اسلامی حکومت میں متعصب مستشرقین کے افکار کی اشاعت
سوال: کیا اسلامی ملک میں ان مغربی مستشرقین، غیر مسلم اسکالرز اور پروفیسروں کو تعلیم یا تقریر کے لیے مدعو کیا جاسکتا ہے جنہوں نے اپنے نقطہ نظر سے اسلام کے موضوعات پر کتابیں لکھتے ہوئے نہ صرف اسلام پر بے جا تنقیدی تبصرے کیے ہیں بلکہ عمداً یا کم علمی و تعصب سے اسلامی تاریخ لکھنے میں حضور اکرمؐ، اہل بیت، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، و آئمہ کرام (جن پر اسلام اور مسلمانوں کو فخر ہے) کی شان میں نازیبا فقرات لکھ کر ہدف ملامت بنایا ہے۔ مثلاً امریکی و برطانوی قابل ترین پروفیسروں کی نظرثانی شدہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں بھی دیگر اعتراضات کے علاوہ رسول مقبول کی ازواج مطہرات کو (Concubines) (لونڈیاں) لکھا ہے۔ ان میں سے اکثر کے یہاں آکر لیکچر اور خطبات دینے اور ان کی تشہیر کرنے پرکیا اسلامی حکومت بالکل پابندی عائد نہ کر دے گی؟ یا ان کتابوں اور زہر آلود لٹریچر کی ہماری لائبریریوں میں موجودگی گوارا کی جاسکتی ہے؟ حکومت ان کے جوابات و تردید شائع کرنے ان کی تصحیح کرانے یا ان سے رجوع کرانے کے لیے کیا اقدام کر سکتی ہے؟
جواب: یہ زمانے کے انقلابات ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ یورپ کے عیسائی اندلس (Spain) جاکر مسلمانوں سے انجیل کا سبق لیا کرتے تھے۔ اب معاملہ الٹا ہو گیا ہے کہ مسلمان یورپ والوں سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور اسلام کی تاریخ اور اس کی تہذیب کیا ہے۔ حتیٰ کہ عربی زبان بھی مغربی مستشرقین سے سیکھی جاتی ہے۔ مغربی ممالک سے استاد درآمد کرکے ان سے اسلامی تاریخ پڑھوائی جاتی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ وہ لکھتے ہیں نہ صرف اسے پڑھا جاتا ہے بلکہ اس پر ایمان بھی لایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ خود اپنے مذہب اور اس کی تاریخ کے متعلق اپنے ہم مذہبوں کے سوا کسی کی رائے کو ذرّہ برابر بھی دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہودیوں نے اپنی انسائیکلو پیڈیا (Jewish Encyclopaedia) شائع کی ہے اور اس میں کوئی ایک مضمون Article بھی کسی مسلمان تو درکنار کسی عیسائی مصنف کا بھی نہیں ہے۔ بائبل کا ترجمہ بھی یہودیوں نے اپنا کیا ہے۔ عیسائیوں کے ترجمہ کردہ ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس کے برعکس یہودی مصنفین اسلام کے متعلق مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں اور مسلمان ہاتھوں ہاتھ ان کو لیتے ہیں اور ان کا یہ حق مانتے ہیں کہ ہمارے مذہب اور ہماری فقہ اور ہماری تہذیب اور ہمارے بزرگوں کی تاریخ کے متعلق محققانہ کلام فرمائیں اور ہم یہ چیزیں ان سے سیکھیں۔ یہ صورتحال کسی صحیح اسلامی حکومت میں نہیں رہ سکتی اور نہ رہنی چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ رہ سکے۔ اسلامی حکومت بھی ہو اور اسلام اور مسلمان یتیم بھی ہوں، یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ رویہ مسلمانوں کی غیر اسلامی حکومت ہی کو مبارک رہے۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۷، عدد۲، نومبر ۱۹۶۱ء)