَۃً اِلاً وَقَعَتْ فِیْ کَفِ رَجُلٍ مِنْھُمْ فَدَلَکَ بِھا وَجْھَہٗ وَ جَلَدَہ۔ نخامہ کھنکار کو بھی کہتے ہیں اور جو غلیظ مواد ناک سے نکلتا ہے اس کو بھی۔ ان میں جو بھی ہو بہرحال قابل غور ہے۔ کیا حضورﷺ کے نخامہ کی یہ کیفیت نہیں ہوتی تھی جو عام طور پر ہوتی ہے؟ یا فرط عقیدت کی وجہ سے صحابہ کرام ﷺ کو اسے چہرے اور جسم پر مل لینے میں اجنبیت نہیں محسوس ہوتی تھی؟ حضورﷺ کی نفاست پسندی اس میں حائل کیوں نہ ہوئی؟
(۳) باب استعمال فضل وضوء الناس حدیث نمبر ۱۵۵ میں آتا ہے دعا النبی صلی اللہ علیہ وسلم بقدح فیہ ماء فغسل یدیہ ووجھہ فیہ ومَجَّ فیہ ثم قال لھا اِشْرَبَا وَاَفْرَ غا عَلٰی وُجُوھِکُمَا وَنَحُوْ رِکُمَا۔ پانی کے برتن میں ہاتھ دھونا، پھر اس میں کلی کرنا اور ان سب کے بعد لوگوں سے کہنا کہ اسے پیو اور اس سے منہ دھوؤ۔ یہ سب کچھ حضور ﷺ کی نفاست پسندی کے عام کلیہ کے مخالف معلوم ہوتا ہے۔ پھر صحابہ کرامؓ کا اس سلسلے میں بے خود ہو کر اس کو استعمال کرنا اور بھی عیب معلوم ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت مطلوب ہے۔
(۴) اقبال مرحوم کو پاکستان میں قبول عام حاصل ہے۔ بالخصوص جدید طبقہ میں اور اسی طبقہ میں پرویزی حضرات بھی گھومتے پھر تے رہتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ مشہور کر رہے ہیں کہ اقبال بھی منکر حدیث تھا۔ صورت حال کیا ہے؟ انگریزی خطبات میں مرحوم نے جن مآخذ کا ذکر کیا ہے، ان میں حدیث کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کی تفصیل اور توضیح میں جن نکات کا مرحوم نے ذکر کیا ہے، ان ے مرحوم کا اپنا نظریہ منکرین حدیث کی حوصلہ افزائی کا موجب سا بن گیا ہے۔
جواب: آپ نے جو سوالات کیے ہیں، ان کا مختصر جواب حاضر خدمت ہے۔
ابتدائی نزول وحی:
(۱) نزول وحی کی کیفیت کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ نبیﷺ کو اچانک اس صورت حال سے سابقہ پیش آیا تھا۔ آپ کو اس سے پہلے کبھی یہ گمان بھی نہ گزرا تھا کہ آپؐ نبی بنائے جانے والے ہیں۔ نہ اس کی کوئی خواہش آپ کے دل کے کسی گوشے میں موجود تھی۔ نہ اس کے لیے آپ پہلے ہی سے کوئی تیاری کر رہے تھے اور اس کے متوقع تھے کہ ایک فرشتہ اوپر سے پیغام لے کر آئے گا۔ آپؐ خلوت میں بیٹھ بیٹھ کر مراقبہ اور عبادت ضرور فرماتے تھے لیکن نبی بنائے جانے کا کوئی تصور آپؐ کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا۔ اس حالت میں جب یکایک غار حرا کی اس تنہائی میں فرشتہ آیا تو آپؐ کے اوپر فطرتاً اس پہلے عظیم اور غیر معمولی تجربے سے وہی گھبراہٹ طاری ہوئی جو لامحالہ ایک بشر پر طاری ہونی چاہیے، قطع نظر اس سے کہ وہ کیسا ہی عظیم الشان بشر ہو۔ یہ گھبراہٹ بسیط نہیں بلکہ مرکب نوعیت کی تھی۔ طرح طرح کے سوالات حضورﷺ کے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے جنہوں نے طبع مبارک کو سخت خلجان میں مبتلا کردیا تھا۔ کیا واقعی میں نبی ہی بنایا گیا ہوں؟ کہیں مجھے کسی سخت آزمائش میں تو نہیں ڈال دیا گیا ہے؟ یہ بار عظیم آخر میں کیسے اٹھاؤں گا؟ لوگوں سے کیسے کہوں گا کہ میں تمہاری طرف نبی مقرر ہوا ہوں؟ لوگ میری بات کیسے مان لیں گے؟ آج تک معاشرے میں عزت کے ساتھ رہ رہا ہوں، اب لوگ میرا مذاق اڑائیں گے اور مجھے دیوانہ کہیں گے۔ اس جاہلیت کے ماحول سے آخر میں کیسے لڑ سکوں گا؟ غرض اس طرح کے نہ معلوم کتنے سوالات ہوں گے جو آپؐ کو پریشان کر رہے ہوں گے۔ اسی وجہ سے آپؐ گھر پہنچے تو کانپ رہے تھے۔ جاتے ہی فرمایا کہ مجھے اڑھا دو، مجھے اڑھادو۔ گھر والوں نے آپ کو اڑھا دیا۔ کچھ دیر کے بعد جب دل ذرا ٹھہرا تو سیدہ خدیجہؓ کو سارا واقعہ سنایا اور فرمایا: ’’لَقَدْ خَشِیْتُ عَلیٰ نَفْسِی: مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے‘‘۔ انہوں نے آپؐ کو اطمینان دلایا کہ
