جماعت کا موقف اور طریقِ کار
سوال: اگرچہ میں جماعت کا رکن نہیں ہوں، تاہم اس ملک میں مغربیت کے الحادی مضرات کا جماعت جس قدر مقابلہ کر رہی ہے اس نے مجھے بہت کچھ جماعت سے وابستہ کر رکھا ہے اور اسی وابستگی کے جذبہ کے تحت اپنی ناقص آراء پیش کر رہا ہوں۔
پاکستان میں دستور و انتخاب کا مسئلہ ازسرنو قابل غور ہے اور نہایت احتیاط و تدبر سے کسی نتیجہ و فیصلہ پر پہنچنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ موجودہ دستور اپنی پوری ہیئت ترکیبی کے لحاظ سے قطعی طور پر اسلام کی حقیقی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ کتاب و سنت سے ثابت شدہ متفق علیہ احکام کا اجراء و نفاذ بھی موجودہ دستور کی رو سے لیجسلیچر اور صدر مملکت کی منظوری کا محتاج ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ایسی صورت میں قوانین الٰہیہ بھی انسانی آراء کی منظوری کے محتاج بن جاتے ہیں، سخت اندیشہ ہے کہ تعبیرات کی تبدیلی سے بہت سے وہ کام جواسلام کی نظر میں اب تک ناجائز نہیں رہے ہیں، اس ملک کی تعزیرات میں جرائم کی فہرست میں شامل ہو جائیں اور بہت سے وہ کام جنہیں اسلام قطعاً پسند نہیں کرتا مباحات کی فہرست میں داخل کر دیے جائیں۔ موجودہ دستور نے قرآن و سنت کو ایک طرف اسمبلی کی کثرت آراء کی منظوری و تعبیر فرمائی کا تابع بنا دیا ہے، دوسری طرف صدر مملکت کی رضامندی اور دستخطوں کا پابند بنا دیا ہے اور تیسری طرف عدالتوں کی تشریح و توضیح کا محتاج بنا دیا ہے۔ حالانکہ دستور میں صدر مملکت، ارکان وزارات، ارکان اسمبلی اور ارکان عدالت کی اسلامی اہلیت کے لیے ایک دفعہ بھی بطور شرط لازم نہیں رکھی گئی ہے اور ان کے لیے اسلامی علم و تقویٰ کے معیار کو سرے سے ضروری سمجھا ہی نہیں گیا ہے، ایسی صورت میں اس دستور کو اسلامی دستور کہنا اور سمجھنا ہی قابل اعتراض ہے کجا کہ اسے قبول کرنا اور قابل عمل بنانا۔
مخلوط انتخاب سے پاکستان کی وہ حیثیت بلاشبہ کمزور ہو جاتی ہے جسے اسلام کے نام سے نمایاں کیا گیا ہے، لیکن جداگانہ انتخاب سے سوائے مسلم قوم پرستی کے اور کیا حاصل ہو سکتا ہے؟ اسلام کے حق میں تو ایسا جداگانہ انتخاب قطعی بے معنی بلکہ نقصان رساں ہے جس کے بعد بھی اسمبلی میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو مساوی حق رائے دہی حاصل ہو، اسمبلی کا صدر و نائب صدر مسلم و غیر مسلم دونوں بن سکتے ہیں۔ نمائندہ وزارت میں دونوں لیے جاسکتے ہوں اور احکام اسلامی کی توضیح و تنقید، اتفاق و اختلاف آراء اور ووٹنگ میں کلمہ گو اور غیر کلمہ گو دونوں یکساں طور پر حصہ لے سکتے ہوں۔ ایسی صورت میں اسلام کا کوئی حقیقی فائدہ پہنچنے کی بجائے اسلام کی عمومیت و عالمگیریت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اسلام کا دوسروں کے مقابلہ میں فریق جنگ بن جانے کا خطرہ ہے۔ غیر مسلم قومیں خواہ مخواہ اسے اپنا سیاسی و معاشی حریف سمجھنے لگیں گی۔ غیر مسلموں کے دل اسلام کی طرف سے اور مقفل ہو جائیں گے۔ ملک میں دوسری قوموں سے کشمکش زیادہ سے زیادہ بڑھتی ہی جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ چل کر پاکستان میں اسلام بھی بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں کا قومی مذہب بن کر رہ جائے۔ اگر مسلمانوں کی پوزیشن اس ملک میں وہی رہے جو آج ہے، تو کوئی حقیقی اسلامی فائدہ حاصل ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
ان معروضات میں اگر کوئی وزن اور حقیقت محسوس فرمائی جائے تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ضرور اس پر غور فرمائیں اور ان نازک مواقع پر ملت اسلامیہ کی صحیح صحیح رہبری فرمانے سے دریغ نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اسے صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کے دل آپ کی حمایت و اعانت کے لیے کھول دے۔
جواب: آپ کے قیمتی خیالات قابل غور اور مفید مشورے لائق شکریہ ہیں۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جماعت سے دلچسپی رکھنے والے طبقے میں ایسے صاحب فکر لوگ موجود ہیں جو خود اپنی جگہ بھی معاملات پر غور کرتے ہیں اور اپنے مشوروں سے ہماری مدد کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔
آپ نے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے متعلق ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم اپنی تحریک خلاء میں نہیں چلا رہے ہیں بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں۔ اگر ہمارا مقصد محض اعلان و اظہار حق ہوتا تو ہم ضرور صرف بے لاگ حق بات کہنے پراکتفا کرتے۔ لیکن ہمیں چونکہ حق کو قائم بھی کرنے کی کوشش کرنی ہے اور اس کی اقامت کے لیے اسی واقعات کی دنیا میں سے راستہ نکالنا ہے، اس لیے ہمیں نظریات Idealogy اور حکمت عملی (Policy) کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ آئیڈیلزم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آخری مقصود کو نہ صرف خود پیش نظر رکھیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف بلاتے اور رغبت دلاتے رہیں۔ اور حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے مقصود کی طرف بتدریج بڑھیں اور واقعات کی دنیا میں ہم کو جن حالات سے سابقہ ہے ان کو اپنے مقصد کی طرف موڑنے، اس کے لیے مفید بنانے اور مزاحمتوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس غرض کے لیے ہمیں اپنے آخری مقصد کے راستے میں کچھ درمیانی مقاصد اور قریب الحصول مقاصد بھی سامنے رکھنے ہوتے ہیں، تاکہ ان میں سے ایک ایک کو حاصل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے جائیں۔
مثال کے طور پر بین الاقوامی دنیا میں ہمارا آخری مقصود ایک عالمگیر مثالی اسلامی ریاست ہے۔ اس کے راستے میں ایک طرف مغربی استعمار، اور روسی اشتراکیت بڑی عظیم رکاوٹیں ہیں۔ دوسری طرف مسلمان قوموں کی موجودہ حالت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہمارے درمیانی مقاصد میں شامل ہے۔ مسلمان ریاستوں کی باہمی پھوٹ، ان کا مختلف بلاکوں میں بٹ جانا، ان کے اندر وطنی نیشنلزم کا پیدا ہونا اور ان میں لادینی نظریات پر حکومتیں قائم ہونا، یہ سب ہمارے راستے میں حائل ہیں اور ان سب سے ہمیں عہدہ برآ ہونا ہے۔ اس غرض کے لیے اگر ہم کبھی کسی قریبی مقصود کے لیے کوئی بات کہیں یا کریں تو آپ کو یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم نے اپنے آخری مقصود کو چھوڑ دیا ہے یا اس کے خلاف کوئی بات کی ہے۔
اسی طرح دستورِ اسلامی کے بارے میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں ان میں سے کوئی بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے نہ کبھی پوشیدہ تھی۔ لیکن یہاں ایک کھلی کھلی لادینی ریاست کا قائم ہو جانا ہمارے مقصد کے لیے اس سے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا جتنا اب اس نیم دینی نظام کا نقصان آپ کو نظر آرہا ہے۔ بلاشبہ ہم نے پوری چیز حاصل نہیں کی ہے مگر کشمکش کے پہلے مرحلے میں ہم نے اتنا فائدہ ضرور حاصل کیا ہے کہ ریاست کو ایک قطعی لادینی ریاست بننے سے روک دیا، اور اسلام کی چند ایسی بنیادی باتیں منوا لیں جن پر آگے کام کیا جاسکتا ہے۔ ہم اس غلط فہمی میں نہیں ہیں کہ ہمارا مقصد حاصل ہو گیا ہے۔ ہم اس مقام پر ٹھہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بلکہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے اسے مزید مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں اور اب ہم پیش قدمی کے لیے اس سے بہتر پوزیشن میں ہیں جو اس قریبی مقصد کے حاصل نہ ہونے کی صورت میں ہماری ہوتی۔
طریق انتخاب کے بارے میں بھی آپ نے ہمارے نقطہ نظر کو اچھی طرح نہیں سمجھا ہے۔ میں نے اپنے پمفلٹ ’’مخلوط انتخاب کیوں اور کیوں نہیں‘‘ کے آخری حصہ میں جو کچھ عرض کیا ہے اسے پھر بغور ملاحظہ فرمائیں اور خود بھی غور کریں کہ اگر مخلوط انتخاب اپنے وطنی قومیت کے نظریے اور لادینی پس منظر کے ساتھ رائج ہو تو وہ ہمارے آخری مقصود کی راہ میں زیادہ رکاوٹ ثابت ہوگا؟ نیز یہ کہ جداگانہ انتخاب سے پیدا ہونے والی قباحتوں کو رفع کرنا زیادہ آسان ہے یا مخلوط انتخاب کی قباحتوں کو؟ ان امور پر غور کر کے آپ خود ایک رائے قائم کریں اور اس بات کو نہ بھولیں کہ ہمارا آخری مقصود کبھی ہماری نگاہ سے اوجھل نہیں ہوا ہے۔ ہمیں بڑھنا اس کی طرف ہے، مگر درمیانی مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے اور راہ کی رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ دفعۃً چھلانگ لگا کر پہنچ جانا ممکن نہیں ہے۔
