ایک مصالحانہ تجویز
سوال: پاکستان دستور سازی کے نازک مرحلہ سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کا ایک خاص طبقہ دستور اسلامی سے گلوخلاصی حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ ایسے حالات میں جمات اسلامی اور علمائے کرام کی باہمی چپقلش افسوسناک ہے۔ جماعت اسلامی جس کے بنیادی مقاصد میں دستور اسلامی کا عنوان ابھرا ہوا رکھا گیا ہے، بھی اس اختلاف کے میدان میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کر کے خم ٹھونک کر ڈٹ گئی ہے۔ کیا اس معاملہ کو اس طرح نہیں سلجھایا جاسکتا کہ چند نامور علماء کو (اس مقام پر مکتوب نگار نے پانچ بزرگوں کے نام دیے ہیں، ہم نے مصلحتاً ناموں کی اس فہرست کو حذف کر کے چند نامور علماء کے الفاظ لکھ دیے ہیں) ثالث تسلیم کرتے ہوئے جماعت اسلامی فریق ثانی کو دعوت دے کہ وہ جماعت اسلامی کی تمام قابل اعتراض عبارتوں کو ان حضرات کی خدمت میں پیش کر دے ان علماء کرام کی غیر جانبداری، علم و تقویٰ اور پرہیز گاری شک و شبہ سے بالا ہے (کمال یہ ہے کہ ان پانچ غیر جانبدار حضرات میں سے ایک گزشتہ انتخابات پنجاب میں جماعت اسلامی کی مخالفت میں سرگرم رہ چکے ہیں اور وہ بزرگ ان دنوں ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں) اگر کوئی عبارت قابل اعتراض نہ ہو تو مولانا مودودی کی عزت میں یقینا اضافہ ہوگا۔ اور اگر علمائے کرام ان عبارتوں کو قابل اعتراض قرار دیں تو مولانا مودودی صاحب ان سے دست برداری کا اعلان فرما دیں۔ یہ تمام مراحل اس صورت میں طے ہو سکتے ہیں کہ اخلاص اور آخرت مطلوب ہو۔
نوٹ: اس تجویز کی نقول اخبار تسنیم، نوائے وقت اور نوائے پاکستان کو ارسال کر دی گئی ہیں۔
جواب: آپ کا رجسٹری شدہ نامہ گرامی ملا جس میں آپ نے مجھے مخاطب کرکے ایک مصالحانہ تجویز پیش فرمائی ہے۔ پہلی بات تو میری سمجھ میں یہ نہیں آئی کہ آپ نے اس مصالحانہ تجویز کا مخاطب مجھے کیسے فرمایا۔ کیا آپ کو یہ نظر نہیں آتا کہ ابھی میں جیل ہی میں تھا کہ میرے خلاف بہتان و افترا کی ایک مہم شروع کر دی گئی اور اس کے بعد میرے باہر آتے ہی الزامات کا ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا؟ پھر کیا آپ کو یہ خبر نہیں کہ جن حضرات نے مجھ پر یہ حملے کیے ان پر نہ پہلے میں نے کبھی کوئی حملہ کیا تھا اور نہ بعد ہی میں ان کی کسی زیادتی کا کوئی جواب دیا؟ اب آخر یہ کس جذبہ انصاف نے آپ کو آمادہ کیا کہ مصالحت کی تجویز اس شخص کے سامنے لے جائیں جس نے کسی سے کوئی لڑائی نہ کی تھی۔
دوسری بات یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ نے کس بناء پر فرمایاہے کہ ’’جماعت اسلامی بھی اس اختلاف کے میدان میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کر کے خم ٹھونک کر ڈٹ گئی ہے‘‘۔ کیا یہ بات واقعی صداقت کے ساتھ کوئی شخص کہہ سکتا ہے؟ ایک طرف ان حملوں کو دیکھیے جو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کیے گئے۔ دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میں خود اس معاملے میں برابر خاموش رہا ہوں۔ جماعت کا اخبار تسنیم بھی قریب قریب ہی خاموش رہا ہے۔ جماعت کے ارکان میں سے بعض لوگ جن کے اپنے اخبار اور رسالے ہیں، صبر نہ کر سکے اور انہوں نے کچھ چیزیں لکھیں۔ مگر اول تو ان کی لکھی ہوئی چیزوں کو ان تحریروں سے کوئی نسبت ہی نہیں جو میرے اور جماعت کے خلاف لکھی گئی تھیں، پھر ان میں سے بھی بعض میرے منع کرنے پر رک گئے اور بعض کو میں برابر روکنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اسے اگر آپ خم ٹھونک کر ڈٹ جانے سے تعبیر فرماتے ہیں تو میں اس کے سوا اور کیا کہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو انصاف کی توفیق دے۔
