قرآ ن مجید میں قرأتوں کا اختلاف
سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلے کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ امید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔
قرآن مجید کے بارے میں ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں نبی کریمؐ پر نازل ہوا تھا حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی … لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قرأت مختلف طریقوں سے مروی ہے ، جن میں اعراب کا فرق عام ہے بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کا ذکر کیا گیا ہے۔
اگر پہلی بات صحیح ہو تو اختلاف قرأت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علما کا اختلاف قرأت کی تائید کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر دوسری بات کو صحیح مانا جائے تو قرآن کی صحبت مجروح ہوتی نظر آتی ہے ۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنا فرق ہو جاتا ہے۔
یہاں میں یہ عرض کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کر رہا ہوں۔
جواب: یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبی ﷺ پر نازل ہوا تھا، اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قرأتوں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پر مطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے، یعنی قرآن اگر صحیح طور پر حضور پاکﷺ سے نقل ہوا ہے تو اختلافات قرأت کی بات غلط ہے اور اگر اختلاف قرأت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ، قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منتقل نہیں ہوا ہے۔ حالاں کہ فیصلے صادر کرنے سے پہلے یہ لوگ کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو خود بھی غلط فہمی سے بچ جائیں اور دوسروں کو غلط فہمیوں میں مبتلا کرنے کا وبال بھی اپنے سر نہ لیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس رسم الخط میں ابتدا میں نبی پاکﷺ نے وحی کی کتابت کرائی تھی اور جس میں ابوبکر صدیقؓ نے پہلا مصحف مرتب کرایا اور حضرت عثمانؓ نے جس کی نقل بعد میں شائع کرائی، اس کے اندر نہ صرف یہ کہ اعراب نہ تھے بلکہ نقطے بھی نہ تھے۔ کیوں کہ اس وقت تک یہ علامات ایجاد نہ ہوئی تھیں۔ اس رسم الخط میں پورے قرآن کی عبارت یوں لکھی گئی تھی:
اس طرز تحریر کی عبارتوں کو اہل زبان اٹکل سے پڑھ لیتے تھے اور بہرحال بامعنی بنا کر ہی پڑھا کرتے تھے، لیکن جہاں مفہوم کے اعتبار سے متشابہ الفاظ آجاتے یا زبان کے قواعد و محاورے کی رو سے ایک ہی لفظ کے کئی تلفظ یا اعراب ممکن ہوتے ، وہاں خود اہل زبان کو بھی بکثرت التباسات پیش آ جاتے تھے اور یہ تعین کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ لکھنے والے کا اصل منشا کیا ہے۔ مثلاً ایک فقرہ اگر یوں لکھا ہو کہ ربنا بعد بین اسفارنا تو اسے رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا بھی پڑھا جاسکتا تھا اور رَبُّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا بھی۔ اسی طرح اگر ایک عبارت یوں لکھی ہو کہ الطر الی العطام کیف ننسرھا تو اسے اُنْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا بھی پڑھا جاسکتا تھا اور کَیْفَ نَنْشُرُھَا بھی۔
