حدیث ’’اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ…‘‘ کی علمی تحقیق
سوال: میرے ایک دوست نے جو دینی شغف رکھتے ہیں، حال ہی میں شیعیت اختیار کرلی ہے، انہوں نے اہل سنت کے مسلک پر چند اعتراضات کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔ امید ہے کہ آپ ان کے تشفی بخش جوابات دے کر ممنون فرمائیں گے۔
(۱) نبی اکرمﷺ کی حدیث ’’اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا، فَمَنْ اَرَادَ الْمَدِیْنَۃَ فَلْیَاْتِ کا مفہوم کیا ہے؟
(۲) کیا اس حدیث سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ علم … دینی علم … کے حصول کا واحد اور سب سے معتبر ذریعہ صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات گرامی ہے اور اس کے سوا جن دوسرے ذرائع سے علم دین حاصل کیا گیا ہے، وہ ناقص ہیں اور اس وجہ سے ان کی دین کے اندر کوئی اہمیت نہیں؟
جواب: احادیث سے استناد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے روایت کے اعتبار سے دیکھا جائے کہ وہ کہاں تک قابل اعتماد ذرائع سے مروی ہوئی ہیں۔ پھر ان کے معنی پر غور کیا جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ بشرط صحت، ان کا صحیح مدعا کیا ہوسکتا ہے۔ کسی حدیث کا کوئی ایسا مفہوم لے لینا جو حضور ﷺ کے دوسرے بہت سے ارشادات سے ٹکراتا ہو، یا جس سے بہت سی قباحتیں لازم آتی ہوں، کسی طرح درست نہیں ہوسکتا۔ اس کی بجائے اس کا اگر کوئی ایسا مفہوم ہوسکتا ہو جو آنحضورﷺ کے دوسرے ارشادات سے مطابقت بھی رکھتا ہو، اور ہر قباحت سے خالی ہو، تو ایک ذی فہم آدمی کے لیے وہی قابل قبول ہونا چاہیے۔
اس قاعدے کو نگاہ میں رکھ کر ہمیں پہلے دیکھنا چاہیے کہ حدیث ’’اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا‘‘ کا بلحاظ رویات کیا مقام ہے۔ صحاح میں سے اس کو صرف ترمذی نے لیا ہے اور اس میں ’’انا مدینۃ العلم‘‘ کی بجائے یہ الفاظ ہیں: ’’انا دار الحکمۃ وعلی بابھا (میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے)۔ راوی اس کے خود حضرت علیؓ ہیں۔ امام ترمذیؒ اس کو نقل کرنے کے بعد اس کی روایتی حیثیت پر جو تبصرہ کرتے ہیں، وہ یہ ہے:
ھذا حدیث غریب منکر۔ رویٰ بعضھم ھذا الحدیث عن شریک ولم یذکروا فیہ عن الصنابحی۔ ولا نعرف ھذا الحدیث عن احد من الثقات غیر شریک۔
یہ حدیث غریب اور منکر ہے۔ بعض راویوں نے اسے صرف شریک (تابعی) سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں صنابحی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ شریک کے سوا ثقات میں سے کسی نے بھی اس کو روایت کیا ہو۔
غریب، اصطلاح علم حدیث میں اس روایت کو کہتے ہیں جس کا دارو مدار سند کے کسی مرحلہ میں صرف ایک راوی پر رہ جائے اور منکر اس روایت کو کہتے ہیں کہ جو نری غریب ہی نہ ہو بلکہ اس کا راوی بھی ضعیف ہو۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سند کے لحاظ سے ترمذی کی اس روایت کا پایہ کیا ہے اور اس پر سارے دین کی بنا رکھ دینا کہاں تک درست ہوسکتا ہے۔
ترمذی کے بعد اس مضمون کی روایات کا سارا دارومدار حاکم کی مستدرک پر رہ جاتا ہے جو بجائے خود ہی حدیث کی معتبر کتابوں میں شمار نہیں ہوتی۔ اس میں وہ ابن عباس ؓ اور جابر ؓ بن عبد اللہ سے دو روایتیں مختلف الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔ ابن عباسؓ والی روایت کے الفاظ ہیں:
انا مدینۃ العلم و علی بابھا فمن ارادالمدینۃ فلیات الباب۔
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ پس جو شخص شہر میں آنا چاہے وہ اس کے دروازے سے آئے‘‘۔