اب میں مختصراً آپ کی اس تجویز کے متعلق کچھ عرض کرتا ہوں جو آپ نے ’’مصالحانہ تجویز‘‘ کے نام سے پیش فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگوں کو ثالث تسلیم کرکے جماعت اسلامی کی تمام قابل اعتراض عبارتوں کو ان کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ مگر میں پوچھتا ہوں کہ صرف جماعت اسلامی ہی کی قابل اعتراض تحریریں کیوں۔ ان سب لوگوں کی تحریریں بھی کیوں نہیں جو کسی کے نزدیک قابل اعتراض ہوں؟ اصل بات یہ ہے کہ جو حضرات ہم پر معترض ہیں وہ بھی زبان وحی سے کلام نہیں کرتے۔ ان کی تحریریں اور تقریریں بھی انسانی کلام ہی ہیں اور ان میں ہم کو بکثرت قابل اعتراض باتیں نظر آتی ہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ ہم نے کبھی کسی کے ساتھ یہ بیہودگی نہیں کی کہ اس کی عبارتیں چُن چُن کر نکالیں اور اس کے خلاف مضمون بازی اور اشتہار بازی شروع کر دیں۔ بخلاف اس کے ہمارے ساتھ یہ بے ہودگی برسوں سے کی جارہی ہے اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔ اب کیا یہ ہم کو ہماری شرافت کا انعام دیا جارہا ہے کہ سارے ملک میں سے صرف ہم ہی اس ثالثی کے حضور ملزم کی حیثیت سے پیش کیے جانے کے لیے منتخب فرمائے جاتے ہیں؟ اور کیا دوسرے لوگ صرف اس لیے بخش دیے جاتے ہیں کہ ان کے خلاف ہم نے اس بیہودگی کا طوفان نہیں اٹھایا۔
ایک اور مغالطہ کا ازالہ اس موقع پر کر دینا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے امر واقعہ یہ نہیں ہے کہ علمائے کرام بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کے خلاف محاذ آراء ہو گئے ہیں۔ بلکہ بیشتر سنجیدہ اور خدا ترس علماء اپنے اختلافات پر قائم رہتے ہوئے اقامت دین کے مشترکہ مقصد میں جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور جماعت کے خلاف اٹھائے جانے والے طوفان کو دل سے ناپسند کرتے ہیں اور اسے روکنے کے لیے اپنی سی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ مخالفانہ طوفان اٹھانے والوں میں کچھ لوگ ضرور ایسے بھی ہیں جو علم رکھنے کے باوجود اپنے مقام کی حرمت کو محسوس نہیں کر رہے، لیکن یہ تمام تر ’’علمائے کرام‘‘ ہی نہیں ہیں، ان میں نہایت معمولی درجے کے سیاست باز حضرات بھی بکثرت شامل ہیں۔
آخری بات میں یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ اس طرح کی تجویزوں سے آپ مجھے معاف رکھیں۔ میرے نزدیک اس طرح کی بہتان تراشیوں کا علاج ثالثیاں نہیں ہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ آدمی ایسے لوگوں کو قطعاً نظرانداز کرکے اپنا کام کیے چلا جائے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے تاکہ اگر یہ اپنی ساری عمر بھی اس بیہودہ مشغلے میں کھپا دینا چاہتے ہوں تو کھپاتے رہیں۔
(ترجمان القرآن۔ محرم ۱۳۷۵ھ۔ ستمبر ۱۹۵۵ء)