یہ اختلافات تو اس رسم الخط کے پڑھنے میں اہل زبان کے درمیان ہو سکتے تھے۔ لیکن ایک عربی تحریر اگر اسی رسم الخط میں غیر اہل زبان کو پڑھنی پڑ جاتی تو وہ اس میں ایسی سخت غلطیاں کر جاتے جو قائل کی منشا کے بالکل برعکس معنی دیتی تھیں ۔ مثلاً ایک دفعہ ایک عجمی نے آیت اَنَّ اللّہَ بَرِیّء مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ میں لفظ رَسُوْلُہُ کا اعراب رَسُوْلِہٖ پڑھا جس سے معنی یہ بن گئے کہ ’’اللہ بری الذمہ ہے مشرکین سے اور اپنے رسول سے‘‘۔ (معاذ اللہ)
پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن میں اعراب لگانے کی ضرورت سب سے پہلے بصرہ کے گورنر زیاد نے محسوس کی، جو ۴۵ھ سے ۵۳ھ تک وہاں کا گورنر رہا تھا۔ اس نے ابوالاسوددُؤلی سے فرمائش کی کہ وہ اعراب کے لیے علامات تجویز کریں اور انہوں نے یہ تجویز کیا کہ مفتوح حرف کے اوپر، مکسور حرف کے نیچے اور مضمون حرف کے بیچ میں ایک ایک نقطہ لگادیا جائے۔ اس کے بعد عبدالملک بن مروان (۶۵ھ تا ۸۶ھ) کے عہد حکومت میں حجاج بن یوسف والی عراق نے دو علما کو اس کام پر مامور کیا کہ وہ قرآن کے متشابہ حروف میں تمیز کرنے کی کوئی صورت تجویز کریں۔ چنانچہ انہوں نے پہلی بار عربی زبان کے حروف میں بعض کو منقوط اور بعض کو غیر منقوط کر کے اور منقوط حروف کے اوپر یا نیچے ایک سے لے کر تین تک نقطے لگا کر فرق پیدا کیا اور ابوالاسود کے طریقے کو بدل کر اعراب کے لیے نقطوں کے بجائے زیر، زبر، پیش کی وہ حرکات پیش کیں جو آج مستعمل ہیں۔
ان دونوں تاریخی حقیقتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ اگر قرآن مجید کی اشاعت کا دارومدار صرف تحریر پر ہوتا تو جس رسم الخط میں امت کو یہ کتاب ملی تھی، اس کو پڑھنے میں تلفظ اور اعراب ہی کے نہیں، متشابہ حروف کے بھی کتنے بے شمار اختلافات ہو گئے ہوتے۔ محض زبان اور اس کے قواعد کی بنا پر خود اہل زبان بھی اگر نقطے اور اعراب لگانے بیٹھتے تو قرآن کی ایک ایک سطر میں بیسیوں اختلافات کی گنجائش نکل سکتی تھی اور کسی ذریعے سے یہ فیصلہ نہ کیا جاسکتا تھا کہ اصل عبارت جو نبی ﷺ پر نازل ہوئی تھی وہ کیا تھی۔ اس کا اندازہ آپ خود اس طرح کرسکتے ہیں کہ اردو زبان کی کوئی عبارت بے نقط لکھ کر دس بیس زبان دان اصحاب کے سامنے رکھ دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے کسی کی قرأت بھی کسی دوسرے کی قرأت کے مطابق نہ ہوگی۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن میں نقطے اور اعراب لگانے کا کام محض لغت اور قواعد زبان کی مہارت کے بل بوتے پر نہیں کیا جا سکتا تھا، کیوں کہ اس طرح ایک مصحف نہیں، بے شمار مصاحف تیار ہوجاتے جن میں الفاظ اور اعرابوں کے ان گنت اختلافات ہوتے اور کسی نسخے کے متعلق بھی یہ دعویٰ نہ کیا جا سکتا کہ یہ ٹھیک اس تنزیل کے مطابق ہے جو نبیﷺ پر نازل ہوئی تھی۔