سوال۲۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے میری معروضات پر توجہ فرمائی اور انہیں قابل التفات سمجھا۔ آپ کے حوصلہ افزا جواب کے بعد اس سلسلہ میں چند اور گزارشات آپ تک پہنچا دینا ضروری سمجھتا ہوں، اسے خدانخواستہ تحریری مباحثہ نہ تصور فرما لیا جائے، بلکہ یہ ایک ایسے شخص کے افکار پریشاں ہیں، جو سالہا سال سے مسلمانوں کی سیاست اور عالمی پیچیدگیوں کا طالب علمانہ مطالعہ کرتا چلا آرہا ہے، اور اس بات کو اپنا ایمان و یقین تصور کرتا ہے کہ اسلام ہی انسانیت کا دنیا و آخرت میں واحد ذریعہ نجات ہے۔
اگر انتخابات سے ہمارا آخری مقصود یہ ہی ہے کہ موجودہ نیم دینی دستور کو کامل اسلامی دستور میں تبدیل کرانے کی کوشش کی جائے اور دستور کے اسلامی تقاضوں کو بغیر کسی تحریف کے صحیح طور پر پورا کیا جاسکے، تو اس کے لیے پہلا اور زیادہ بہتر طریقہ یہی تھا کہ کتاب و سنت کا علم رکھنے والے، اہل تقویٰ اور اہل بصیرت، مسلمانوں پر مشتمل، لیجسلیچر کا قیام عمل میں لایا جائے اور براہ راست اس کے لیے جدوجہد کی جاتی رہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں اس براہ راست کوشش کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے، جب کہ ملک بھر میں مختلف و متضاد طبقے، دستور کے نام پر اسلام کی عجیب و جدید تعبیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن جماعت کے اہل الرائے حضرات کی اکثریت اگر اسے مناسب نہیں سمجھتی ہے تو پھر جداگانہ اور مخلوط طریق انتخاب کے درمیان پوری توجہ کے ساتھ تمیز کی جانی چاہیے کہ کون سا طریقہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زیادہ آسان اور اقرب الیٰ الصواب ہے۔
جداگانہ انتخاب کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی، نفسیاتی وابستگی ہے، جو گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے برابر چلی آرہی ہے۔ جداگانہ انتخاب، الیکشن میں بطور نمائندگی کے، ہندوؤں کی عددی اکثریت کے مقابلہ پر وجود میں آیا تھا، اور بدقسمتی سے یہ مسلمانانِ ہند کی سیاست کا واحد شاہکار بن کر رہ گیا۔ اب اگر اس ذریعہ کو اسلامی دستور کے مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان میں استعمال کیا گیا تو بوجوہ ذیل ان مقاصد کا حاصل کرنا نہایت مشکل ہو جائے گا۔
اولاً اس صورت میں اسلامی پروگرام رکھنے والے فریق کی بہ نسبت اسلامی نام اور غیر مسلموں کی مخالفت کے نعروں اور سنسنیوں سے ووٹروں کو اپیل کرنے والا فریق ہمیشہ پیش رہے گا جیسا کہ گزشتہ پچاس سال سے وہ پیش پیش رہتا چلا آرہا ہے۔ اس فریق نے پہلے بھی اسلام کا مقدس نام اپنی خواہشات کے لیے استعمال کیا اور اسلام کی غلط نمائندگی کی۔ آج بھی اس کی ذہنیت اور عملی زندگی بدستور سابق ہے، اور پہلے کی بہ نسبت کامیابی کے ذرائع آج اس کے پاس بہت زیادہ ہیں۔
ثانیاً مسلمان کثرت تعداد کے باوجود خود غرض سیاست دانوں کی دانش فریبیوں کے ہاتھوں غیر مسلموں کے مقابلہ میں خوف و احساس کمتری کی ہسٹریائی کیفیت میں باآسانی مبتلا رکھے جائیں گے۔
ثالثاً مسلمان رائے ہندوں کے سامنے اپنے حلقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان امیدواروں کو کامیاب بنا دینا ہی اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر رہ جایا کرے گا۔
رابعاً مسلم حلقوں میں ایک سے زیادہ مسلمان امیدواروں کے درمیان اسلام کے نام پر جو کشمکش برپا کی جاتی رہے گی، وہ بجائے خود اسلام اور مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
خامساً غیر مسلم حلقے زیادہ سے زیادہ متحد ہوتے رہیں گے اور آگے چل کر وہ ایک ایسا متحدہ بلاک بن سکتے ہیں جو غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار ہو سکتا ہے اور جن کی ہمدردی میں غیر ملکی طاقتیں معاملات میں ایسی مداخلتیں کر سکتی ہیں جن سے ملک میں اعصابی جنگ اور کشمکش جاری رہے۔
سادساً آئندہ خطرہ ہے کہ ملک کی اس فرقہ وارانہ سیاست میں اسلام کی حیثیت ثانوی نہ رہ جائے، اسلام کی عمومی دعوت کے امکانات کم سے کم نہ ہوتے جائیں اور ملک کے اندر باہر غیر مسلم حلقے، اسلام کے مستقل حریف نہ بنتے جائیں۔
سابعاٰ غیر اسلامی ملکوں میں اسلام کے قیام کے لیے کام کرنے والوں کے واسطے یہ ایک ایسی مثال ہوگی جس سے ان کی مشکلات میں بے اندازہ اضافہ ہو جائے گا اور وہ غیر مسلم اقوام و عوام کو انسانیت کی سطح پر اپیل کرنے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں رہیں گے۔
اور آخر میں یہ کہ ہمارے اس ملک میں اہل ثروت و اہل ریاست کو جو اثر حاصل ہے اور جس طرح وہ فسق و فجور کی امامت میں پیش پیش ہیں، جداگانہ انتخاب کے بعد ان کے ہاتھ اور مضبوط ہو جائیں گے، ان کے حلقے الیکشن کے لیے جس طرح آج ان کی بلاشرکت غیرے میراث بنے ہوئے ہیں، جداگانہ انتخاب سے وہ مستحکم تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اب یا تو ان کی ثروت و ریاست ختم ہو، یا ان کے مزاج اسلامی بنیں اور یہ دونوں چیزیں اللہ کی خاص مہربانی سے ہی ممکن ہیں، بندوں کے اختیار و تدبیر سے مشکل ہیں۔
اس کے برخلاف، مخلوط انتخاب کی صورت میں جسے بجائے مخلوط کے عمومی انتخابات کہنا زیادہ موزوں ہوگا، پارٹی پروگرام پر کامیابی کی بنیاد رہ جائے گی، اگرچہ اس وقت اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت کو پوری پوری تندہی اور جانفشانی سے کام لینا ہوگا لیکن وہ اسلام کو پارٹی پروگرام بنا کر، اول تو ملک کے تمام باشندوں کو اپیل کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی، دوسرے یہ کہ وہ اس پروگرام کو نظری طور پر بین الاقوامی تحریک کی پوزیشن میں لاسکے گی، اور اسلام کے لیے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں کام کرنے والوں کے درمیان نقطہ اتحاد کا کام دے سکے گی۔ تیسرے یہ کہ مقابلہ اشخاص سے اشخاص کا نہیں رہے گا بلکہ جماعتوں کے اصول اور پروگرام کا ایک دوسرے سے مقابلہ ہوگا۔ ہم اسلام کے اصول اور پروگرام کو لے کر پوری قوم اور پورے ملک کے پاس جائیں گے۔ اس طرح اصول اور پروگرام پر دوسرے خود غرض اور مفاد پرست گروہوں سے کھلا ہوا آزادانہ اور مساویانہ مقابلہ ممکن ہو سکے گا۔ اور چوتھے یہ کہ جب بھی اسلامی جماعت کامیاب ہوگی، دوسرے عناصر کے تعاون کی محتاج ہوئے بغیر نہایت آسانی سے ملک کی پوری ہیئت ترکیبی کو اسلامی قالب میں تبدیل کر سکے گی، اور ایک مثالی اسلامی ریاست کا نمونہ پیش کرنے کے قابل بن سکے گی۔ آپ کے پمفلٹ ’’مخلوط انتخاب کیوں اور کیوں نہیں‘‘ میں اس حیثیت سے مسئلہ انتخاب کا تجزیہ نہیں کیا گیا ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ آپ ان پہلوؤں پر بھی غور فرمائیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ مخلوط انتخاب کے موجودہ حامیوں کے ساتھ میں ہر گز متفق نہیں ہوں، اس لیے کہ ان کا مقصد اس سے ایک ایسی پاکستانی نیشن بنانا ہے جس میں نہ کوئی مسلمان مسلمان رہے اور نہ کوئی بندہ ہندو، جب کہ میرا مقصد اس سے پاکستان میں ایک ایسی نیشن بنانا ہے جو خالص مسلمان ہی مسلمان ہو۔ اگر سوء تدبیر سے مخلوط انتخاب کو اول مقصد کے لیے ذریعہ بنایا گیا تو یقینا میرا تعاون جداگانہ انتخاب کے ساتھ ہوگا۔ تاہم میری ہنوز دیانت دارانہ اور مخلصانہ رائے یہ ہی ہے کہ اسلام کو، پارٹی پروگرام بنا کر، مخلوط انتخابات کو ذریعہ نمائندگی بنایا جائے بشرطیکہ خالص اسلامی لیجسلیچر کا قیام فی الوقت ممکن نہ ہو۔ اس طرح اسلامی مقاصد بہتر طریقہ پر اور آسانی سے حاصل کیے جاسکیں گے اور جداگانہ انتخاب کے مقابلہ میں کم رکاوٹیں پیش آئیں گی۔
آپ نے اپنے مکتوب کے دوسرے پیراگراف کے آخری حصہ میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’ہمیں اپنے آخری مقصود کے راستے میں کچھ درمیانی مقاصد اور قریب الحصول مقاصد بھی سامنے رکھنے ہوتے ہیں تاکہ ان میں سے ایک ایک کو حاصل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے جائیں‘‘ دراصل یہ ایک سخت مغالطہ ہے جو بہت سی تحریکات کو، بالخصوص مسلمانوں کی بیشتر جماعتوں کو پیش آتا رہا اور وہ کسی قریب الحصول مقصد میں ایسے ڈوبے کہ:
ْدریں ورطہ کشی فروشد ہزار!