اور جابر ؓ بن عبداللہ والی روایت میں آخری قفرہ یہ ہے:
فمن اراد العلم فلیات الباب۔
’’جو علم حاصل کرنا چاہے، اسے دروازے پر آنا چاہیے‘‘۔
حاکم نے ان دونوں حدیثوں کے صحیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن علم حدیث کے بڑے بڑے ناقدین کی رائے میں نہ صرف دونوں، بلکہ اس مضمون کی ساری روایات ساقط الاعتبار ہیں۔ ابن عباسؓ والی روایت کے متعلق حافظ ذہبیؒ کہتے ہیں کہ صحیح ہونا تو درکنار، یہ تو موضوع ہے اور جابرؓ بن عبد اللہ والی روایت پر وہ یہ رائے دیتے ہیں:
العجب من الحاکم و جرأتہٖ فی تصحیحہٖ ھذا و امثالہٖ من البواطیل، واحمد ھٰذا دجال کذاب۔
’’حاکم پر سخت تعجب ہے کہ کس جرأت کے ساتھ وہ اس روایت اور ایسی ہی دوسری باطل روایتوں کو صحیح کہہ دیتا ہے۔ یہ احمد (یعنی احمد بن عبد اللہ بن یزید الحرانی جس کی سند سے یہ روایت حاکم نے نقل کی ہے) دجال اور سخت جھوٹا ہے‘‘۔
یحییٰ بن معین اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ لا اصل لہ ُ (اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے)۔ امام بخاریؒ کی رائے ہے کہ انہ منکر ولیس لہُ وجہ صحیح (یہ منکر روایت ہے اور اس کی نقل کا کوئی طریقہ بھی صحیح نہیں ہے) نووی اور جزری اس کو موضوع کہتے ہیں۔ ابن دقیق العید کے نزدیک بھی یہ ثابت نہیں ہے۔ ابن جوزیؒ نے مفصل بحث کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ انا مدینۃ العلم والی روایت جتنے طریقوں سے بھی مروی ہوئی ہے، سب کے سب موضوع ہیں۔
لائق غور بات یہ ہے کہ جس حدیث کا سند کے اعتبار سے یہ حال ہو، اس پر اتنے بڑے فیصلے کی بنا رکھ دینا کہاں تک درست ہوسکتا ہے کہ ہم رسول اللہﷺ سے دین کے احکام صرف حضرت علیؓ کے واسطے سے حاصل کریں گے اور دوسرے صحابہ ؓ کو حصول علم کا ذریعہ سرے سے مانیں گے ہی نہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہے۔ قرآن مجید کے بعد ہمارے لیے ہدایت و رہنمائی کا سرحشمہ اگر کوئی ہے تو وہ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے اور صحابہ کرامؓ وہ ذریعہ ہیں جن کے واسطے سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ حضور ﷺ نے زندگی کے مختلف معاملات میں کیا رہنمائی فرمائی ہے۔ اب اگر ہم اس حدیث پر اعتبار کرکے اس علم کے لیے صرف ایک سید نا علی ابن طالب پر انحصار کرلیں، تو لامحالہ ہمیں علم کے اس بہت بڑے حصے سے محروم ہونا پڑے گا جو دوسرے صحابہؒ کے ذریعے سے منقول ہوا ہے۔ کیا عقل یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے لیے حضورﷺ کا ارشاد ہم کو اس حدیث کی بہ نسبت بہت زیادہ قوی اور مستند و معتبر ذریعہ سے پہنچنا چاہیے تھا، یہاں تک کہ اس کی صحت میں کسی شک کی گنجائش باقی نہ رہتی۔
اب دیکھیے کہ اگر اس حدیث کا وہی مفہوم لیا جائے جو اس کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے تو وہ نبی ﷺ کے بکثرت ارشادات سے اور آپؐ کی زندگی بھر کے عمل سے کس طرح ٹکراتا ہے۔ حضور ﷺ نے بہت سے صحابہ کرامؓ کو اپنی حیات طیبہ میں فوج کا افسر بنا کر مہمات پر بھیجا۔ مملکت اسلامیہ کے مختلف علاقوں پر عامل مقرر کیا۔ تحصیل و صدقات کے منصب پر مامور کیا۔ نماز پڑھانے کی خدمت سپرد کی۔ تعلیم اور تبلیغ کے لیے اطراف و نواحی میں روانہ کیا۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن سے انکار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب خدمات کیا علم دین کے بغیر ہی انجام دی جاتی تھیں؟ یا یہ سارے صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کے نہیں بلکہ حضرت علیؓ کے شاگرد تھے؟ اگر یہ دونوں باتیں غلط ہیں تو پھر صحیح بات صرف یہی ہوسکتی ہے کہ ان صحابہ ؓ نے ’’مدینہ العلم‘‘ یا ’’دار الحکمۃ‘‘ سے براہ راست علم و حکمت کی تعلیم حاصل کی تھی اور یہ سب حضرت علیؓ کی طرح شہر علم اور دار حکمت کے دروازے تھے۔