اب وہ کیا چیز ہے جس کی بدولت آج دنیا بھر میں ہم قرآن کا ایک ہی متفق علیہ متن پا رہے ہیں اور جس کی بدولت قرأتوں کے اختلافات امکانی وسعتوں تک پھیلنے کے بجائے صرف چند متواتر یا مشہور اختلافات تک محدود رہ گئے؟ یہ اسی نعمت کا صدقہ ہے جس کی قدر گھٹانے اور جس پر سے اعتماد اٹھانے کے لیے منکرین حدیث ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، یعنی روایت۔
اوپر جن دو تاریخی حقیقتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کے علاوہ ایک تیسری اہم ترین تاریخی حقیقت بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرآن کی اشاعت ابتداءً تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی تلقین کی صوت میں ہوئی تھی۔ نبیؐ نے قرآن کی عبارات کو کاتبان وحی سے لکھوا کر محفوظ تو ضرور کرا دیا تھا، لیکن عوام میں اس کے پھیلنے کا اصل ذریعہ یہ تھا کہ لوگ براہ راست حضورﷺ کی زبان سے قرآن کو سن کر یاد کرتے تھے اور پھر حضور پاک ﷺ سے سیکھنے والے آگے دوسروں کو سکھاتے اور حفظ کراتے تھے۔ اس طرح قرآن کا صحیح تلفظ اور صحیح اعراب، جو عین تنزیل کے مطابق تھا، ہزارہا آدمیوں کو حضور ؐ سے معلوم ہوا اور پھر لاکھوں آدمیوں کو حضورؐ کے شاگردوں کی زبانی تعلیم سے حاصل ہوا۔ صحابہ کرامؓ میں ایک معتدبہ گروہ ایسے اصحاب کا تھا جنہوں نے پورا قرآن لفظ بلفظ حضورﷺ سے سنا اور یاد کیا تھا۔ ہزارہا اصحاب ایسے تھے جو قرآن کے مختلف اجزا حضور ﷺ سے سن کر یاد کر چکے تھے، اور ایک بہت بڑی تعداد ان صحابیوں کی تھی جنہوں نے حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں تو آپ سے صرف بعض اجزائے قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی، مگر آپؐ کے بعد پورے قرآن کی قرأت لفظ بلفظ ان اصحاب سے سیکھی جو حضور ﷺ سے اس کو سیکھ چکے تھے۔ یہی اصحاب وہ اصل ذریعہ تھے جن کی طرف بعد کی نسل نے قرآن مجید کی صحیح قرأت (Reading) معلوم کرنے کے لیے رجوع کیا۔ اس قرأت کا حصول محض لکھے ہوئے مصحف سے ممکن نہ تھا۔ یہ چیز اسی طرح حاصل ہو سکتی تھی کہ مصحف مکتوب کو ان جیتے جاگتے مصاحف سے پڑھ کر اس کی اصل عبارت تک رسائی حاصل کی جائے۔
یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے قرآن کے جو مستند نسخے لکھوا کر مملکت کے مختلف مراکز میں رکھوائے تھے، ان کے ساتھ ایک ماہر قرأت کو بھی مقرر کیا تھا تاکہ وہ ان نسخوں کو ٹھیک طریقے سے پڑھنا لوگوں کو سکھائے۔ مدینہ میں حضرت زید بن ثابتؓ اس خدمت پر مامور تھے۔ مکہ میں حضرت عبداللہ بن سائبؓ کو خاص طور پر اسی کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ شام میں مغیرہؓ بن شہاب، کوفہ میں ابوعبدالرحمن السلمیؓ اور بصرہ میں عامرؓ بن عبدالقیس اس منصب پرمامور کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ جہاں بھی جو صحابی بھی حضور ﷺ سے براہ راست یا آپ ؐ کے بعد قراء صحابہ سے قرآن مجید کی پوری قرأت سیکھے ہوئے تھے، ان کی طرف ہزارہا آدمی اس مقصد کے لیے رجوع کرتے تھے کہ قرآن کا صحیح تلفظ اور صحیح اعراب لفظ بلفظ ان سے سیکھیں۔