کہ پیدا نہ شد تختہ برکنار
کا مصداق بن کر رہ گئے۔ حالانکہ درمیانی چیزوں کو زیادہ سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل ہے تو محض ایک ذریعہ ہونے کی ہے۔ اگرچہ آپ کا یہ اہتمام قابل ستائش ہے کہ ’’آخری مقصود نگاہوں سے اوجھل نہ رہے‘‘ لیکن میرے نزدیک درمیانی چیزوں کو قریب الحصول مقصد کا درجہ دینا ہی خطرے سے خالی نہیں۔ ان کی حیثیت محض ذریعہ کی رہنی چاہیے مقصد کی حیثیت سے ان پر ہر گز زور نہ دینا چاہیے۔
آئیڈیلزم اور حکمتِ عملی کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا صحیح طریقہ جماعت کے مقصد اور طریق کار میں یکسانیت و ہمواریت کا برقرار رہنا ہے۔ نیز مقصد اور طریق کار کے درمیان ایسا ربط قائم رکھنا ہے جو ہر معاملہ پر راستہ کے ہر موڑ کو منزل کی طرف پھیر دینے والا ہو، موجودہ دور کے ذہنی انتشار اور پراگندگی افکار پر غالب آنے کے لیے سب سے بڑی دانائی اور حکمت عملی یہ ہی ہے کہ مقصد کی ہمہ گیری کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔
لادینی دستور کی موجودگی میں ہماری جنگ ایک کھلے دشمن کے ساتھ تھی۔ فرعون اور ابولہب کی ذہنیتوں سے مقابلہ درپیش تھا۔ آہن و سیف اور خارو آتش سے گزرنے والا وہ راستہ اگرچہ خوفناک ضرور تھا مگر فریب ناک نہیں تھا۔ لین ایک نیم دینی دستور کی موجودگی میں ہمارا سابقہ منافقانہ ذہنیتوں سے پڑ جاتا ہے جس طرح حضرت علیؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو پیش آیا تھا۔ پھر نیم مُلّا خطرہ ایمان کی مشہور کہاوت سے بھی آپ بے خبر نہیں ہوں گے۔ میرے نزدیک جہاں ریاست کو ایک قطعی لادینی ریاست بننے سے روک دینا ایک بڑی کامیابی ہے، وہاں ریاست کا نیم دینی ریاست بن کر رہ جانا بھی ایک بہت بڑے خطرے کا آغاز ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ہی بلکہ اسلام کے لیے بھی بہت سے داخلی فتنے پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اس صورت حال کا جلد سے جلد تدارک کیا جانا نہایت ضروری ہے ورنہ دستور کا نام اسلامی دستور ہونا برعکس نہند نام زنگی کافور کا مصداق ہو جائے گا اور دستور کا یہ اعلان کہ کوئی قانون، کتاب و سنت کے خلاف نہ بنایا جائے گا۔ ۱۸۵۷ء کے ملکہ وکٹوریہ کے مشہور اعلان کی طرح کا محض کاغذی محضر بن کر رہ جائے گا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’مذہبی معاملات میں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی‘‘۔
فی الحقیقت، جب تک خدا کی حاکمیت کو واضح طور پر نہ تسلیم کیا جائے کتاب و سنت کو مثبت طور پر قانون سازی کا ماخذ اور دستور پر بالادست نہ مان لیا جائے، کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ و اہلِ بصیرت ارکان پر مشتمل لیجسلیچر کا قیام عمل میں نہ آجائے اور کتاب و سنت کی تعبیر و توضیح کا حق اصول سلف کے مطابق، ماہرین علوم اسلامیہ و حاملین شریعت کے لیے خاص نہ کر دیا جائے، اس وقت تک ذرا سی غفلت سے موجودہ دستور کو غیر اسلامی مقاصد کے لیے بڑی آسانی اور آزادی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے اور پھر ان مردود مقاصد کو اسلامی مقاصد کی حیثیت سے عام کیا جاسکتا ہے۔
آخر میں جماعت کے متعلق بھی مجھے عرض کرنا ہے میرے قریبی حلقوں میں جماعت کے کارکن حضرات جن کے اخلاص، دیانت اور سرگرمی کا میں دل سے قدردان ہوں اور جن کے احترام سے میرا قلب ہر وقت معمور رہتا ہے وہ اپنے عام اجتماعات میں نہ تو دستور کے ان ناقص پہلوؤں پر عوام کو توجہ دلاتے ہیں اور نہ مسئلہ انتخابات کے سلسلہ میں خالص اسلامی مجلس شوریٰ کا نظریہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں کہ ہمارے ملک کا دستور کامل اسلامی دستور بن چکا ہے، صرف جداگانہ انتخابات کی ایک آخری اسلامی مہم باقی ہے۔ پھر عوام سے ربط بڑھانے کا طریقہ بھی تنقیدی اور منفی ڈھنگ کا ہوتا ہے جس سے خواہ مخواہ مقامی شخصی اور جزوی اختلافات کو ابھرنے کا موقع ملتا ہے۔ جماعتی عصبیت میں اتنے کلیت پسند بن جاتے ہیں کہ بعض سیاسی و مذہبی امور پر جزوی و فروعی اختلاف کو بھی جماعت سے ذاتی یا گروہی عناد کا درجہ دے دیتے ہیں اور اس ملک کی گزشتہ سیاسی و مذہبی تاریخ سے شاید پوری طرح واقف نہ ہونے کی بناء پر یا جماعتی غلو کے غیر شعوری جذبہ کی بناء پر موجودہ حالات کو گزشتہ معاملات سے اس طرح کڑی در کڑی ملاتے ہیں کہ پیش روؤں کے کاموں کی اکثر غلط ترجمانی ہوتی ہے اور اسلاف کی بصیرت اسلامی اور خلوص مشکوک نظر آنے لگتا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں جماعت کے بعض اہل قلم اور آپ سے بھی کم و بیش شکایت ہو سکتی ہے، لیکن ہمارے قریبی کارکن اور معزز ارکان جماعت تو اس بارے میں بجائے خود بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ اور اس وقت اور اس ماحول کے معیار پر گزشتہ معاملات کو قیاس کرنے کے عادی سے بن گئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وسیع النظری اور وسیع القلبی سے کام لیا جائے اور مقصد سے نیچے نہ آیا جائے بایں ہمہ موجودہ سوسائٹی میں مجھے یہ سب سے زیادہ عزیز اور قابل احترام ہیں اللہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے دین کی صحیح صحیح خدمت لینے کے قابل بنائے۔
جواب: افسوس ہے کہ آپ نے میرے پچھلے خط کے اس فقرے پر غور نہیں کیا کہ ہم اپنی تحریک خلاء میں نہیں چلا رہے ہیں بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں اور ہمیں محض اعلان و اظہار حق ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اقامت حق کے لیے بھی کوشش کرنی ہے جس کے لیے ہم کو اسی واقعات کی دنیا میں سے راستہ نکالنا ہوگا۔ یہ بات میں نے اپنے جواب کی ابتدا ہی میں اس لیے لکھ دی تھی کہ مجھے آپ کے خط کو پڑھ کر یہ محسوس ہو گیا تھا کہ آپ اپنے خیالات کی دنیا میں اس قدر گم ہیں کہ واقعات کی اس دنیا پر آپ کی نگاہ نہیں جاتی جس میں ہم اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ میرے اس اندیشے کی تصدیق آپ کے دوسرے خط سے ہوگئی اور معلوم ہوا کہ میرے توجہ دلانے پر بھی آپ اس پہلو کی طرف دیکھنے پر مائل نہیں ہو سکے ہیں۔
دوسری بات میں نے ابتدا ہی میں یہ عرض کی تھی کہ جسے واقعات کی دنیا میں صرف اعلان حق ہی نہیں بلکہ اقامت حق کا کام بھی کرنا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ نظریات اور حکمت عملی کے درمیان زیادہ سے زیادہ توازن برقرار رکھے۔ اس بات کو بھی آپ نے پوری طرح سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ جب تک یہ دوسری بات بھی اچھی طرح آپ کے ذہن نشین نہ ہو جائے آپ کے لیے ہماری تحریک کے طریق کار کو سمجھنا مشکل ہو گا۔ اس لیے آپ کے ارشادات پر کلام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ میں ان دونوں باتوں کو پھر کھول کر بیان کردوں۔