پھر جس شخص نے بھی سیرت پاک کا کبھی مطالعہ کیا ہے، وہ جانتا ہے کہ نبوت پر سر فراز ہونے کے بعد حیات دنیوی کی آخری ساعت تک حضور ﷺ براہ راست خود دین کی تعلیم و تبلیغ فرماتے رہے۔ اور جو لوگ بھی دین کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتے تھے وہ بلا واسطہ حضور ﷺ ہی سے پوچھتے اور جواب حاصل کرتے رہے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ حضورﷺ کو خدا کی طرف سے جو احکام پہنچے ہوں، وہ آپﷺ نے صرف حضرت علیؓ کو بتائے ہوں اور دنیا تک انہیں پہنچانے کی خدمت تنہا حضرت علیؓ نے انجام دی ہو؟ یا کوئی شخص حضور ﷺ سے دین کی کوئی بات پوچھنے کے لیے حاضر ہوا ہو اور آپؐ نے فرمایا کہ علیؓ سے جا کر پوچھو، یا علیؓ کے توسط سے میرے پاس آؤ؟ اگر نبوت کی ۲۳ سالہ زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا تو آخر اس قول کا کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ ’’مدینہ العلم‘‘ کا صرف ایک دروازہ ہے اور وہ حضرت علیؓ ہیں؟
خود حاکم جنہوں نے اس حدیث کو بڑے زور سے صحیح قرار دیا ہے، اپنی مستدرک میں ہزاروں حدیثیں دوسرے صحابہ کرامؓ سے نقل کرتے ہیں، اور ان میں سے بکثرت احادیث ایسی ہیں جن کی ہم معنی کوئی حدیث حضرت علیؓ سے ان کی کتاب میں منقول نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حاکم کے نزدیک یہ حدیث صحیح تھی اور مدینۃ العلم تک پہنچنے کا دروازہ صرف ایک ہی تھا تو یہ دوسرے بہت سے دروازے کہاں سے پیدا ہوگئے اور وہ کیوں ان پر گئے؟
حضرت علیؓ کا اپنا دعویٰ بھی یہ نہ تھا کہ انہیں حضورﷺ نے کوئی ایسا علم دیا تھا جو دوسروں کو نہ دیا ہو۔ بخاری، مسلم اور مسند احمد میں صحیح سندوں کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ حضرت علیؓ نے بار بار برسرعام ان لوگوں کے خیال کی تردید فرمائی تھی جو ایسا سمجھتے تھے۔ آپؓ نے اپنی تلوار کے پر تلے سے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکال کر لوگوں کو دکھایا تھا کہ اس کے سوا کوئی خاص چیز ایسی نہیں ہے جو میں نے حضور ﷺسے سن کر ثبت کی ہو اور اس پرزے میں صرف چار پانچ فقہی احکام تھے۔ مسند احمد میں ۱۳ مختلف سندوں سے حضرت علی ؓ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے۔ ان سب روایتوں کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ممدوح نے متعدد مواقع پر عوام کی اس غلط فہمی کو رفع فرمایا تھا کہ نبیﷺ اپنے داماد کو راز میں دین کے کچھ اسرار تعلیم فرماگئے ہیں جو دوسروں کو آپؐ نے نہیں بتائے۔ بہت سے لوگوں نے آنجناب کی اپنی زبان سے اس باطل خیال کی تردید سنی اور یہ تردید اتنی مختلف سندوں سے محدثین کو پہنچی کہ اس صحت پر مشکل ہی سے شک کیا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد جب ہم ان بہت سی صحیح احادیث کو دیکھتے ہیں جو دوسرے صحابہؓ کے متعلق نبیﷺ نے ارشاد فرمائی ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ حدیث ان سب کے خلاف ہے۔ مسند احمد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے زید بن ثابتؓ کے متعلق فرمایا: ْاَفْرَضُھُم یعنی صحابہ میں علم میراث کے وہ سب سے بڑے ماہر ہیں۔ معاذ بن جبلؓ کے متعلق فرمایا، اَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ۔ ’’حلال اور حرام کو وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں‘‘۔ ابی بن کعبؓ کے متعلق فرمایا: اَقْرَاؤُھُم ’’قرآن مجید کے سب سے بڑے قاری وہ ہیں‘‘۔ مسند احمد میں خود حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لو کنت مؤمّرًا احداً من امتی من غیر مشورۃ لامرت علیھم ابن ام عبد۔
