اسلامی حکومت میں معاشرہ کی اصلاح و تربیت
سوال: کیا اسلامی حکومت خواتین کی بڑھتی ہوئی آزادی کو سختی سے روکے گی؟ جیسے ان کی زیبائش اور نیم عریاں لباس زیب تن کرنے اور فیشن کا رجحان اور جیسے آجکل نوجوان لڑکیاں نہایت تنگ و دلفریب سینٹ سے معطر لباس اور غازہ و سرخی سے مزین اپنے ہر خدوخال اور نشیب و فراز کی نمائش برسرعام کرتی ہیں اور آج کل نوجوان لڑکے بھی ہالی وڈ فلموں سے متاثر ہو کر ٹیڈی بوائز بن رہے ہیں۔ تو کیا حکومت قانون Legislation کے ذریعے سے ہر مسلم و غیر مسلم لڑکے اور لڑکی کے آزادانہ رجحان کو روکے گی؟ خلاف ورزی پر سزا دے گی والدین و سرپرستوں کو جرمانہ کیا جاسکے گا؟ تواس طرح کیا ان کی شہری آزادی پر ضرب نہ لگے گی؟ کیاگرلز گائیڈ۔ اپوا (APWA) یا دیگر وائی ایم سی اے (Y.M.C.A) اور وائی ڈبلیو سی اے (Y.W.C.A) جیسے ادارے اسلامی نظام میں گوارا کیے جاسکتے ہیں؟ کیا خواتین اسلامی عدلیہ سے، خود طلاق لینے کی مجاز ہوسکیں گی اور مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کی پابندی آج جائز ہوگی؟ یا خواہ اسلامی عدالت کے روبرو ہی سہی ان کو اپنی پسند سے (Civil Marriage) کرنے کا حق حاصل ہو سکتا ہے؟ کیا خواتین کو یوتھ فیسٹیول، کھیلوں، نمائش، ڈراموں، ناچ، فلموں یا مقابلہ حسن میں شرکت یا (Air Hostess) وغیرہ بننے کی آج بھی اسلامی حکومت مخالفت کرے گی۔ ساتھ ہی قومی کردار تباہ کرنے والے ادارے مثلاً سنیما، فلمیں، ٹیلی ویژن، ریڈیو پر فحش گانے یا عریاں رسائل و لٹریچر، موسیقی، ناچ و رنگ کی ثقافتی محفلیں وغیرہ کو بند کر دیا جائے گا یا فائدہ اٹھانا ممکن ہوگا؟
جواب: اسلام معاشرہ کی اصلاح و تربیت کا سارا کام محض قانون کے ڈنڈے سے نہیں لیتا۔ تعلیم، نشرواشاعت اور رائے عام کا دباؤ اس کے ذرائع اصلاح میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان تمام ذرائع کے استعمال کے بعد اگر کوئی خرابی باقی رہ جائے تو اسلام قانونی وسائل اور انتظامی تدابیر استعمال کرنے میں بھی تامل نہیں کرتا عورتوں کی عریانی اور بے حیائی فی الواقع ایک بہت بڑی بیماری ہے جسے کوئی سچی اسلامی حکومت برداشت نہیں کرسکتی۔ یہ بیماری اگر دوسری تدابیر اصلاح سے درست نہ ہو یا اس کا وجود باقی رہ جائے تو یقینا اس کو ازروئے قانون روکنا پڑے گا۔ اس کا نام اگر شہری آزادی پر ضرب لگانا ہے تو جواریوں کو پکڑنا اور جیب کتروں کو سزائیں دینا بھی شہری آزادی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ اجتماعی زندگی لازماً افراد پر کچھ پابندیاں عائد کرتی ہے۔ افراد کو اس کے لیے آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا کہ وہ اپنے ذاتی رجحانات اور دوسروں سے سیکھی ہوئی برائیوں سے اپنے معاشرہ کو خراب کریں۔
گرلز گائیڈ (Girl Guides) کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ اپوا (APWA) قائم رہ سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے دائرہ عمل میں رہ کر کام کرے اور قرآن کا نام لے کر قرآن کے خلاف طریقے استعمال کرنا چھوڑ دے۔ (Y.M.C.A) عیسائی عورتوں کے لیے رہ سکتا ہے مگر کسی مسلمان عورت کو اس میں گھسنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مسلمان عورتیں چاہیں تو (YWMA) بناسکتی ہیں، بشرطیکہ وہ اسلامی حدود میں رہیں۔
مسلمان عورت اسلامی عدلیہ کے ذریعہ سے خلع حاصل کرسکتی ہے۔ فسخ نکاح (Nullification) اور تفریق (Judicial separation) کی ڈگری بھی عدالت سے حاصل کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ شریعت کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ان میں سے کوئی ڈگری عدالت سے حاصل کرنے کی مجاز ہو۔ لیکن طلاق (Divorce) کے اختیارات قرآن نے صریح الفاظ میں صرف مرد کو دیے ہیں اور کوئی قانون مردوں کے اس اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ قرآن کا نام لے کر قرآن کے خلاف قوانین بنائے جانے لگیں۔ پوری اسلامی تاریخ عہدِ رسالتؐ سے لے کر اس صدی تک اس تصور سے ناآشنا ہے کہ طلاق دینے کا اختیار مرد سے سلب کر لیا جائے اور کوئی عدالت یا پنچائیت اس میں دخل دے۔ یہ تخیل سیدھا یورپ سے چل کر ہمارے ہاں درآمد ہوا ہے اور اس کے درآمد کرنے والوں نے کبھی آنکھیں کھول کر یہ نہیں دیکھا ہے کہ یورپ میں قانون طلاق کا پس منظر (Background) کیا ہے اور وہاں اس کے کتنے برے نتائج رونما ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں جب گھروں کے اسکینڈل نکل کر بازاروں میں پہنچیں گے تو لوگوں کو پتہ چلے گا کہ خدا کے قوانین میں ترمیم کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔
مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کے معاملہ میں ازروئے قانون پابندی عائد کرنے کا یا اس میں رکاوٹ ڈالنے کا تخیل بھی ایک بیرونی مال ہے جسے قرآن کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا گیا ہے۔ یہ اس سوسائٹی میں سے آیا ہے جس میں ایک ہی عورت اگر منکوحہ بیوی کی موجودگی میں داشتہ کے طور پر رکھی جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ قابل برداشت ہے بلکہ اس کے حرامی بچوں کے حقوق محفوظ کرنے کی بھی فکر کی جاتی ہے (فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے) لیکن اگر اسی عورت سے نکاح کر لیا جائے تو یہ جرم ہے۔ گویا ساری پابندیاں حلال کے لیے ہیں، حرام کے لیے نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی ابجد سے بھی واقف ہو تو کیا وہ یہ اقدار (Values) اختیار کر سکتا ہے؟ کیا اس کے نزدیک زنا قانوناً جائز اور نکاح قانوناً حرام ہونے کا عجیب و غریب فلسفہ برحق ہو سکتا ہے؟ اس طرح کے قوانین بنانے کا حاصل اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ مسلمانوںمیں زنا کا رواج بڑھے گا۔ گرل فرینڈز اور داشتائیں (Mistresses) فروغ پائیں گی اور دوسری بیوی ناپید ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسی سوسائٹی ہوگی جو اپنے خدوخال میں اسلام کی اصل سوسائٹی سے بہت دور اور مغربی سوسائٹی سے بہت قریب ہوگی۔ اس صورتحال کے تصور سے جس کا جی چاہے مطمئن ہو۔ مسلمان کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔
سول میرج کا سوال ظاہر ہے کہ مسلمان عورت کے ساتھ تو پیدا نہیں ہوتا یہ سوال اگر پیدا ہوتا ہے تو کسی مشرک عورت سے شادی کرنے کے معاملہ میں یا کسی ایسی عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کے معاملہ میں جو اسلامی قانون کے تحت کسی مسلمان سے نکاح کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور مسلمان مرد اس کے عشق میں مبتلا ہو کر اس اقرار کے ساتھ شادی کرے کہ وہ کسی مذہب کا پابند نہ ہوگا۔ یہ کام اگر کسی کو کرنا ہی ہو تو اسے اسلام سے فتویٰ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسلام کیوں اپنے ایک پیرو کو اس کی اجازت دے؟ اور ایک اسلامی عدالت کا یہ کام کب ہے کہ مسلمانوں کی اس طریقہ پر شادیاں کروائے۔
اگر ایک اسلامی حکومت بھی یوتھ فیسٹیول (Youth festival) اور کھیلوں کی نمائشوں اور ڈراموں اور رقص و سرور اور مقابلہ حسن میں مسلمان عورتوں کو لائے یا ایئرہوسٹس (Air Hostess) بنا کر مسافروں کے دل موہنے کی خدمت ان سے لے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی حکومت کی آخر ضرورت کیا ہے۔ یہ سارے کام تو کفر اور کفار کی حکومت میں باآسانی ہوسکتے ہیں بلکہ زیادہ آزادی کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔
سنیما، فلم، ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ تو خدا کی پیدا کردہ طاقتیں ہیں جن میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں۔ خرابی ان کے اس استعمال میں ہے جو انسانی اخلاق کو تباہ کرنے والا ہے۔ اسلامی حکومت کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ان ذرائع کو انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرے اور اخلاقی فساد کے لیے استعمال ہونے کا دروازہ بند کردے۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۷، عدد۴، جنوری ۱۹۶۲ء)