ان عام متعلّمین قرآن کے علاوہ تابعین و تبع تابعین کے عہد میں ایک گروہ ایسے بزرگوں کا بھی پیدا ہوگیا جنہوں نے خصوصیت کے ساتھ قرأت قرآن میں اختصاص پیدا کیا۔ یہ لوگ ایک ایک لفظ کے تلفظ، طریق ادا اور اعراب کو معلوم کرنے کے لیے سفر کر کر کے ایسے اساتذہ کے پاس پہنچے جو رسول اللہﷺ سے قریب تر نسبت تلمذ رکھتے تھے اور ہر ہر لفظ کی قرأت کے متعلق یہ نوٹ کیا کہ اسے انہوں نے کس سے سیکھا ہے اور ان کے استاد نے کس سے سیکھا تھا۔ اسی مرحلے میں یہ بات تحقیق ہوئی کہ مختلف صحابہ اور ان کے شاگردوں کی قرأت میں کہاں کہاں اور کیا کیا اختلافات ہیں۔ ان میں سے کون سے اختلاف شاذ ہیں، کون سے مشہور ہیں، کون سے متواتر ہیں اور ہر ایک کی سند کیا ہے ۔
پہلی صدی کے دور آخر سے لے کر دوسری صدی تک اس طرح کے ماہرین قرأت کا ایک گروہ کثیر دنیائے اسلام میں موجود تھا، مگر ان میں سے خاص طور پر جن لوگوں کا کامل علم تمام امت میں تسلیم کیا گیا، وہ حسب ذیل سات اصحاب ہیں، جو قراء سبعہ کے نام سے مشہور ہیں:۔
(۱) نافع بن عبد الرحمٰن متوفی ۱۶۹ھ: یہ اپنے وقت میں مدینہ کے رئیس القراء مانے جاتے تھے۔ ان کا سب سے زیادہ معتبر سلسلہ تلمذ یہ تھا کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے پورا قرآن مجید پڑھا، انہوں نے ابی بن کعبؓ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے۔
(۲)عبد اللہ بن کثیر: یہ مکہ کے امام قرأت تھے۔ ۴۵ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ھ میں وفات پائی۔ ان کے خاص استاد عبد اللہ بن سائب مخزومی تھے جنہیں حضرت عثمانؓ نے قرآن کے سرکاری نسخے کے ساتھ تعلیم دینے کے لیے مکہ بھیجا تھا اور عبداللہ بن سائب وہ بزرگ تھے جنہوں نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ سے پورا قرآن پڑھا تھا۔
(۳)ابو عمرو بن العلاء البصری: ۶۸ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۵۵ھ میں وفات پائی۔ حرمین اور کوفہ و بصرہ کے کثیر التعداد ائمہ قرأت سے علم حاصل کیا۔ ان کے سب سے زیادہ معتبر سلسلہ تلمذدو تھے۔ ایک مجاہد اور سعید بن جبیر کا سلسلہ جو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے واسطےسے حضرت ابی بن کعبؓ تک پہنچتا تھا۔ دوسرا حسن بصریؒ کا سلسلہ جن کے استاد ابوالعالیہ تھے اور وہ حضرت عمرؓ بن الخطاب کے شاگرد تھے۔
(۴)عبد اللہ بن عامر: یہ اہل شام میں قرأت کے امام مانے گئے۔ ۸ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۱۸ھ میں وفات پائی۔ بڑے بڑے صحابہؓ سے قرأت سیکھی تھی۔ ان کے خاص استاد مغیرہ بن شہاب مخزومی تھے جنہوں نے حضرت عثمانؓ سے قرأت کا علم حاصل کیا تھا۔ پھر حضرت عثمانؓ کے زمانے میں قرآن کا جو سرکاری نسخہ شام بھیجا گیا تھا، اس کے ساتھ یہی مغیرہ بن شہاب تعلیم قرأت پر مامور کر کے بھیجے گئے تھے۔
(۵) حمزہ بن حبیب الکوفی: ۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۵۷ھ میں وفات پائی۔ ان کا خاص سلسلہ سند عن الاعمش، عن یحییٰ بن وثاب، عن زَرّ بن حُبَیش، عن علیؓ و عثمانؓ و ابن مسعودؓ ہے۔ اپنے وقت میں یہ کوفہ کے امام اہل قرأت مانے جاتے تھے۔
(۶) علی الکسائی: یہ حمزہ کے بعد کوفہ کے امام قرأت مانے گئے۔ یہ بیک وقت نحو کے امام بھی تھے اور قرأت کے امام بھی۔ ان کی مجلس میں سیکڑوں آدمی اپنے اپنے مصاحف لے کر بیٹھ جاتے اور یہ قرآن مجید کے ایک ایک لفظ کا صحیح تلفظ، طریق ادا اور اعراب بتاتے جاتے تھے۔ ۱۸۹ھ میں وفات پائی۔