ہم جس ملک اور جس آبادی میں بھی ایک قائم شدہ نظام کو تبدیل کر کے دوسرا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے وہاں ایسا خلاء ہم کو کبھی نہ ملے گا کہ ہم بس اطمینان سے ’’براہ راست‘‘ اپنے مقصود کی طرف بڑھتے چلے جائیں۔ لامحالہ اس ملک کی کوئی تاریخ ہوگی۔ اس آبادی کی مجموعی طور پر اور اس کے مختلف عناصر کی انفرادی طور پر کچھ روایات ہوں گی۔ کوئی ذہنی اور اخلاقی اور نفسیاتی فضا بھی وہاں موجود ہوگی۔ ہماری طرح کچھ دوسرے دماغ اور دست و پا بھی وہاں پائے جاتے ہوں گے جو کسی اور طرح سوچنے والے اور کسی اور راستے کی طرف اس ملک اور اس آبادی کو لے چلنے کی سعی کرنے والے ہوں گے۔ ان مختلف عوامل میں سے کچھ ہمارے موافق ہوں گے و کچھ ناموافق اور مزاحم بھی ہوں گے۔ اور قائم شدہ نظام کا کسی کم یا زیادہ مدت سے وہاں قائم ہونا خود اس بات کی دلیل ہو گا کہ یہ عوامل ہماری موافقت میں کم اور اس کی موافقت میں زیادہ ہیں۔ علاوہ بریں یہ بات بالکل فطری اور عین متوقع ہے کہ ہمارے مقابلہ میں یہ نظام ضرور ان تمام عوامل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا جو اس کے لیے سازگار ہیں یا بن سکتے ہیں اور ایسے تمام عوامل کو ہمارے لیے ناموافق یا کم ازکم غیر مفید بنانے کی بھی سعی کرے گا جنہیں وہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمارے حق میں سازگار ہیں اور وہ تمام دوسری تحریکیں بھی جو ہمارے مقصد کی مخالف ہیں یا تو قائم شدہ نظام کی حمایت کریں گی، یا پھر موجود الوقت عوامل کو حتی الامکان ہمارے خلاف استعمال کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گی۔
ان حالات میں نہ تو اس امر کا کوئی امکان ہے کہ ہم کہیں اور سے پوری تیاری کر کے آئیں اور یکایک اس نظام کو بدل ڈالیں جو ملک کے ماضی اور حال میں اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے، نہ یہ ممکن ہے کہ اسی ماحول میں رہ کر کشمکش کیے بغیر کہیں الگ بیٹھے ہوئے اتنی تیاری کر لیں کہ میدان مقابلہ میں اترتے ہی سیدھے منزل مقصود پر پہنچ جائیں اور نہ اس بات ہی کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ ہم اس کشمکش میں سے گزرتے ہوئے کسی طرح ’’براہ راست‘‘ اپنے مقصود تک جا پہنچیں۔ ہمیں لامحالہ واقعات کی اس دنیا میں موافق عوامل سے مدد لیتے ہوئے اور مزاحم طاقتوں سے کشمکش کرتے ہوئے بتدریج اپنا راستہ نکالنا ہو گا۔ ہر قدم جس کے لیے گنجائش نکل آئے فوراً اور بروقت اٹھا دینا ہوگا۔ دوسرے قدم کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے پورا زور لگانا پڑے گا اور سمت مخالف کی دھکا پیل اگر ہمیں پیچھے دھکیلے تو اس بات کی کوشش کرنی ہوگی کہ پہلے قدم کی جگہ پاؤں تلے سے نہ نکل جائے۔ اس کشمکش کے دوران میں جتنی ضروری بات یہ ہے کہ ہمارا آخری اور اصلی مقصود ہماری نگاہوں سے اوجھل نہ ہو اتنی ہی ضروری یہ بات بھی ہے کہ ہم اس کی سمت میں بڑھنے کے لیے ہر درمیانی قدم کو مقصدی اہمیت دیں، جو قدم رکھا جاچکا ہے اسے زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں، آگے کے قدم کے لیے زیادہ سے زیادہ قوت فراہم کریں اور جونہی کہ اس کے لیے جگہ پیدا ہو اس پر فوراً قبضہ کر لیں۔ آخری مقصود پر نگاہ جمانا اگر اس لیے ضروری ہے کہ ہمارا کوئی قدم غلط سمت میں نہ اٹھے، تو درمیان کے ہر قدم کو اس کے وقت پر قریبی مطمح نظر (Immediate Objective) کی حیثیت دینا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر پیش قدمی کا امکان ہی نہیں رہتا۔ جسے صرف تمنائیں بیان کرنے پر اکتفا کرنا نہ ہو بلکہ منزلِ مقصود کی طرف واقعی چلنا بھی ہو اسے تو ہر قدم جمانے اور دوسرا قدم اٹھانے کے لیے تمام ممکن الحصول موافق طاقتوں سے اس طرح کام لینا اور تمام موجود مزاحمتوں کو ہٹانے کے لیے اس طرح لڑنا ہو گا کہ گویا اس وقت کرنے کا کام یہی ہے۔
اس معاملہ میں صرف نظریت کام نہیں دیتی بلکہ اس کے ساتھ عملی حکمت ناگزیر ہے۔ اس حکمت کو نظرانداز کر دینے والا نظری آدمی طرح طرح کی باتیں کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ یا تو قافلے میں شامل ہی نہیں ہوتا، یا پھر قافلے کو لے کر چلنے کی ذمہ داری اس پر نہیں ہوتی۔ مگر جسے چلنا ہی نہ ہو بلکہ چلانا بھی ہو وہ ہر بات کو محض اس کے خیالی حسن کی بنیاد پر قبول نہیں کر سکتا۔ اسے تو عملی نقطہ نظر سے تول کر دیکھنا ہوتا ہے کہ جن حالات میں وہ کام کر رہا ہے، جو قوت اس وقت اس کے پاس موجود ہے یا فراہم ہونی ممکن ہے اور جو جو مزاحمتیں راستے میں موجود ہیں ان سب کو دیکھتے ہوئے کون سی بات قابل قبول ہے اور کون سی نہیں، اور یہ کہ کس بات کو قبول کرنے کے نتائج کیا ہوں گے۔ نظری آدمی تو بے تکلف کسی مرحلے پر بھی کہہ سکتا ہے کہ ایک ایک قدم اٹھانے اور قدم قدم کی جگہ کے لیے کشمکش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ’’براہ راست‘‘ کیوں نہیں بڑھ جاتے۔ مگر کام کرنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ راستے کی مزاحم طاقتوں کے ہجوم میں سے آخر براہ راست کیسے بڑھ جاؤں؟ ان کے سر پر سے چھلانگ لگا کر جاؤں؟ زمین کے نیچے سے سرنگ لگا کر جاپہنچوں؟ یا کوئی تعویذ ایسا لاؤں کہ اسے دیکھتے ہی یہ سارا ہجوم چھٹ جائے اور میں اپنے قافلے کو لیے ہوئے سیدھا اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا جاؤں؟ نظری آدمی اس کشمکش کے دوران میں کسی جگہ بھی ٹھہر جانے یا پیچھے ہٹ جانے کا بڑے اطمینان سے مشورہ دے سکتا ہے۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ ٹھہر کر یا پیچھے ہٹ کر تیاری کرو اور پھر اس شان سے آؤ کہ بس ایک ہی ہلّے میں سابق نظام ختم اور نیا نظام پورا کا پورا قائم ہو جائے۔ مگر کام کرنے والے کو ایسے مشورے قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ مزاحم طاقتوں کی موجودگی میں کشمکش روک کر ٹھہر جانا ممکن بھی ہے یا نہیں؟ پیچھے ہٹوں تو بیک و حلہ منزل پر پہنچنا تو درکنار اس جگہ واپس آنے کا بھی کوئی امکان باقی رہ جاتا ہے جہاں سے پلٹنے کے لیے کہا جا رہا ہے؟ اور کیا میرے ٹھہرنے یا ہٹنے کی صورت میں مزاحم طاقتیں بھی ٹھہر یا ہٹ جائیں گی کہ وہ ماحول کو میرے لیے اور زیادہ ناسازگار بنانے سے رک جائیں اور میں اسے خوب سازگار بنا کر اور خود پوری طرح تیار ہو کر بڑے اطمینان سے ایک بھرپور حملہ کر سکوں؟ غرض نظری آدمی کے لیے ہر قابل تصور تجویز لے آنا ممکن ہے کیونکہ جن تخیلات کے عالم میں وہ رہتا ہے وہاں حالات اور واقعات موجود نہیں ہوتے صرف خیالات ہی خیالات ہوتے ہیں، مگر کام کرنے والا واقعات کی دنیا میں کام کرتا ہے اور اس پر کام چلانے کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس لیے وہ عملی مسائل کو کسی حال میں نظرانداز نہیں کرسکتا۔
