حیات برزخ اور سماع موتیٰ:
سوال: تفہیم القرآن کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ الحمد للہ بہت اچھے طریقے سے مضامین قرآن مجید دلنشیں ہو جاتے ہیں۔ لیکن بعض مواقع پر کچھ اشکال محسوس ہوئے ہیں۔ ان کو پیش خدمت کیے دیتا ہوں۔ براہ کرم ان کا حل تجویز فرما کر مرحمت فرمائیں۔ یہ چند معروضات اس لیے ارسال کر رہا ہوں کہ میں نے آپ کی تصنیفات میں سے رسائل و مسائل حصہ اول و دوم اور تفہیمات حصہ اول، دوم کو بہ نظر غائر دیکھا ہے۔ ان میں آپ نے جن آیات اور احادیث پر قلم اٹھایا ہے، ان کے مفاہیم کو دلائل سے واضح فرمایا ہے۔ بنا بریں میں امید کرتا ہوں کہ میری پیش کی ہوئی گزارشات کو بھی دلائل سے بیان فرما کر میری تشفی فرمائیں گے۔
۱۔ سورۃ یونس کی آیت فَكَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ29:10 کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’یعنی وہ تمام فرشتے اور وہ تمام جن و ارواح، اسلاف و اجداد، انبیا علیہ السلام، اولیا کرام، شہداء وغیرہ جن کو خدائی صفات میں شریک ٹھہرا کر وہ حقوق انہیں ادا کیے گئے جو دراصل خدا کے حقوق تھے، وہاں اپنے پرستاروں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہماری عبادت بجا لا رہے ہو۔ تمہاری کوئی دعا، کوئی التجا، کوئی پکار اور فریاد، کوئی نذر و نیاز، کوئی چڑھاوے کی چیز، کوئی تعریف و مدح اور ہمارے نام کی جاپ اور کوئی سجدہ ریزی و آستانہ بوسی و درگاہ گردی ہم تک نہیں پہنچی‘‘۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جتنے لوگ مر چکے ہیں، خواہ وہ انبیا علیہ السلام ہوں یا اولیا کرام ہوں وغیرہ، ان کے مزاروں اور قبروں پر جا کر لوگ چیخیں چلائیں اور حاجات کے لیے پکاریں، وہ اس سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں اور کچھ نہیں سنتے، اور اس مضمون پر بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً سورۃ نحل فَألْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ (16:86) میں بھی آپ نے تصریح فرمائی ہے اور انک لا تسمع الموتیٰ وما انت بمسمع من فی القبور، ان تدعوھم لا یسمعوا دعاء کم، ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ من لا یستجیب لہ الیٰ یوم القیامۃ وھم عن دعائھم غافلون۔ لیکن جب حدیث کی طرف نظر پڑتی ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زیارت کرنے والے کو پہچان لیتے ہیں اور سلام کا جواب بھی دیتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ذہن قلق و اضطراب کا شکار ہوجاتا ہے اور کوئی صحیح مطلب بر آری نہیں کر سکتا اور نہ کوئی صحیح تاویل سمجھ میں آتی ہے، لہٰذا اس مضمون کی چند حدیثیں پیش خدمت کرتا ہوں، براہ کرم ان حدیثوں کا مطلب بیان فرما کر عقدہ کشائی فرما دیں۔
(۱) مقتولین بدر سے حضور ﷺ کا اَلَیْسَ قَدْوَجَدّتُمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًا فرمانا اور حضرت عمرؓ کا یہ کہنا’’ یا رسول اللہ ! ماتکلم من اجساد لا ارواح لھا۔ اور حضورؐ کا ارشاد فرمانا مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْھُمْ صاف دلالت کرتا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس حدیث کی تاویل جو حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے، اس کی رو سے حضرت عمرؓ کے سوال اور حضورؐ کے جواب میں کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔
(۲)اخرج ابن عبدالبر وقال عبدالحق اسنادہ صحیح عن ابن عباس مرفوعًا، مَا مِنْ اَحَدٍیَمَّ بِقَبْرِ اَخِیْہِ الْمُوْمِنِ کَانَ یَعْرِفُہٗ فِی الدُّنْیا فَیُسَّلِّمُ عَلَیْہِ اِلَّاعَرَفَہ وَرَدَّ عَلَیْہ۔
(۳) فی الصحیحین من قولہ ﷺ اِنَّ الْعَبْدَ اِذْا وُضِعَ فِیْ قَبَرِہٖ وَ تَوَلّٰی عَنْہَ اَصْحابُہ اَنْ یَّسْمَعَ قَرْعَ نِعَالِھِمْ۔
دوسری چیز جو قابل توضیح ہے وہ یہ ہے کہ سورۃ نحل کی اس آیت:
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لاَ يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ، أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ(20:16-21) کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ’’یہاں جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے یا جن یا شیاطین یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں بلکہ اصحاب قبور ہیں‘‘ ۔ اور کچھ آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں کہ ’’لا محالہ اس آیت میں وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ سے مراد انبیا، اولیا، شہدا، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں … الخ ‘‘۔ اب عرض ہے کہ سورۃ بقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے شہداء کو موتیٰ کہنے کی نہی فرمائی ہے۔ ارشاد موجود ہے: وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ(154:2) اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے شہداء کو اموات غیر احیاء کیوں کہا؟ بظاہر آپ کی تشریح کے لحاظ سے ان دونوں آیتوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔
’’اموات غیر احیاء‘‘ کے عموم میں آپ نے انبیا علیہ السلام کو بھی داخل کیا ہے، حالاں کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیا علیہم السلام قبروں میں جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں، وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، سلام سنتے ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں۔
(۱) اَلْاَنْبِیَاءُ اَحْیاءٌ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّونَ۔
(۲) مَرْرْتُ بِمُوْسٰی وَھُوَ قَائِمُ یَصُلّیِ فِیْ قَبَرہٖ۔
(۳) مَنْ صلّٰی عَلَّی عَنْدَ قَبَرِیْ سَمِعُتہُ وَمَنْ صَلّٰی عَلَّی نَائِیًا اُبْلغْتُہٗ۔
حتیٰ کہ بعض بزرگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بعد از وفات حضورؐ کے ہونٹوں میں حرکت ہوئی اور جنازے میں کلام فرمایا کہ بیراریس وما بیر اریس سوف تعلمون۔ اور قبروں میں کلام فرمایا، جس کو اصحاب نے سنا۔ یہ تو وفات کے فوری بعد کی بات تھی کہ روح نے جسم کو کلیتاً نہیں چھوڑا تھا، لیکن بعد میں تاحشر بھی روح کا وہی تعلق بدن سے قائم رہے گا۔ خیر بزرگوں کے اقوال کو چھوڑیے۔ مذکورہ بالا حدیثیں آپ کی تفسیر کے خلاف پڑتی ہیں، براہ کرم ان کی تشریح کیجیے۔
جواب: آپ نے جس اشکال کا ذکر کیا ہے وہ بظاہر تو بہت پیچیدہ معلوم ہوتا ہے لیکن تھوڑا سا غور کرنے پر ساری پیچیدگی رفع ہوجاتی ہے۔ موت کے متعلق یہ بات تو عقل عام اور مشاہدے سے معلوم و معروف ہے کہ وہ جسم اور روح کے درمیان اس تعلق کے انقطاع کا نام ہے جو عرف عام میں زندگی کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس معنی میں عام انسانوں کی طرح انبیا، اولیا اور شہدا سب نے وفات پائی ہے اور خود شریعت بھی ان کو دفن کرنے کی اجازت دیتی ہے، ان کا ترکہ تقسیم کرتی ہے۔ (یا انبیا کے معاملے میں تقسیم ترکہ کو منع کرتی ہے) ان کی بیواؤں کے نکاح ثانی کو جائز رکھتی ہے (یا انبیا کی حد تک اس کو حرام کرتی ہے، نہ اس بنا پر کہ ان کے شوہر زندہ ہیں بلکہ اس بنا پر کہ ان کی حیثیت امت کے لیے بمنزلہ مادر ہے) اور ان کے لیے موت یا قتل یا وفات کے الفاظ استعمال کرتی ہے۔ اب لامحالہ جو زندگی ان کے لیے ثابت ہے وہ زندگی کے معروف معنی سے مختلف ہے۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ قرآن اور حدیث کے بیانات پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس زندگی سے مراد بہرحال برزخی زندگی ہی ہے، خواہ اس کے مدارج ہر ایک گروہ کے لیے کتنے ہی الگ ہوں اور وہ موت جس کا ان کے حق میں انکار کیا گیا ہے، وہ موت بمعنی فنا اور عدم ہے نہ کہ موت بمعنی معروف۔
اس برزخی زندگی کی نوعیت، جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا، ہر ایک گروہ کے حق میں الگ ہے، ایک زندگی کفار و فجار کی ہے، مگر وہ حوالاتیوں کی سی زندگی ہے جس میں ان کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔ انعام و اکرام کا کوئی پہلو اس میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی سنواتا ہے، مگر کوئی خوشخبری نہیں، بلکہ اس کی طرح کی باتیں جیسی کہ مقتولین بدر کو نبی ﷺ کی زبان مبارک سے سنوائیں تاکہ ان کے الم میں اور اضافہ ہو۔ ان میں سے اگر کچھ لوگ دنیا میں پوجے جاتے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کی سماعت کا کوئی موقع ان کو نہیں دیتا کہ اس سے وہ راحت پا سکیں۔ بخلاف اس کے انبیا اور اولیا اور شہدا و صالحین کی زندگی عالی قدر مہمانوں کی سی زندگی ہے جو فیصلہ آخرت سے پہلے ہی میزبانی کے نعائم سے سرفراز ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے راحت اور لطف کے سامان فراہم کر رہا ہے اور تکلیف دینے والی ہر چیز سے ان کو محفوظ رکھ رہا ہے۔ انہیں جو کچھ سننے کا موقع دیا جاتا ہے، وہ اہل دنیا کے درود و سلام ہیں، نہ کہ وہ مشرکانہ باتیں جو جہلاء ان کے بارے میں کرتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کو رنج پہنچانے والی ہوں گی نہ کہ خوش کرنے والی۔ ظاہر بات ہے کہ جن بزرگوں نے اپنی ساری عمر شرک کو مٹانے کی کوشش میں کھپا دی، وہ اگر یہ سنیں گے کہ آج خود انہی کو حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے پکارا جا رہا ہے تو اس سے بڑھ کر ان کے لیے رنجیدہ کوئی دوسری بات نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ یہ باتیں ان کو سنا کر ان کا عیش ہر گز منغض نہ فرمائے گا۔
اس تشریح کے بعد مجھے امید ہے کہ آپ کو آیات قرآنی اور حدیث نبویؐ کے درمیان کوئی تعارض محسوس نہ ہو گا۔ دونوں جگہ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف پہلو بیان ہوئے ہیں، مگر چوں کہ ان کی درمیانی کڑی کہیں تصریحات میں مذکور نہیں ہے اس لیے بظاہر ان میں تعارض نظر آتا ہے۔ تمام بیانات کو جمع کر کے بغور پڑھا جائے تو درمیانی کڑی انہی کے بین السطور سے مل جاتی ہے اور ظاہری تعارض رفع ہو جاتا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ رجب ۱۳۷۵ھ، مارچ ۱۹۵۶ء)