’’اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو بلا مشورہ امیر بنانے والا ہوتا تو ابن ام عبد (عبد اللہؓ بن مسعود) کو بناتا‘‘۔
ترمذی میں حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
لَا اَدْرِیْ مَابَقَائِیْ فِیْکُمْ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَیْنِ مِن بعدِی ابوبکرٍ و عُمَرُ۔
’’میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تمہارے درمیان رہوں گا۔ تم میرے بعد ان دو آدمیوں کی پیروی کرنا، ابوبکر اور عمر‘‘۔
حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
ما من نبی اِلاَّوَلَہٗ وَزِیْرانِ من اھلِ السماءِ وَ وزِیْرَ انِ مِنْ اھلِ الْاَرْضِ، فَاَمَّا وَزَیْرامِنْ اَھْلِ السماءِ فجبریلُ و مِیکائیلُ وَامَّا وَزَیْرَایَ مِنْ اَھْلِ الْارضِ فابوبکرٍ وَ عُمَرُ۔
’’ہر نبی کے لیے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوئے ہیں، میرے آسمانی وزیر جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام ہیں اور زمینی وزیر ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں‘‘۔
ترمذی ہی میں عقبہ بن عامر کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
لو کان بعدی نبی لکان عمر۔
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا‘‘۔
بخاری و مسلم میں حضرت سعد بن وقاصؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکار نے حضرت عمرؓ کو خطاب کرکے فرمایا:
یا ابْنَ الْخطابِ وَالَّذِیم نَفْسِیَ بِیَدِہ مالَقِیَکَ الشَّیْطانُ سَالِکاً فجَا قَطُّ اِلاَّسَلَکَ فجًّا غیرَ فَجِّکَ۔
’’خطاب کے بیٹے! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جس راستے پر بھی شیطان کی تجھ سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے، اس کو چھوڑ کر وہ کسی ایسے راستے پر چلا جاتا ہے جہاں تو اس کے سامنے نہ ہو‘‘۔
ابوداؤد میں حضرت ابوذر ؓ نبی ﷺ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ :
اِنَّ اللہَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ یَقُوْلُ بہٖ۔
’’اللہ نے حق عمر کی زبان پر رکھ دیا ہے، اسی کے مطابق وہ بات کرتا ہے‘‘۔
بخاری و مسلم میں ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضورﷺ نے فرمایا:
’’رات میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور وہ چھوٹے بڑے کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ کسی کا کرتا سینے تک ہے، کسی کا زیادہ نیچے تک اور عمر میرے سامنے پیش کیے گئے تو ان کا کرتا زمین پر گھسٹ رہا تھا‘‘۔ حاضرین نے پوچھا کہ حضورﷺ نے اس کی کیا تاویل فرمائی؟ ارشاد ہوا کہ کرتے سے مراد دین ہے۔
یہ روایات تو دوسرے صحابہ کرامؓ کی ہیں خود حضرت علیؓ سے جو نہایت صحیح اور معتبر روایتیں کتب حدیث میں وارد ہوئی ہیں وہ ملاحظہ ہوں:
بخاری میں حضرت علیؓ کے صاحب زادے محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد سے پوچھا: ’’نبیﷺ کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟‘‘ فرمایا: ’’ابوبکرؓ‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ ’’پھر کون؟‘‘ فرمایا: ’’عمرؓ‘‘۔ اس کے بعد مجھے اندیشہ ہوا کہ میں پھر یہی سوال کروں گا تو کہہ دیں گے عثمانؓ۔ اس لیے میں نے پوچھا۔ ان کے بعد کیا آپ ہیں؟ فرمایا: ’’ما اَنَا اِلاَّرَجَلٌ مِنَ الْمَسْلِمِیْنَ … میں کچھ نہیں ہوں مگر بس مسلمانوں میں سے ایک آدمی‘‘۔
یہ جواب ٹھیک اس بلند اور پاکیزہ سیرت کے مطابق ہے جو سیّدنا علیؓ کی تھی۔ ان جیسے عالی ظرف انسان کا یہی مقام تھا کہ اپنے مرتبے کی فضلیت بیان کرنے سے اجتناب فرماتے اور اپنی ذات کوعام مسلمانوں کی صفت ہی میں رکھتے۔
مسند احمد میں امام حسن بن علیؓ کی روایت ہے (اور یہ روایت ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے) کہ ان کے والد سیّدنا علیؓ نے بیان کیا:
کُنْتُ عِنْدَ النبیِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فَاَقْبَلَ اَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ فقال یا علُّی ھٰذانِ سَیّدا کَھُوْلِ اَھْلِ الْجنۃِ و شَبَابِھا بَعْد َالنَّبِیّیْنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔
’’میں نبیﷺ کے پاس بیٹھا تھا، اتنے میں ابوبکرؓ و عمرؓ سامنے سے آتے نظر آئے۔ حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے علیؓ یہ دونوں پیغمبروں کے بعد تمام سن رسیدہ اور جوان اہل جنت کے سردار ہیں‘‘۔ (مسند احمد، حدیث نمبر ۶۰۲)
ایک اور حدیث جو مسند احمد، بزار اور طبرانی میں حضرت علیؓ سے بسند صحیح منقول ہوئی ہے، یہ ہے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ حضورﷺ کے بعد کون امیر ہوگا؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:
اِنْ تُؤمَّرُوْا ابابکر تَجِدُوہ اَمینًا زاھدًا فِی الدُّنْیا رَاغِبًا اِلَی الآخرۃِ وَاِنْ تؤمَروا عُمَرَ تَجِدُوْہٗ قویًا اَمینًا لَا یَخَافُ فِی اللہ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، وان تُؤَمِّرُؤا عَلِیًا ولا اراکم فاعلین، تَجِدُوْہٗ ھَادیًا مَھْدیًّا یَا خُذُبِکُمُ الطَّرِیَق الْمُسْتَقِیٰمَ۔
’’اگر تم ابوبکرؓ کو امیر بناؤ گے تو اسے امین، دنیا کے معاملہ میں زاہد اور آخرت کی طرف راغب پاؤ گے۔ اور اگر عمرؓ کو امیر بناؤ گے تو اسے طاقت ور، امین اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرنے والا پاؤ گے، اور اگر علیؓ کو امیر بناؤ گے اور میں نہیں سمجھتا کہ تم ایسا کرو گے تو اسے ہادی و مہدی پاؤ گے جو تم کو سیدھے راستے پر چلائے گا‘‘۔ (مسند احمد، حدیث نمبر ۸۵۹)
اسی مسند احمد میں ۲۶ صحیح سندوں سے یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ حضرت علیؓ نے ایک تقریر میں برسر منبر صاف صاف فرمایا کہ نبیﷺ کے بعد امت کے بہترین آدمی ابوبکرؓ ہیں اور ان کے بعد عمرؓ۔ ان روایات میں سے اکثر کے تمام راوی ثقہ ہیں اور کسی پر کوئی جرح نہیں ہیں۔ ۲۳ روایتیں فن حدیث کے لحاظ سے صحیح اور ۲ حسن ہیں۔ صرف ایک ضعیف ہے۔ ان میں سے ۱۲ کے راوی حضرت ابو حجیفہؓ صحابی ہیں جو حضرت علیؓ کے دور حکومت میں پولیس اور بیت المال کے افسر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے دوران تقریر میں سوال کیا کہ جانتے ہو، نبیﷺ کے بعد امت کا سب سے بہترین انسان کون ہے؟ میں نے عرض کیا: امیر المومنین وہ آپ ہیں۔ فرمایا: نہیں حضورﷺ کے بعد اس امت کے بہترین انسان ابوبکرؓ ہیں اور ان کے بعد عمرؓ۔