ایک اور حیثیت سے بھی نظریت اور حکمتِ عملی میں ٹھیک ٹھیک توازن قائم رکھنا اس شخص کے لیے ضروری ہے جو واقعات کی دنیا میں عملاً اپنے نصب العین تک پہنچنا چاہتا ہو۔ آئیڈیلزم کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے نصب العین کی انتہائی منزل سے کم کسی چیز کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے، اور جن اصولوں کو وہ پیش کرتا ہے ان پر سختی کے ساتھ جما رہے۔ مگر واقعات کی دنیا میں یہ بات جوں کی توں کبھی نہیں چل سکتی۔ یہاں نصب العین تک پہنچنے کا انحصار ایک طرف ان ذرائع پر ہے جو کام کرنے والے کو بہم پہنچیں۔ دوسری طرف ان مواقع پر ہے جو اسے کام کرنے کے لیے حاصل ہوں اور تیسری طرف موافق اور ناموافق حالات کے اس گھٹتے بڑھتے تناسب پر ہے جس سے مختلف مراحل میں اسے سابقہ پیش آئے۔ یہ تینوں چیزیں مشکل ہی سے کسی کو بالکل سازگار مل سکتی ہیں۔ کم ازکم اہلِ حق کو تو یہ کبھی سازگار نہیں ملی ہیں اور نہ آج ملنے کے کوئی آثار ہیں۔ اس صورت حال میں جو شخص یہ چاہے کہ پہلا قدم آخری منزل ہی پر رکھوں گا، اور پھر دوران سعی میں کسی مصلحت و ضرورت کی خاطر اپنے اصولوں میں کسی استثناء اور کسی لچک کی گنجائش بھی نہ رکھوں گا وہ عملاً اس مقصد کے لیے کوئی کام نہیں کر سکتا۔ یہاں آئیڈیلزم کے ساتھ برابر کے تناسب سے حکمت عملی کا ملنا ضروری ہے۔ وہی یہ طے کرتی ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے راستے کی کن چیزوں کو آگے کی پیش قدمی کا ذریعہ بنانا چاہیے، کن کن مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کن کن مواقع کے ہٹانے کو مقصدی اہمیت دینی چاہیے اور اپنے اصولوں میں سے کن میں بے لچک ہونا اور کن میں اہم تر مصالح کی خاطر حسب ضرورت لچک کی گنجائش نکالنا چاہیے۔
اس معاملہ میں توازن کا بہترین نمونہ نبیﷺ کے طرزِ عمل میں ملتا ہے۔ آپ کی زندگی میں اس کی جو بے شمار مثالیں ملتی ہیں ان میں سے میں یہاں صرف ایک مثال پیش کروں گا۔ آپ جو نظامِ زندگی قائم کرنے کے لیے مبعوث ہوئے تھے وہ پوری نوع انسانی کے لیے تھا، صرف عرب کے لیے نہ تھا۔ مگر عرب میں اس کا قائم ہونا اور پوری طرح جم جانا دنیا میں اس کے قیام کا ایک ناگزیر ذریعہ تھا۔ کیونکہ آپ کو اپنے مشن کی کامیابی کے لیے جو مواقع عرب میں حاصل تھے وہ اور کہیں نہ تھے۔ اس لیے آپ نے اس کو مقصدی اہمیت دی، بیرونی دنیا میں دعوت پہنچانے کی صرف ابتدائی تدبیروں پر اکتفا فرمایا، اپنی پوری توجہ اور پوری طاقت صرف عرب میں اقامتِ دین پر صَرف فرمائی اور بین الاقوامیت کی خاطر کوئی ایسا کام نہ کیا جو عرب میں اس مقصدِ عظیم کی کامیابی کے لیے نقصان دہ ہو۔ اسلامی نظام کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تمام نسلی اور قبائلی امتیازات کو ختم کر کے اس برادری میں شامل ہونے والے سب لوگوں کو یکساں حقوق دیے جائیں اور تقویٰ کے سوا فرق مراتب کی کوئی بنیاد نہ رہنے دی جائے۔ اس چیز کو قرآن مجید میں بھی پیش کیا گیا اور حضور نے بھی بار بار اس کو نہ صرف زبانِ مبارک سے بیان فرمایا، بلکہ عملاً موالی اور غلام زادوں کو امارت کے مناصب دے کر واقعی مساوات قائم کرنے کی کوشش بھی فرمائی، لیکن جب پوری مملکت کی فرمانروائی کا مسئلہ سامنے آیا تو آپ نے ہدایت دی کہ الائمتہ من قریش ’’امام قریش میں سے ہوں‘‘ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اس خاص معاملہ میں یہ ہدایت، مساوات کے اس عام اصول کے خلاف پڑتی ہے جو کلیہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے ایسے اہم اصول میں اتنے بڑے استثناء کی گنجائش کیوں پیدا کی گئی؟ اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس وقت عرب کے حالات میں کسی غیر عرب تو درکنار کسی غیر قریشی کی خلافت بھی عملاً کامیاب نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے حضور نے خلافت کے معاملہ میں مساوات کے اس عام اصول پر عمل کرنے سے صحابہ کو روک دیا، کیونکہ اگر عرب ہی میں حضورؐ کے بعد اسلامی نظام درہم برہم ہو جاتا تو دنیا میں اقامتِ دین کا فریضہ کون انجام دیتا۱؎۔ یہ اس بات کی صریح مثال ہے کہ ایک اصول کو قائم کرنے پر ایسا اصرار جس سے اس اصول کی بہ نسبت بہت زیادہ اہم دینی مقاصد کو نقصان پہنچ جائے، حکمت عملی ہی نہیں حکمت دین کے بھی خلاف ہے۔ مگر یہ معاملہ اسلام کے سارے اصولوں کے بارے میں یکساں نہیں ہے۔ جن اصولوں پر دین کی اساس قائم ہے مثلاً توحید اور رسالت وغیرہ، ان میں عملی مصالح کے لحاظ سے لچک پیدا کرنے کی کوئی مثال حضورؐ کی سیرت میں نہیں ملتی، نہ اس کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔
ان امور کو آپ ذہن نشین کر لیں تو خود ہی اپنی بہت سی باتوں کا جواب پاسکتے ہیں۔ تاہم میں کوشش کروں گا کہ آپ کی باتوں پر سلسلہ وار مختصر گفتگو کر کے بھی اپنا موقف واضح کر دوں۔
۱۔ آپ کا خیال ہے کہ موجودہ نیم اسلامی دستور کو کامل اسلامی دستور میں تبدیل کرنے کے لیے پہلا اور زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اہلِ تقویٰ اور اہلِ بصیرت مسلمانوں پر مشتمل لیجسلیچر کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس غرض کے لیے آپ براہ راست جدوجہد کو ترجیح دیتے ہیں اور اس براہ راست جدوجہد کی ضرورت آپ کے نزدیک اس بناء پر اور بھی زیادہ ہے کہ ملک میں مختلف و متضاد طبقے دستور کے نام پر اسلام کی عجیب و غریب اور جدید تعبیریں کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تاہم آپ بدرجہ آخر یہ گوارا کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اس مقصد کے لیے انتخابات کو ذریعہ بنایا جائے۔
اس ارشاد میں جتنی باتیں آپ نے فرمائی ہیں ان میں سے کسی کے بھی عملی پہلو پر آپ نے غور نہیں فرمایا۔ واقعات کی دنیا میں ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مجالس قانون ساز کے قیام کی ابتدا انگریزوں کے دورِ حکومت میں ہوئی۔ اس نظام کو انہوں نے اپنے نظریات کے مطابق قومی جمہوری، لادینی ریاست کے اصولوں پر قائم کیا۔ انہی اصولوں پر سالہا سال تک اس کا مسلسل ارتقاء ہوتا رہا اور انہی اصولوں پر نہ صرف پوری ریاست کا نظام تعمیر ہوا، بلکہ نظامِ تعلیم نے ان کے مطابق ذہن تیار کیے۔ ہمارے معاشرے کے مختلف بااثر طبقات نے ان کو پوری طرح اپنا لیا، اور بحیثیت مجموعی سارے معاشرے نے ان کے ساتھ مطابقت پیدا کرلی۔ ان واقعات کی موجودگی میں جتنے کچھ ذرائع ہمارے (یعنی دینی نظام کے حامیوں کے) پاس تھے ان کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا کہ کم ازکم آئینی حیثیت سے اس عمارت کی اصل کافرانہ بنیاد (لادینیت) کو بدلوا کر اس کی جگہ وہ بنیاد رکھ دی گئی جس کی بناء پر آپ موجودہ دستور کو نیم دینی تسلیم کر رہے ہیں۔ پچھلے نو سال میں یہ کام جن مشکلوں سے ہوا ہے ان کو آپ بھول نہ جائیں، اور اب بھی لادینی رجحانات رکھنے والے بااثر طبقے اس کو ڈھا دینے کے لیے جس طرح زور لگا رہے ہیں اس کی طرف سے آنکھیں بند نہ کر لیں۔ کیا ان حالات میں یہ بات عملاً ممکن تھی کہ ٹھیٹھ اسلامی تصور کے مطابق ایک لیجسلیچر قائم ہو سکتی؟ اور کیا ہماری طرف سے یہ عقلمندی ہوتی کہ جو کم سے کم قابل قبول چیز اس وقت حاصل ہو رہی ہے اسے لے کر آئندہ کی پیش قدمی کا ذریعہ بنانے کے بجائے ہم پوری مطلوب چیز پر اصرار کرتے اور نہ ملتی تو جو کچھ مل رہا تھا اسے بھی رد کر دیتے؟
