حدیث اور توہین صحابہ
سوال: بخاری (کتاب الانبیا) میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت کا ایک حصہ یہ ہے:
وان اُناسا من اصحابی یوخذ بھم ذات الشمال فاقول اصحابی اصحابی فیقول انھم لم یزالوا مرتدین علیٰ اعقابھم منذ فارقتھم فاقول ما قال العبد الصالح و کنت علیھم شھیدًا مادمت فیھم (الی قولہ) الحکیم۔
’’جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ’’میرے بعض اصحاب‘‘ کو بائیں طرف سے گرفتار کیا جائے گا تو میں کہوں گا (انہیں کچھ نہ کہو) یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ جواب ملے گا کہ تیری وفات کے بعد یہ لوگ الٹی چال چلے۔ اس کے بعد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کہوں گا کہ خدا وندا ! جب تک میں ان میں موجود رہا، ان کے اعمال کا نگران رہا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی ان کا رقیب تھا‘‘۔
اس روایت ے حضرات صحابہ کرامؓ کی توہین اور تحقیر مترشح ہوتی ہے۔ کیا یہ روایت صحیح ہے؟
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرامؓ میں کچھ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہیں مجرم کی حیثیت سے فرشتے قیامت کے دن بائیں طرف سے گرفتار کریں گے اور یہ کہ انہوں نے دنیا کی زندگی میں سرور دو عالم ﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کے طریقہ کو چھوڑ کر غلط روش اختیار کی۔
اصحاب سے مراد جناب کے صحابہؓ ہی ہیں۔ اس کے قرائن یہ ہیں:
(۱) لفظ اصحاب خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جنہوں نے آپ کی زندگی میں ایمان کے ساتھ آپ سے تعاون کیا اور آپ کی رفاقت اختیار کی، انہیں اصحاب کا لقب دیا گیا۔
(۲) ایک روایت میں خود حضور ﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ (اے جماعت صحابہ) تم میرے اصحاب ہو اور جو اہل ایمان تمہارے بعد آنے والے ہیں، ہمارے اخوان ہیں۔
(۳) حضرت صحابہ کرام ؓ کی فضیلت، بزرگی اور منقبت کے سلسلہ میں جو روایات آئی ہیں، ان میں بھی اصحاب کا اطلاق صحابہ کرامؓ پر ہے۔
(۴) حضور ﷺ کے احتجاج پر فرشتے جواباً عرض کریں گے کہ ’’آپ کے جدا ہوجانے کے بعد ان لوگوں نے آپ کے طریقہ کو چھوڑ دیا اور اپنی طرف سے نئے طریقے ایجاد کرلیے۔ حدیث ’’لاتدری ما احدثوا بعدک‘‘۔ (مشکوۃ) کے الفاظ اس پر شاہد ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جب تک آپؐ زندہ رہے تو یہ لوگ آپ کے وفادار ساتھی کی طرح آپؐ کے دین کے پیروکار رہے لیکن جونہی آپ نے اس عالم ناسوت کو چھوڑا تو انہوں نے پھر دین میں رخنے ڈالنے شروع کئے۔
(۵) پھر آنجناب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح معذرت فرمائیں گے۔
ان قرآنی الفاظ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ معاملہ حضور پاکﷺ کے اصحاب کا ہے۔
جواب: امام بخاریؒ نے یہ حدیث کتاب الانبیا میں دو جگہ ابن عباس کے حوالہ سے روایت کی ہے۔ ایک باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراھیم خلیلاً میں دوسرے باب واذکر فی الکتاب مریم میں۔ اس کے علاوہ اسی مضمون کی متعدد احادیث انہوں نے کتاب الرقاق باب فی الحوض میں انس بن مالک، سہل بن سعد، ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ ؓ سے نقل کی ہیں۔ ان سب کو جمع کرنے سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:
(۱) یہ معاملہ ان لوگوں سے متعلق ہے جو نبیﷺ کے عہد میں اصحاب کے زمرے میں شمار ہوتے تھے مگر آپ ؐ کے بعد مرتد ہوگئے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ انھم لن یزالوا مرتدین علی اعقابھم منذ فارقتھم (یہ آپ کے جدا ہونے کے بعد الٹے پلٹ گئے تھے اور پلٹے رہے، یعنی مرتد ہونے کے بعد پھر انہوں نے توبہ نہ کی)۔ دوسری روایت میں ہے کہ انھم ارتدوا علی اعقابھم القھقریٰ، او علی ادبارھم القھقریٰ (وہ الٹے پھر گئے تھے، یعنی جس کفر سے آئے تھے، اسی کی طرف واپس چلے گئے)۔
(۲) یہ معاملہ ان لوگوں سے بھی متعلق ہے جنہوں نے حضور ﷺ کے عہد میں تو اسلام قبول کر لیا تھا مگر بعد میں بری روش اختیار کرلی، چنانچہ متعدد روایات میں ہے کہ: لاتدری ما احدثوا بعدک، اور اِنَّکَ لا علم لک بما احدثوا بعدک۔ (آپ نہیں جانتے کہ آپؐ کے بعد انہوں نے کیا کچھ کیا)۔
دونوں صورتوں میں معاملہ بعض اصحاب سے متعلق ہے نہ کہ تمام اصحاب ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور کے زمانے میں جن لاکھوں آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا، وہ آپ کے اصحاب میں شمار ہوتے تھے۔ مگر انہی میں کچھ لوگ وہ بھی تھے جنہوں نے فتنہ ارتداد میں حصہ لیا اور اسی حالت میں جان دے دی اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ ان میں کچھ لوگ ایسے ہوں جنہوں نے منافقانہ اسلام قبول کیا ہو اور اپنے نفاق کو چھپائے رکھا۔ اپنے اصحاب میں ایسے لوگوں کی موجودگی کا امکان فرض کرکے اگر آپ ؐ نے کچھ باتیں بطور تنبیہہ ارشاد فرمائی ہوں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے اور اس سے تمام صحابہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ مذکورہ بالا احادیث دراصل اسی تنبیہہ کے قبیل سے ہیں اور ان سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان کی حفاظت نہ کریں گے یا کبائر میں مبتلا ہوں گے، انہیں آخرت میں محض شرف صحبت خدا کی گرفت سے نہ بچا سکے گا۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاخری ۱۳۷۵ھ، فروری ۱۹۵۶ء)