ایک اور راوی عبد خیر ہمدانی ہیں جن تک ۱۳ روایتوں کا سلسلہ پہنچتا ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے حضرت علیؓ کا یہ ارشاد خود ان کی زبان سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا میرے کان بہرے ہوجائیں، اگر میں نے اس کو خود ان کی زبان سے نہ سنا ہو۔
ایک اور راوی ابراہیم نخعی ہیں جو کہتے ہیں کہ علقمہ نے کوفے کی مسجد کے منبر پر ہاتھ مار کر کہا کہ اس منبر پر میں نے حضرت علیؓ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خیْرُ النَّاسِ کَانَ بَعْدَ رَسُولِ اللہﷺ ابوبکرٍؓ ثم عمرُؓ۔
بیہقی اور مسند احمد میں حضرت علیؓ کا یہ ارشاد منقول ہے:
ما کنا نَبْعَدُ اَنّ السَّکِیْنَۃَ تَنْطِقُ عَلٰی لِسانِ عُمَرَ۔
’’ہم لوگ اس بات کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ سکینت عمرؓ کی زبان سے بولتی ہو‘‘۔
بخاری و مسلم اور مسند احمد میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا اور آپؓ کو غسل دینے کے لیے تختے پر لا کر رکھا گیا تو چاروں طرف لوگ کھڑے ہوئے ان کے حق میں دعائے خیر کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص پیچھے سے میرے شانے پر کہنی ٹیک کر جھکا اور کہنے لگا: ’’ اللہ تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے، تمہارے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کے متعلق میرے دل میں یہ تمنا ہو کہ میں اس کا اعمال نامہ لے کر اللہ تعالیٰ کے حضورحاضر ہوں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تم کو ضرور اپنے دونوں رفیقوں (یعنی رسول اکرمﷺ اور ابوبکر صدیق ؓ) کے ساتھ ہی رکھے گا۔ کیوں کہ میں اکثر حضورﷺ کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ فلاں جگہ میں اور ابوبکرؓ و عمرؓ تھے۔ فلاں کام میں نے اور ابوبکرؓ اور عمرؓ نے کیا‘‘۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ علیؓ ابن ابی طالب تھے۔
اب غور طلب بات یہ ہے کہ حدیث انا مدینۃ العلم اگر صحیح ہے اور وہی کچھ اس کا مطلب ہے جو اس سے لیا جاتا ہے تو آخر اتنی کثیر التعداد احادیث کے متعلق کیا کہا جائے گا جو دوسرے صحابہ کرامؓ کے متعلق اس سے بہت زیادہ قوی اور معتبر سندوں کے ساتھ وارد ہوئی ہیں؟ کس دلیل سے اس کمزور اور نہایت مشتبہ سند کی حدیث کے مقابلے میں ان سب کو جھٹلایا جائے گا اگر نہیں جھٹلایا جاسکتا تو ان کی کیا ایسی تاویل کی جائے گی جس سے حضرت علیؓ مدینۃ العلم کے باب واحد بھی رہیں اور پھر صحابہؓ کے متعلق نبیﷺ کے اور خود حضرت علیؓ کے یہ ارشادات بھی سچے قرار پائیں؟ میں عرض کرتا ہوں کہ اول تو سیدنا حضرت علیؓ کی شان میں صحیح اور معتبر حدیثوں کی کمی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ ایک ایسی حدیث ان کے حق میں لانے کی کوشش کی جائے جو سند کے لحاظ سے ضعیف کے مرتبے سے بھی گری ہوئی ہے۔ تاہم اگر کسی کو اس کی صحت پر اصرار ہی ہو تو اس کا یہ حصہ بالکل غلط ہے ’’جس کو اس شہر میں آنا ہو، وہ اس دروازے سے آئے‘‘۔ کیوں کہ یہ حضور ﷺ کے دوسرے بہت سے ارشادات اور آپؐ کے زندگی بھر کے عمل کے خلاف ہے، اور حضرت علیؓ کے ارشادات سے بھی ٹکراتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کے پہلے حصے یعنی انا مدینۃ العلم و علی بابھا کو صحیح مانا جاسکتا ہے اور وہ بھی اس معنی میں نہیں کہ اس شہر کا صرف ایک ہی دروازہ ہے اور وہ علیؓ ہے، بلکہ اس معنی میں کہ اس شہر کے دروازوں میں سے ایک دروازہ علیؓ ہے، یہ معنی حق بھی ہیں اور حضور ﷺ کے دوسرے اقوال اور آپؐ کے عمل سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ ذی قعدہ 1376ھ، اگست 1957ء)