اب اس نیم اسلامی دستور کو کامل اسلامی دستور میں تبدیل کرانے کا مسئلہ ہمارے سامنے درپیش ہے تاکہ آپ کے بقول ’’دستور کے اسلامی تقاضوں کو بغیر کسی تحریف کے صحیح طور پر پورا کیا جاسکے‘‘۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ اس کے لیے ایک ایسی لیجسلیچر کی ضرورت ہے جو کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اہلِ تقویٰ و اہلِ بصیرت مسلمانوں پر مشتمل ہو۔ مگر اس کے لیے آپ انتخابات کے بجائے براہِ راست جدوجہد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ذرا اس کا عملی پہلو بھی دیکھیے۔ اس طرح کی لیجسلیچر کے لیے موزوں آدمی نامزد کرنے کا کام تو ظاہر ہے کہ کسی کو نہیں سونپا جاسکتا۔ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ان افراد کے انتخاب کا حق صرف مدارس دینیہ اور مذہبی جماعتوں اور دیندار لوگوں تک محدود رکھا جائے۔ اور اگر ایسا کیا بھی جائے تو ان کے ووٹوں سے بحالت موجودہ جیسے لوگ منتخب ہو کر آئیں گے ان کے ہاتھوں شاید ہمیشہ کے لیے اسلامی ریاست کے تصور ہی کی مٹی پلید ہو جائے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ عوام کے حق رائے دہندگی کے سوا انتخاب کی اور کوئی صورت نہ تو ممکن ہے اور نہ مقابلتاً زیادہ مناسب۔ اس بات کو آپ سمجھ لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں خود بخود آجائے گی کہ اب اس نیم دینی دستور کے کامل اسلامی دستور میں تبدیل ہونے اور اس کے اسلامی تقاضوں کو بِلا تحریف پورا کرنے کا سارا انحصار اس پر ہے کہ ملک کی عام آبادی کو ذہنی اور اخلاقی حیثیت سے اس قابل بنانے کی کوشش کی جائے کہ وہ کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اہلِ تقویٰ و اہلِ بصیرت لوگوں کے طالب بھی ہوں اور ان کی تلاش بھی کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بتدریج ایک طویل ہمہ گیر اور جاں گسل محنت سے ہوگا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ کام خلاء میں نہ ہوگا بلکہ ایسی حالت میں ہوگا کہ مزاحم طاقتیں بہت بڑے پیمانے پر برعکس نوعیت کے انتخاب کے لیے تیار کرتی رہیں گی اور ساتھ ساتھ اپنی اس تیاری کی فصل ہر انتخاب میں کاٹتی بھی رہیں گی جس سے ان کی قوت مزاحمت یا تو بڑھے گی یا کم ازکم برقرار رہے گی۔ اس حالت میں انتخابات کو نظرانداز کر کے صرف براہ راست جدوجہد پر اکتفا کرنے کا آخر کیا حاصل آپ کی سمجھ میں آتا ہے؟ براہِ راست جدوجہد، کو اگر اس معنی میں لیا جائے کہ آپ خارجی دباؤ ڈال کر مطلوبہ نوعیت کی لیجسلیچر کو ازروئے دستور لازم کرانا چاہتے ہیں۔ یا اس معنی میں کہ آپ ملک میں وہ عام ذہنی و اخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں جس سے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ و اہل بصیرت لوگ لیجسلیچر پر غالب یا پوری طرح قابض ہو جائیں، دونوں صورت میں یہ نتیجہ عملاً جب بھی رونما ہو گا محض باہر سے براہ راست نہ ہوگا، بلکہ انتخابی نظام کے توسط ہی سے ہوگا، خواہ اس واسطہ کو آپ آج استعمال کریں یا دس بیس یا پچاس سال کے بعد۔ پھر جب صورت واقعہ یہ ہے تو یہ براہِ راست جدوجہد انتخابات کو نظرانداز کرنے کے بجائے ان کے ساتھ ساتھ کیوں نہ ہو؟ کیوں نہ ایسا ہو کہ عام ذہنی و اخلاقی انقلاب کے لیے براہِ راست جدوجہد بھی پوری طاقت کے ساتھ کی جائے، اور اس میں جتنی جتنی کامیابی نصیب ہو اسے انتخابات پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہونے کے لیے استعمال بھی کیا جاتا رہے۔ اس محاذ کو مزاحم طاقتوں کے لیے بالکل کھلا چھوڑ دینے میں آپ کیا فائدہ دیکھتے ہیں اور کیا آپ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جتنی مدت بھی آپ اسے ان کے لیے خالی چھوڑنے کے بعد اس کی طرف رجوع کریں گے (اور رجوع بہرحال آپ کو اپنے مقصد کے لیے کبھی نہ کبھی کرنا پڑے گا) قدم رکھنے کی جگہ کو تنگ سے تنگ تر ہی پائیں گے۔
۲۔ مخلوط انتخاب کے حق میں جو بحث آپ نے کی ہے اس سے پھر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ واقعی صورت حال کو نظرانداز کر کے ایک ایسا خلاء فرض کر رہے ہیں جس میں آپ کی خیالی تجویزیں آپ کے حسب منشاء نافذ ہو سکتی ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہاں مجرد ایک انسانی آبادی رہتی ہے جس کا نہ کوئی ماضی ہے نہ حال۔ اس سادہ و بے رنگ مجموعے کے سامنے بس ایک اسلامی پروگرام رکھ دینا ہے۔ حالانکہ یہاں ایک ایسی آبادی رہتی ہے جس پر ایک طویل مدت سے جمہوریت، لادینیت اور وطنی قومیت کے تصورات پرمبنی ایک نظام عملاً مسلط رہا ہے۔ اس نظام کی جڑیں نہ صرف نظام حکومت میں، بلکہ نظام تعلیم اور نظامِ تمدن میں بھی دور دور تک پھیلی ہوئی اور گہری جمی ہوئی ہیں اور اس نظام کے تینوں بنیادی تصورات ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم کی طرح جڑے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دوسرا امر واقعہ جس سے ہم دو چار ہیں یہ ہے کہ اس آبادی میں صرف انسان نہیں ہیں بلکہ مسلمان اور غیر مسلم دو بڑے عنصر بستے ہیں اور غیر مسلم عنصر کا بڑا حصہ ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ مسلمانوں میں سے جس طبقے یا جن طبقات کے ہاتھ میں عملاً اس وقت زمامِ کار ہے وہ ذہنی طور پر اس دینی نظام کا مخالف ہے جس کی طرف ہم ملک کو کھینچ رہے ہیں اور اس لادینیت کا حامی ہے جو ایک مدت دراز سے مسلط چلی آرہی تھی۔ غیر مسلموں میں جس ہندو عنصر کی غالب اکثریت ہے اس کو وطنی قومیت کے تصور سے نہ صرف جذباتی وابستگی ہے بلکہ اس کی ساری تمنائیں اور اس کے سارے مفاد اس امر سے وابستہ ہیں کہ یہاں اسی تصور قومیت پرلادینی جمہوری نظام قائم ہو۔ ان حالات میں مخلوط انتخاب اس سادہ شکل میں نہ آئے گا جس میں آپ اسے اسلامی پروگرام پیش کرنے کے لیے موزوں سمجھتے ہیں، بلکہ اپنے اس پورے تاریخی اور موجودہ پس منظر کے ساتھ آئے گا، اور ان تمام عناصر کا آلہ کار بن کر آئے گا جو وطنی قومیت اور لادینیت کے حامی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ مشرقی پاکستان کے حالات پر جس کی نگاہ ہو وہ کبھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو سکتا کہ وہاں مخلوط انتخاب لادینی اور بنگلہ قوم پرستی کی بہ نسبت اسلامی پروگرام کے لیے زیادہ سازگار ہو سکے گا۔ دونوں کی پشت پر جو قوتیں اور جو موافق اسباب و وسائل وہاں موجود ہیں ان کا موازنہ کرنے سے یہ خوش فہمی باآسانی دور ہو سکتی ہے۔ جداگانہ انتخاب کے جتنے نقصانات اور مخلوط انتخاب کے جتنے فوائد بھی آپ گنائیں ان کو جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جس واقعی صورتحال سے ہم کو اس وقت سابقہ درپیش ہے اس کو نظرانداز کر کے ان کے درمیان موازنہ کرنا اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کر لینا حکمت عملی کے لحاظ سے کہاں تک درست ہے۔