کَلَّاوَ اللہِ مَا یُخْزِیْکَ اللہُ اَبدًا، اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحْمَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تُقْرِی الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلیٰ نَوَائِبِ الْحَقِّ۔
’’ہر گز نہیں، خدا کی قسم ! آپؐ کو اللہ کبھی رنج نہ دے گا۔ آپؐ تو رشتہ داروں کے کام آتے ہیں، بے کسوں کی مدد کرتے ہیں، نادار کی دست گیری کرتے ہیں، مہمان کی تواضع کرتے ہیں اور تمام نیک کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں‘‘۔
پھر وہ ورقہ بن نوفل کے پاس آپؐ کو لے گئیں، کیوں کہ وہ اہل کتاب میں سے تھے اور انبیائے سابقین کے حالات سے با خبر تھے۔ انہوں نے حضورﷺ سے کیفیت سن کر بلا تامل تصدیق کی کہ ’’یہ وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آیا تھا‘‘۔ اس لیے کہ وہ بچپن سے لے کرجوانی تک آپؐ کی انتہائی پاکیزہ سیرت سے خوب واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ یہاں پہلے سے نبوت کے دعوے کی کسی تیاری کا شائبہ تک نہیں پایا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں کو جب انہوں نے اس واقعہ سے ملایا کہ یکایک غیب سے ایک ہستی آ کر ایسے شخص کو ان حالات میں وہ پیغام دیتی ہے جو عین تعلیمات انبیا کے مطابق ہے تو یہ ضرور سچی نبوت ہے۔
یہ سارا قصہ ایسا فطری اور معقول ہے کہ اس صورت حال میں یہی کچھ ہونا چاہیے تھا۔ اس پر شکوک کا پیدا ہونا تو درکنار، میرے نزدیک تو یہ رسول اللہﷺ کے نبی صادق ہونے کے اہم ترین دلائل میں سے ایک ہے۔ اگر یہ معاملہ پیش نہ آتا اور آپؐ یکایک غار حرا سے آتے ہی بڑے اطمینان کے ساتھ فرشتے کی آمد کا واقعہ مجمع میں سنا کر اپنی نبوت کا دعویٰ پیش فرماتے تو ایک آدمی یہ شک کرسکتا تھا کہ حضرت پہلے سے اپنے آپ کو نبوت کا اہل سمجھے بیٹھے تھے اور دور ایک غار میں بیٹھ بیٹھ کر اس کا انتظار کر رہے تھے کہ کب کوئی کشف و الہام ہوتا ہے۔ آخر شدت مراقبہ نے ذہن کے سامنے ایک فرشتہ کا نقشہ پیش کر ہی دیا اور کانوں میں آوازیں آنے لگیں۔ معاذ اللہ۔ لیکن خدا کے فضل سے وہاں نبوت کا ارادہ اور اس کی خواہش اور کوشش تو درکنار، جب بالفعل وہ مل گئی تب بھی چند ساعتوں تک عالم حیرت ہی طاری رہا۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ بے نظیر شخصیت کے مالک ہونے پر بھی وہ ذات عجب و خود پسندی سے اس درجہ خالی تھی کہ جب نبوت کے منصب عظیم پر یکایک مامور کر دیے گئے اس وقت بھی کافی دیر تک یہ اطمینان نہ ہوتا تھا کہ دنیا کے کروڑوں انسانوں میں سے تنہا ایک میں ہی اس قابل ہوں کہ اس منصب کے لیے رب کائنات کی نگاہ انتخاب میرے اوپر پڑے۔
آنحضور ﷺ کے لعاب سے حصول برکت:
(۲) دوسرے نمبر پر آپ نے جس واقعہ پر تعجب کا اظہار فرمایا ہے وہ در حقیقت کسی تعجب کا محل نہیں ہے۔ بس ذرا اس پر غور کر لیجیے کہ معاملہ ایک نبی کا ہے اور ان لوگوں کا ہے جو سچے دل سے مان چکے تھے کہ حضورﷺ نبی ہیں اور اپنے درمیان اس عظیم المرتبت ہستی کو موجود پا رہے تھے۔ اس مرتبے کی ہستیوں کا جو زبردست اثر ان لوگوں پر ہوسکتا تھا، جنہیں یقین ہو کہ ہمارے سامنے وہ شخص موجود ہے جسے اللہ سے مکالمہ کا شرف حاصل ہوتا ہے، اس کا اندازہ آپ بخوبی کرسکتے ہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے خود اپنے آپ کو ان لوگوں کی جگہ فرض کرلیں۔ یہ انبیا علیہم السلام کا غیر معمولی اثر ہی تو تھا جس کی بدولت ان کے معتقدین میں سے بکثرت لوگ حد پر نہ رک سکے اور غلو کرکے انہیں خدا اور ابن اللہ اور اوتار اور نہ معلوم کیا کیا بنا بیٹھے۔ نبی ﷺ نے اس معاملہ میں لوگوں کو حد اعتدال پر رکھنے کے لیے جو کوششیں فرمائی، وہ سب کو معلوم ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ آپؐ نے انسانی فطرت کی رعایت بھی ملحوظ رکھی اور حد اعتدال کے اندر جہاں تک شدت عقیدت کو جانے کی اجازت دی جاسکتی تھی، وہاں تک جانے سے لوگوں کو نہیں روکا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی وقت لوگوں نے حضورﷺ کا تھوک زمین پر نہ گرنے دیا اور آگے بڑھ کر اسے ہاتھوں پر لینے اور اپنے منہ اور جسم پر مل لینے کی کوشش کی تو آپؐ نے منع نہ فرمایا۔ رہی یہ بات کہ خود لوگوں کو گھن کیوں نہ آتی تھی، تو میں کہوں گا کہ عام انسانوں کے تھوک سے ضرور گھن آسکتی ہے، مگر جس منہ پر خدا کا کلام اترتا ہو، اس کے تھوک سے گھن آنا تو درکنار، اہل ایمان کی نگاہ میں تو عطر کی بھی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
(۳) تیسرے واقعہ کی نوعیت بھی وہی ہے جو اوپر کے واقعہ کی ہے۔ لیکن اس کی پوری تفصیل جو بخاری کتاب المغازی، باب غزوۃ الطائف میں آئی ہے، اگر نگاہ میں رہے تو وہ بات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے غزوہ حنین کے غنائم برسر موقع تقسیم کرنے کی بجائے جعرانہ پہنچ کر تقسیم کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا اور اس وجہ سے بعض نئے نئے ایمان لائے ہوئے لوگ بڑے بے صبر ہو رہے تھے۔ جب آپؐ جعرانہ پہنچے تو ایک بدو نے آکر اپنے حصے کا مطالبہ کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’ تجھے بشارت ہو‘‘ (یعنی اس بات کی بشارت کہ عنقریب حصے تقسیم ہوں گے اور اب تک جو تو نے صبر کیا، اس کا اجر ملے گا) اس نے تڑخ کر کہا ’’ آپ کی یہ بشارتیں میں بہت سن چکا ہوں‘‘۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت بلالؓ حاضر خدمت تھے۔ حضورﷺ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اس نے میری بشارت رد کردی۔ تم دونوں اسے قبول کرو‘‘۔ دونوں نے عرض کیا: ’’ہم نے قبول کی‘‘۔ پھر آپؐ نے ایک پیالہ بھر پانی منگوایا۔ اس میں ہاتھ اور منہ دھویا اور کلی کی۔ پھر دونوں صاحبوں سے فرمایا تم اسے پی لو اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور بشارت لو۔ چنانچہ دونوں نے ایسا ہی کیا۔ پردے کے پیچھے ام المونین حضرت ام سلمہؓ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے پکار کر دونوں صاحبوں سے کہا کچھ اپنی ماں کے لیے بھی بچا لینا۔ یہ سن کر انہوں نے تھوڑا سا پانی بچالیا اور انہیں بھی دے دیا۔
اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ در اصل اس بدو کو یہ سبق دینا چاہتے تھے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس نے بے بہا بشارت کو رد کیا ہے یہ کیسی ناشکری اور بد بختی ہے اور سچے اہل ایمان کا اپنے نبی کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی یہ روایت کا انداز اور پھر ام سلمہؓ کا اس پانی میں سے اپنا حصہ طلب کرنا صاف بتاتا ہے کہ یہ حضرات اس مبارک پانی کو لے کر پینے اور منہ اور سینے پر ملنے میں کراہت محسوس کرنا تو درکنار، اسے اپنے لیے آب حیات سمجھتے تھے۔ اس کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر مسابقت کرتے تھے اور انہیں فخر تھا کہ یہ نعمت انہیں نصیب ہوئی۔
(۴) ’’اقبال اور حدیث‘‘ والے سوال کے بارے میں، میں صرف اتنا ہی کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے اس مسئلے کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں ہے کہ حدیث کے متعلق اقبال مرحوم کا نظریہ کیا تھا، اور کیا نہ تھا۔ اگر ہمارے پاس اس معاملہ میں صاف اور واضح نصوص اور خلفائے راشدین سے لے کر آج تک کے تمام علمائے امت کا متفقہ طرز عمل نہ ہوتا تو شاید ہم اس کے محتاج ہوتے کہ حدیث کے متعلق علامہ اقبال کا نظریہ معلوم کرتے۔ لیکن ان حجتوں کی موجودگی میں یہ چیز تلاش کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن۔ اگست ۱۹۶۰ء)