نظامِ عدل میں تغیرات اور ان کی نوعیت
سوال: اس برصغیر میں چونکہ تمام قانونی ضابطہ ہائے دیوانی، فوجداری، مالیاتی اور عملدرآمد کے قوانین (Procedural Law) وغیرہ عرصہ سے ہر عدالت میں جاری و ساری ہیں، اور چونکہ ڈیڑھ صدی سے تمام لوگ بالخصوص جج اور وکلاء وغیرہ نہ صرف ان قوانین سے پوری طرح مانوس بلکہ اس کا وسیع علم رکھتے ہیں، اس لیے بھی اسلامی مملکت کے قیام سے یہاں برطانوی دور کے نظام عدل (British Rull of Law) کا سارا ڈھانچہ بدلنا ممکن نہ ہوسکا۔ تو کیا پھر بھی عدالتی ریفارم لائی جائیں گی جبکہ اسلامی قانون کسی پہلو سے جامع، مرتب یا مکمل اور مدون (Codified) نہیں ہے؟ اسلامی عدالتی نظام میں وکلاء کی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا اسی طرح (Procedural Law) کے تحت انہیں مقدمہ جات لڑنے اور مقدمہ بازی (Litigation) کو طول دینے کا اختیار ہوگا؟ کیا اس موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی چور کا ہاتھ کاٹنے اور زانی کو سنگسار کی سزائیں دی جائیں گی؟ اور کیا قاضیوں کو قانونِ شہادت (Evidence Law) کی مدد کے بغیر فیصلے صادر کرنے ہوں گے؟ پھر بین الاقوامی قسم کے ادارے مثلاً اقوام متحدہ (United Nations) کی جنرل اسمبلی، سیکورٹی کونسل، بین الاقوامی عدالت انصاف یا کمرشل ٹربیونل اور لیبر قوانین وغیرہ کی عملداری دخل اندازی یا انٹرنیشنل لاء پر عمل پیرا ہونے اور ان کی من و عن قبولیت کے لیے اسلامی حکومت کا کیا رویہ ہوگا؟ اگر اسی قسم کے ادارے اسلامی کنفیڈریشن یا اسلامی بلاک بنا کر عمل میں لائے جائیں تو ان کو کیا حیثیت حاصل ہوگی؟ کیا اسلامی قانون ساز اسمبلی کے پاس شدہ یا اجتہادی احکام پر اسلامی عدلیہ کو نظرثانی (Review) کرنے کا اختیار ہوگا؟ اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات کس طرح رفع کیے جاسکتے ہیں؟
جواب: اس سوال کے جواب میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینی چاہیے کہ جب انگریزی حکومت اس ملک میں آئی تھی تو اس وقت سارا قانونی نظام (Legal System) اسلامی فقہ پر قائم تھا۔ انگریزوں نے آکر اس کو یک لخت تبدیل نہیں کیا بلکہ انگریزی حکومت میں سالہا سال تک اسلامی نظام ہی چلتا رہا۔ انگریز اس کو بتدریج تبدیل کرتے رہے اور رفتہ رفتہ انہوں نے اپنا نظام رائج کیا۔ اب اگر ہم اسلامی نظام قانون کو ازسرنو قائم کرنا چاہیں تو یہ تبدیلی بھی یک لخت نہیں، بتدریج ہی ہوگی اور اس کے لیے بہت حکمت کے ساتھ ایک ایک قدم اٹھانا پڑے گا۔ اسلامی قوانین اگر مدون (Codified) نہیں ہیں تو ان کے مدون (Codify) کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ اسی طرح اسلامی قانون کی شرحیں کثرت سے موجود ہیں۔ ان کو آسانی سے اردو زبان میں منتقل کیا جاسکتا ہے اور آگے نئی شرحوں کا سلسلہ چل سکتا ہے۔
اسی موجودہ ترقی یافتہ دور میں سعودی عرب میں زنا اور چوری کی سزائیں جاری ہیں اور تجربے نے تمام دنیا کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انہی سزاؤں کی وجہ سے سعودی عرب میں جرائم کی اتنی کمی ہوگئی ہے جتنی دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے۔ اب اگر اس دور کے ترقی یافتہ ہونے کے معنی یہی ہیں کہ جرائم میں ترقی ہو تو مغربی قانونی سسٹم پر شوق سے عمل کرتے رہیے لیکن جرائم کا انسداد بھی اگر ترقی کے لیے ضروری ہے تو پھر یہ تجربے نے ثابت کر دیا ہے کہ اسلامی قانون سے زیادہ کارگر کوئی قانون نہیں ہے۔ دراصل اس زمانے کی لادینی تہذیب کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی ساری ہمدردیاں مجرموں کے ساتھ ہیں۔ اسی لیے یہ نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سزائیں وحشیانہ ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ چوری کرنا کوئی وحشیانہ کام نہیں ہے۔ البتہ اس پر ہاتھ کاٹنا وحشیانہ کام ہے اور زنا کا ارتکاب تو مغربی تہذیب میں ایک تفریح ہے ہی۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس خیال کا ماخذ کیا ہے کہ اسلامی قانون میں قاضیوں کو قانونِ شہادت (Evidence Law) کی مدد کے بغیر فیصلہ کرنے کو اختیار حاصل ہے یا کوئی ایسا دستور العمل رہا ہے۔ حالانکہ خود قرآن نے قانون شہادت کے بہت سے اصول بیان کیے ہیں اور اس کی بیشتر تشریحات حدیث اور خلفائے راشدین کے فیصلوں سے ملتی ہیں۔ بالخصوص فقہا نے ان اصولوں کو نہایت محنت سے ترتیب دیا ہے اور اسلامی دور میں کوئی ایسا قاضی نہیں گزرا جس نے ثبوت کے بغیر فیصلے صادر کیے ہیں۔
وکالت کے بارے میں میرے نزدیک صرف اتنی اصلاح درکار ہے کہ قانون کی پریکٹس بند کر دی جائے اور وکلا کو اسٹیٹ معاوضہ دے۔ اب بھی قانون کا نظریہ یہ ہے کہ وکیل کا اصل کام اپنے موکل کی حمایت کرنا نہیں ہے بلکہ عدالت کو قانون سمجھنے اور منطبق (Apply) کرنے میں مدد دینا ہے۔ وکالت کے پیشہ بن جانے کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہوئی ہے کہ وکیل عدالت کو گمراہ (Mislead) کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقدمات کو طول بھی دیتے ہیں اور مقدمہ بازی کو بڑھاتے بھی ہیں۔
بین الاقوامی قسم کے تمام اداروں میں ہم شریک ہو سکتے ہیں۔ ان کے اندر اگر کوئی چیز بھی ہمارے اصول کے مطابق نہ ہوگی تو ہم اس کی حد تک اپنی الگ پالیسی بنائیں گے اور اسی حد تک ہماری شرکت میں استثناء ہوگا۔ مسلمان ممالک خود اپنی دولت متحدہ Common Wealth) یا تحائف (Confederation) بنا سکتے ہیں اور اسلامی اصول کے مطابق باہمی تعلقات کے طریقے مقرر کر سکتے ہیں۔
اسلامی قانون ساز اسمبلی کے طے کیے ہوئے اجتہادی احکام پر اسلامی عدلیہ نظرثانی (Review) نہیں کرسکتی۔ البتہ اگر وہ احکام قانون ساز اسمبلی کے اختیار سے متجاوز ہوں تو ان کو حدود اختیار سے متجاوز قرار دے سکتی ہے۔
اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات رفع کرنے کی صورت ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مسلمان ایمانداری کے ساتھ قرآن اور سنت کی ہدایات پر چلنے کے لیے تیار ہوں۔ قرآن کی تاویل اور سنت کی تحقیق میں اختلافات ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ مل کر کام کرنے میں مانع نہیں ہوسکتے۔ اگر ہم اس اصول کو مان لیں کہ جو شخص بھی قرآن اور سنت کو سند و حجت مان لے اور حضور سرور کائناتؐ کے بعد کسی دوسری نبوت کا قائل نہ ہو وہ ہماری برادری کا آدمی ہے تو یہ چیز کسی آدمی کو ہماری برادری سے خارج نہیں کرسکتی کہ وہ قرآن کے معنی ہم سے مختلف سمجھ رہا ہے اور اس کے نزدیک کسی معاملہ میں سنت سے کوئی اور بات ثابت ہوتی ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جتنی عدالتیں بھی پاکستان کے دستور اور قانون کو واجب الاطاعت قانون مان کر کام کرتی ہیں وہ سب اس ملک کی جائز عدالتیں ہیں۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام عدالتوں کے فیصلے بھی یکساں ہوں۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۷، عدد ۲، نومبر ۱۹۶۱ء)