اس بحث میں آپ اس بات کو بھی بھول گئے ہیں کہ اسلامی پروگرام پیش کرنے کا ہر جگہ ایک ہی لگا بندھا طریقہ نہیں ہے بلکہ حال اور مقام کے لحاظ سے اس کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ ایک جگہ وہ ہوتی ہے جہاں سب غیر مومن ہوتے ہیں۔ دوسری جگہ وہ ہوتی ہے جہاں اگرچہ مومن موجود ہوتے ہیں مگر غلبہ کفار کا ہوتا ہے اور کفر ہی کا نظام مسلط رہتا ہے۔ تیسری جگہ وہ ہوتی ہے جہاں اسلام کا اقرار کرنے والوں کا غلبہ ہوتا ہے مگر وہ غافل اور گمراہ ہو کر سراسر کافرانہ نظام پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک اور جگہ ایسی ہوتی ہے جہاں تسلط تو کافرانہ نظام کا ہی ہوتا ہے مگر اقرار اسلام کرنے والوں کی اکثریت اسلامی نظام کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اور ان سب سے مختلف پوزیشن اس جگہ کی ہوتی ہے جہاں اسلام کا اقرار کرنے والے نہ صرف غالب ہوتے ہیں بلکہ اسلامی نظام کی نیو بھی رکھی جاچکی ہوتی ہے اور پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ اب اس ادھورے کام کی تکمیل کرنی ہے۔ پاکستان میں ہم پہلی چار حالتوں سے نہیں بلکہ اس آخری حالت سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں ہم پہلی چار حالتوں سے نہیں بلکہ اس آخری حالت سے دوچار ہیں۔ یہاں آپ کو سب سے پہلے ان لوگوں کو پکارنا ہے جو اسلام کا اقرار کرتے ہیں، اس غرض کے لیے پکارنا ہے کہ وہ اس ادھوری تعمیر کی تکمیل کے لیے تیار ہوں، اور وہ پروگرام پیش کرنا ہے جو اس مرحلے کے لیے درکار ہے۔ اس موقع پر اگر طریق انتخاب مخلوط ہوگا تو آپ کو بہت پیچھے ہٹ کر اس جگہ سے دعوت کا آغاز کرنا ہوگا جو مسلم اور غیر مسلم سب کو یکساں اپیل کر سکے اور رکھی ہوئی نیو کو نظرانداز کر کے بجائے خود نیو رکھنے کی بات شروع کرنی پڑے گی، جس پر ہر وہ شخص آپ کی عقلمندی پر ہنس دے گا جو واقعی صورت حال کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے بلکہ پروگرام اس ادھورے کام کی تکمیل ہی کے لیے پیش کریں گے تو مجھے بتایئے کس عقل کی رو سے آپ غیر مسلم آبادی کے پاس یہ دعوت لے کر جائیں گے کہ نیم دینی دستور کو کامل اسلامی دستور میں تبدیل کرنے اور دستور اسلامی کے تقاضوں کو بِلا تحریف پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اہلِ تقویٰ و اہلِ بصیرت درکار ہیں، آؤ ہمارے ساتھ تم بھی مل کر ان کا انتخاب کرو اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جو اس رکھی ہوئی نیو کو ڈھا کر وطنی قومیت کی تصویر پر لادینی نظام تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
پھر یہاں سوال صرف عقل و حکمت ہی کا نہیں، اسلام کے اس آئین کا بھی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ یہ آئین اسلام کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کو بہرحال ایک حیثیت میں نہیں رکھتا۔ ماننے والے خواہ ایمان اور عمل کے لحاظ سے کتنے ہی مختلف مراتب میں ہوں، خواہ ان میں سے کوئی صدیقیت کا مرتبہ رکھتا ہو اور کوئی اسلام کی بالکل ابتدائی سرحد پر کھڑا ہو، بہرحال آئینی پوزیشن میں وہ سب برابر کے شریک ہیں اور نہ ماننے والوں کی آئینی پوزیشن ان سے مختلف ہے۔ اسلامی نظام جب بھی قائم ہو گا اسلام کے آئین کی رو سے اس کی عمارت مسلم معاشرے کی بنیاد ہی پر اٹھائی جائے گی اس کے مدار کار وہی لوگ ہوں گے جو اس کے حق ہونے کا اقرار کرتے ہیں نہ کہ وہ جو اس کا اقرار نہیں کرتے۔ اور اس کے اصحاب امر کا انتخاب اور ان کا عزل و نصب ماننے والوں ہی کے ہاتھ میں ہوگا نہ کہ نہ ماننے والوں کے ہاتھ میں۔ یہ امتیاز اسلام خود قائم کرتا ہے۔ اس کا پورا تقاضا تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست کی مجلس شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہو۔ لیکن اگر وقت اور حالات کی رعایت سے اس میں غیر مسلموں کی شرکت بھی قبول کر لی جائے تو کم از کم اس کے مسلم ارکان کو مسلمانوں کی رائے سے منتخب ہونا چاہیے، اس میں غیر مسلموں کی رائے کا دخل ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اس سے تعصب پیدا ہوتا ہے تو ہو دعوت اسلامی میں رکاوٹیں پڑتی ہیں تو پڑا کریں۔ ہم اسلام کے موجد تو نہیں ہیں کہ اپنی مرضی سے جیسا چاہیں پروگرام بنائیں اور دعوت اسلامی کا مفاد جس طریقے میں ہم کو نظر آئے اس کو اختیار کرلیں۔ خود اسلام ہی جب اپنے نظام میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز کرتا ہے تو ہم اسلام سے بڑھ کر اس کے مفاد کو جاننے والے کون ہیں کہ اس امتیاز کو نظرانداز کر کے ایک نرالے اسلامی نظام کی تعمیر کا پروگرام لے کر اٹھیں۔
۳۔ آپ نے موجودہ نیم اسلامی دستور کے جتنے خطرات بتائے ہیں وہ سب صحیح ہیں۔ اس میں قریب کے جتنے پہلو آپ نے گنائے ہیں ان سے بہت زیادہ کے ہم قائل ہیں۔ اس کو پورے اسلامی دستور سے بدلنے کی جدوجہد پر جتنا بھی زور آپ دیں بالکل حق بجانب ہے۔ مگر جب ان چیزوں کے بیان میں آپ اتنا مبالغہ کرتے ہیں کہ اس نیم دینی دستور کی بہ نسبت لادینی دستور بن جانا قابل ترجیح ٹھہرتا ہے تو آپ سے اتفاق کرنا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کفار کی ریاست کا کفر پر قائم ہونا اور چیز ہے اور مسلمانوں کی قومی ریاست کا کفر پر قائم ہو جانا بالکل ایک دوسری ہی چیز۔ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اگر شروع ہی میں پاکستان کی اس نوزائیدہ ریاست کو اس راستے پر جانے سے روکنے کی کوشش شروع نہ کر دی جاتی اور مسلمانوں کے قومی جذبات کو اسلامی ریاست کے مطالبے کی طرف نہ موڑ دیا جاتا تو یہاں تھوڑی ہی مدت کے اندر اسلامی نظام کی جدوجہد کے راستے میں موجودہ حالت کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ سخت مشکلات پیدا ہو جاتیں۔ یہ کوئی عقلمندی نہیں ہے کہ آدمی محض کوہ کنی کے ذوق میں اپنے آگے مشکلات کے پہاڑے قائم ہونے دے، پھر ان کو توڑنے کی فکر کرے۔ سب سے بڑی سہولت جو اس نیم دینی دستور کی ساری پرفریبیوں اور خطرناکیوں کے باوجود ہمارے لیے پیدا ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ اب آئینی و جمہوری طریقوں سے مطلوبہ تبدیلی لانے کا راستہ کھل گیا ہے۔ اب ہم صحیح توازن کے ساتھ یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ ایک طرف باشندگان ملک کے افکار و تصورات اور اخلاقی قدروں کو بدلتے چلے جائیں اور دوسری طرف جتنی جتنی یہ تبدیلی ہوتی جائے اسی تناسب کے ساتھ ہم انتخابات پر اثرانداز ہو کر وہ طاقت پیدا کرتے جائیں جس سے ملک کے نظامِ زندگی کو عملاً اسلامی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے ریاست کے ذرائع استعمال کیے جاسکیں۔ یہاں تک کہ اس تدریجی نشوونما سے ایک وقت وہ آجائے جب معاشرہ اور ریاست دونوں ٹھیک اسلام کے مطابق ہو جائیں۔ خالص لادینی دستور بن جانے کی صورت میں یہ راستہ ہمارے لیے بالکل بند رہتا۔ ہمیں اس مقصد کے لیے دوسرے بدرجہا زیادہ کٹھن راستے ڈھونڈنے پڑتے اور پھر بھی آخر وقت تک یہ سوال ہمارے لیے سخت پریشان کن رہتا کہ وہ آخری فعل (Final Act) کیا ہو جس سے ریاست کی کافرانہ نوعیت عملاً اسلامی نوعیت میں تبدیل ہو جائے۔