(۷) عاصم بن ابی النجود کوفہ کے شیخ القراء: 127ھ میں وفات پائی۔ ان کے معتبر ترین ذریعہ علم قرأت دو تھے۔ ایک زر بن حبیش جنہوں نے حضرت علیؓ و عبداللہؓ بن مسعود سے قرأت کا علم حاصل کیا تھا۔ دوسرے عبداللہ بن حبیب السلمی جنہوں نے حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زیدؓ بن ثابت اور حضرت ابیؓ بن کعب سے قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی اور بعد میں حضرت علیؓ نے ان کو امام حسنؓ اور امام حسینؓ کا معلم قرأت مقرر کیا تھا۔ آج قرآن کا جو نسخہ ہمارے ہاتھوں میں ہے، وہ انہی عاصم بن ابی النجود کے مشہور ترین شاگرد حفص (۹۰ھ تا ۱۸۰ھ) کی روایت کے مطابق ہے۔
ان سات اصحاب کے علاوہ مزید جن اصحاب کی قرأتوں نے شہرت حاصل کی وہ یہ ہیں:
ابو جعفر، یعقوب، خلف، حسن بصری، ابن محیصن، یحییٰ الیزیدی اور الشنبوذی۔
ان قراء کے زمانے میں سیکڑوں ہزاروں آدمی ایسے موجود تھے جنہیں انہی ذرائع اور سندوں سے یہ قرأتیں پہنچی تھیں، جن سے وہ ان کو پہنچی تھیں۔ وہ بھی انہی استادوں کے شاگرد تھے جن کے یہ لوگ شاگرد تھے اور ان سب کے پاس ہر قرأت کے لیے پورا ایک سلسلہ اسناد موجود تھا جو کسی صحابی کے واسطے سے رسول اللہﷺ تک پہنچا تھا۔ اس لیے ان میں سے کسی امام قرأت کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی قرأت کی روایت میں منفرد تھے۔ دراصل ہر ایک کی قرأت کے بکثرت گواہ دنیائے اسلام کے ہر حصے میں پائے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے ان اماموں کی قرأتیں امت میں مسلّم مانی گئیں۔
مختلف قرأتوں کو رد یا قبول کر نے کے لیے اہل فن کے درمیان جن شرائط پر قریب قریب مکمل اتفاق پایا جاتا ہے وہ یہ ہیں:۔
اول یہ کہ جوقرأت بھی ہو، وہ مصحف عثمانی کے رسم الخط سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس رسم الخط میں جس قرأت کی گنجائش نہ ہو، وہ کسی حال میں قبول نہیں کی جائے گی۔ مثلاً مصحف عثمانی میں اگر لفظ بعد لکھا گیا ہے تو اس کی قرأت بٰعِدْ اور بعَّدَ تو قبول کی جا سکتی ہے مگر بَعَّدْتَ قبول نہیں کی جا سکتی۔ کیوں کہ وہ مستند سرکاری متن کے خلاف پڑتی ہے۔
دوم یہ کہ قرأت ایسی ہو جو لغت، محاورے اور قواعد زبان کے خلاف نہ ہو اور عبارت کے سیاق و سباق سے مناسبت رکھتی ہو۔
ان دونوں شرطوں کے ساتھ تیسری اہم ترین شرط یہ ہے کہ ایک قرأت اسی صورت میں قابل قبول ہوگی جب کہ اس کی سند معتبر اور مسلسل واسطوں سے نبیﷺ تک پہنچی ہو۔ ورنہ محض یہ بات کہ ایک قرأت کے لیے محصف کے رسم الخط میں گنجائش ہے اور قواعد زبان کے لحاظ سے بھی ایک سیاق و سباق میں کوئی لفظ اس طرح پڑھا جاسکتا ہے، اس کو قبول کرلینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ہر قرأت کے لیے اس امر کا ثبوت لازماً ہونا چاہیے کہ اس لفظ یا اس عبارت کو حضور پاکﷺ نے اس طرح پڑھا تھا یا کسی صحابی کو اس طرح پڑھایا تھا۔ یہی آخری شرط وہ اصل نعمت ہے جس کی بدولت قرأتوں کے وہ بیشمار ممکن اختلافات، جن کی گنجائش مصحف عثمانی کے رسم الخط اور زبان و محاورے میں نکل سکتی تھی، گھٹ کر چند مستند اختلافات تک محدود رہ گئے اور ہم کو یہ سعادت میسر آئی کہ قرآن جیسا نبیﷺ نے پڑھایا تھا ویسا ہی آج ہم پڑھ سکیں۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ معتبر قاریوں کے واسطے سے متواتر اور مشہور سندوں کے ساتھ جو مختلف قرأتیں ہم تک پہنچی ہیں، ان کے اختلافات کی نوعیت کیا ہے؟ کیا فی الواقع حضورﷺ نے خود ہی بعض الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھا اور پڑھایا تھا یا ان میں سے کسی قرأت کو حضور ﷺ کی طرف غلط نسبت دی گئی ہے؟ اور کیا یہ قرأتیں معنی کے لحاظ سے متضاد ہیں یا ان میں کوئی مطابقت پائی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فی الواقع حضور ﷺ ہی نے بعض الفاظ مختلف طریقوں سے پڑھے اور پڑھائے ہیں اور ان مختلف قرأتوں میں درحقیقت تضاد نہیں ہے بلکہ غور کرنے سے ان میں بڑی گہری معنوی مناسبت اور افادیت پائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر ملک یوم الدین کی دو متواتر قرأتیں ہیں۔ عاصم، کسائی، خلف اور یعقوب نے کثیر التعداد صحابہ کی سند سے اس کو مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن روایت کیا ہے اور دوسرے قاریوں نے بہت سے صحابہؓ سے اس کی قرأت مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن نقل کی ہے۔ ایک قرأت کی رو سے ترجمہ ہوگا ’’روز جزا کا مالک‘‘ اور دوسری قرأت کا ترجمہ ’’روز جزا کا بادشاہ‘‘ غور کیجیے۔ کیا ان دونوں میں تضاد ہے؟ درحقیقت ان دو قرأتوں نے مل کر تو معنی کو اور زیادہ وسعت دے دی اور مدعا کو پوری طرح نکھار دیا۔ سند سے قطع نظر، عقل بھی کہتی ہے کہ جبریل نے دونوں قرأتوں کے ساتھ یہ لفظ حضورﷺ کو سکھایا ہو گا اور حضور ﷺ اس لفظ کو کبھی ایک طرح اور کبھی دوسری طرح پڑھتے ہوں گے۔
ایک اور مثال آیت وضو کی ہے، جس میں اَرْجُلُکُمْ کی دو متواتر قرأتیں منقول ہوئی ہیں۔ نافع، عبداللہ بن عامر، حفص، کسائی اور یعقوب کی قرأت اَرْجُلَکُمْ ہے جس سے پاؤں دھونے کا حکم ثابت ہوتا ہے اور عبداللہ بن کثیر، حمزہ بن حبیب، ابو عمرہ بن العلاء اور عاصم کی قرأت اَرْجُلِکُم ہے، جس سے پاؤں پر مسح کرنے کا حکم نکلتا ہے۔ بظاہر ایک شخص محسوس کرے گا کہ یہ دونوں قرأتیں متضاد ہیں۔ لیکن نبیﷺ کے عمل سے معلوم ہو گیا کہ دراصل ان میں تضاد نہیں ہے بلکہ یہ دو مختلف حالتوں کے لیے دو الگ الگ احکام کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بے وضو آدمی کو وضو کرنا ہو تو اسے پاؤں دھونا چاہیے۔ با وضو اگر تجدید وضو کرے تو وہ صرف مسح پر اکتفا کر سکتا ہے۔ وضو کر کے اگر آدمی پاؤں دھونے کے بعد موزے پہن چکا ہو تو پھر بحالت قیام ایک شب و روز تک اور بحالت سفر تین شب و روز تک وہ صرف موزوں پر مسح کر سکتا ہے۔ حکم کی یہ وسعت ان دو قرأتوں کی بدولت ہی واضح ہوتی ہے۔
اسی طرح دوسرے جن جن مقامات پر بھی قرآن کی متواتر اور مشہور قرأتوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں، ان میں سے کسی جگہ بھی آپ تضاد اور تصادم نہ پائیں گے۔ ہر قرأت دوسری قرأت کے ساتھ ایک نیا فائدہ دیتی ہے، جو تھوڑے سے غور و فکر اور تحقیق سے آپ کو معلوم ہوسکتا ہے۔