علاوہ بریں یہ بات کہ ہم نے پچھلے آٹھ نو سال کی جدوجہد میں صرف اتنا ہی کام کیا ہے کہ ریاست کو ایک قطعی لادینی ریاست بن جانے سے روک دیا اور ایک نیم دینی دستور بنوا لیا، ایک بہت بڑی غلط فہمی اور اصل حقیقت کا بڑا اندازہ ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہماری دستوری جدوجہد محض دستور بنوا لینے کی جدوجہد تھی ہی نہیں۔ وہ دراصل یہاں دو رجحانات کی کشمکش تھی۔ ایک لادینی رجحان پوری طرح ملک پر قابض تھا۔ اس کی پشت پر صرف حکومت ہی کے تمام ذرائع نہ تھے بلکہ پوری دنیا کے غالب نظام کا فکری سرمایہ اور ہماری اپنی قوم کے سب سے زیادہ طاقتور اور ذی اثر طبقوں کا ذہنی اور عملی تعاون بھی تھا اور اسی رجحان کو یہ فیصلہ کرنے کے آئینی اختیارات بھی کلیتہً حاصل تھے کہ اس نوزائیدہ مملکت کا آئندہ نظام کن تصورات اور کن اصولوں پر قائم ہو۔ کیونکہ دستور ساز اسمبلی ایک فردِ واحد کے سوا پوری کی پوری ان لوگوں پر مشتمل تھی جو یا تو بالکل لادینی رجحانات رکھتے تھے یا اسلامی رجحان کے معاملہ میں کم از کم بے پروا تھے۔ دوسری طرف اسلامی رجحان کی پشت پر اسلام کے ساتھ مسلمان عوام کی جذباتی وابستگی کے سوا کوئی دنیوی طاقت نہ تھی اور اس جذباتی وابستگی کا حال یہ تھا کہ اسے مذہب کے نام پر کوئی نمائشی کھلونا دے کر بہلایا جا سکتا تھا، بلکہ پیٹ اور روٹی کے نام پر اس کا رُخ اشتراکیت تک کی طرف موڑ دینا ممکن تھا۔ اسلامی حکومت کی جو مبہم سی خواہش لوگوں میں پائی جاتی تھی اس کا کوئی واضح تصور ذہنوں میں موجود نہ تھا، حتیٰ کہ اچھے خاصے اہلِ علم اصحاب کے ذہن کی رسائی بھی شیخ الاسلامی اور قضاء شرعی سے آگے کسی چیز تک نہ جاتی تھی۔ اس مقام سے جدوجہد کی ابتدا ہو کر موجودہ نیم دینی دستور بننے تک جو نوبت پہنچی تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام بحیثیت مجموعی دینی رجحان کی طاقت بڑھنے اور لادینی رجحان کا زور گھٹنے کے بغیر ہی ہو گیا یا ہو سکتا تھا؟ یہ تو ایک صریح پیمانہ ہے اس امر کا کہ آٹھ نو سال کی مدت میں دونوں رجحانات کی طاقتوں کا تناسب کس حد تک بدلا ہے۔ آخر یہ نتیجہ محض ایک مطالبہ دستوری ہی سے تو رونما نہیں ہو گیا ہے جو کچھ آج آپ کے سامنے ہے وہ اس چیز کا نتیجہ ہے کہ عوام کے جذبات کو جو کسی رخ پر بھی موڑے جاسکتے تھے، قطعیت کے ساتھ اسلامی رجحان کی طرف موڑ دیا گیا۔ اسلامی نظام اور اسلامی ریاست کا ایک صاف اور واضح تصور ان کے سامنے لایا گیا۔ ان کے اندر اس کی اتنی پہچان پیدا کی گئی کہ کسی نمائشی لیبل سے دھوکا نہ کھا سکیں۔ ان میں اس کی پیاس نہیں تو کم ازکم اتنی طلب پیدا کر دی گئی کہ اس کے سوا کسی چیز پر راضی نہ ہو سکیں۔ ان کی رائے عام کو ہموار کر کے اسلامی نظام کی پشت اتنی مضبوط کر دی گئی کہ ملک کو کسی اور طرف لے جانا مشکل ہو گیا اور اب جہاں تک قدم بڑھ چکا ہے اس سے پیچھے ہٹنا بھی آساں نہ رہا۔ پھر ذہین طبقے کو بھی اسلامی نظام زندگی، اسلامی قانون اور اسلامی دستور کے بارے میں مطمئن کرنے اور ان کی ذہنی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے اچھا خاصا کام کیا گیا ہے جس کی بدولت آج اس طبقے کا جتنا حصہ لادینی نظام کا موید ہے اس سے زیادہ حصہ اسلامی نظام کی طرف مائل ہے۔ اس پر مزید یہ کہ اسی مدت میں اسلام کے لیے عملی کام کرنے والوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کی تعداد میں بھی معتدبہ اضافہ ہوا جس کو اس جدوجہد کے آغاز کی حالت کے مقابلے میں دیکھا جائے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج اس رجحان کی خدمت کے لیے پہلے سے بہت زیادہ ہاتھ اور دماغ اور وسائل فراہم ہو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ نیم دینی دستور بنوا کر ختم نہیں ہو گیا ہے۔ یہی ہمارے آگے کے کام کا سرمایہ ہے۔ خدا کے فضل کے بعد اگر کسی چیز کے بَل بوتے پر ہم آگے کی تعمیر و اصلاح کے لیے کچھ سوچ سکتے ہیں تو وہ یہی پچھلے کام کا فراہم کیا ہوا سرمایہ ہے۔ اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے میں مبالغہ جتنا غلط ہے اتنا ہی غلط اس کا کم اندازہ کرنا بھی ہے۔ حقیقت سے زیادہ اندازہ کرنے کا نتیجہ اگر یہ ہو گا کہ ہم وہ کام کرنے کے لیے چل پڑیں گے جس کی طاقت ہمارے پاس نہیں ہے تو حقیقت سے کم اندازہ کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو کچھ ہم اس وقت کر سکتے ہیں اس کے لیے اقدام کرنے سے رہ جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ اس کے مواقع پھر نہ ملیں یا آج کی بہ نسبت بہت کم رہ جائیں۔
۴۔ جماعت اسلامی کے جن لوگوں نے اپنی باتوں سے یا اپنے طرزِ عمل سے آپ کو اس شکایت کا موقع دیا ہے جو آپ نے اپنے عنایت نامہ کے آخری حصہ میں بیان کی ہے ان کے حال پر مجھے افسوس ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہو کہ وہ کون لوگ ہیں تو ہم تحقیق کریں گے اور ان کی اصلاح کے لیے کوشش میں دریغ نہ کریں گے۔ مگر جماعت نے بحیثیت مجموعی نہ تو موجودہ دستور کے ناقص پہلو بیان کرنے اور کامل اسلامی دستور کا تصور دلانے میں کوتاہی کی ہے اور نہ کبھی عوام کو اس غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے کہ اسلامی دستور تو پورا کا پورا بن چکا ہے، اب صرف طریق انتخاب کی آخری مہم باقی ہے۔ دوسری جن کوتاہیوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے انہیں دور کرنے کی انشاء اللہ ضرور کوشش کی جائے گی۔ بہرحال انسانی کام بالکل معیار کمال پر پہنچے ہوئے تو نہیں ہو سکتے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں گا اگر آپ جماعت کی کوتاہیوں سے بھی مجھے خبردار کرتے رہیں اور میری اپنی کوتاہیوں سے بھی۔ خصوصیت کے ساتھ مجھے یہ ضرور بتایئے کہ میں نے کہاں پیش روؤں کے کاموں کی غلط ترجمانی کی ہے یا اسلاف کی اسلامی بصیرت اور خلوص کو مشکوک بنایا ہے۔ میں اپنی ہر بات کی اصلاح کے لیے تیار ہوں جس کے غلط ہونے پر مجھے مطمئن کر دیا جائے۔ آپ یقین کریں کہ ایسا کوئی کام مجھ سے ہوا بھی ہے تو دانستہ نہیں ہوا ہے۔
۱؎ اس پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو رسائل و مسائل حصہ اول صفحہ ۷۶۔ ۸۳