اسلامی ریاست اور خلافت کے متعلق چند سوالات
سوال: یہ ایک سوالنامہ ہے جو جرمنی سے ایک طالب علم نے اسلامی ریاست اور خلافت کے بعض مسائل کی تحقیق کے لیے بھیجا ہے اصل سوالات انگریزی میں ہیں۔ ذیل میں ہم ان کا ترجمہ دے رہے ہیں۔
۱۔ کیا اموی خلفاء صحیح معنوں میں خلفاء کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔
۲۔ کیا اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے صرف خلیفہ کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔
۳۔ خلفائے بنو عباس خصوصاً المامون کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
۴۔ حضرت امام حسنؓ حضرت امام حسینؓ اور ابن زبیرؓ کی سیاسی سرگرمیوں کے متعلق آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ آپ کی نظر میں ۶۸۰ھ میں ملت اسلامیہ کا اصل رہنما کون تھا؟ حسینؓ یا یزید؟
۵۔ کیا اسلامی ریاست میں خروج ایک نیکی کا کام قرار پاسکتا ہے۔
۶۔ اگر خروج کرنے والے مساجد یا دوسرے مقدس مقامات (حرم اور کعبہ) میں پناہ گزیں ہوں تو ایسی صورت میں اسلامی ریاست کا ایسے لوگوں کے ساتھ کیا طرزِعمل ہونا چاہیے؟
۷۔ وہ ایسے کون سے ٹیکس ہیں جو ایک اسلامی ریاست اپنے شہریوں سے ازروئے قرآن و سنت وصول کرنے کی مجاز ہے۔
۸۔ کیا کوئی خلیفہ ایسا کام بھی کر سکتا ہے جو سابق خلفاء کے طرزِ عمل سے مختلف ہو؟
۹۔ حجاج بن یوسف کو بحیثیت گورنر اور منتظم آپ کیا حیثیت دیتے ہیں؟
۱۰۔ کیا اسلامی ریاست اس بات کا استحقاق رکھتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں پر ایسے ٹیکس عائد کرے جو نہ تو قرآن و سنت میں مذکور ہوں اور نہ ہی ان کو کوئی نظیر سابق خلفاء کے ہاں ملتی ہو؟
جواب: آپ کے ارسال کردہ سوالات کے مفصل جوابات لکھنے کے لیے تو فرصت درکار ہے جو مجھے میسر نہیں۔ البتہ مختصر جوابات حاضر ہیں۔
۱۔ اسلامی ریاست کے رئیس یا صدر کے لیے ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ کوئی لازمی اصطلاح نہیں ہے۔ امیر، امام، سلطان وغیرہ الفاظ بھی حدیث، فقہ، کلام اور اسلامی تاریخ میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں مگر اصولاً جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ ریاست کی بنیاد نظریہ خلافت پر قائم ہو۔ ایک صحیح اسلامی ریاست نہ تو بادشاہی یا آمریت ہو سکتی ہے اور نہ ایسی جمہوریت جو حاکمیت عوام (Popular sovereignty) کے نظریے پر مبنی ہو۔ اس کے برعکس صرف وہی ریاست حقیقت میں اسلامی ہو سکتی ہے جو خدا کی حاکمیت تسلیم کرے، خدا اور اس کے رسول کی شریعت کو قانون برتر اور اولین ماخذ قوانین مانے، اور حدود اللہ کے اندر رہ کر کام کرنے کی پابند ہو۔ اس ریاست میں اقتدار کی اصل غرض خدا کے احکام کا اجرا اور اس کی رضا کے مطابق برائیوں کا استیصال اور بھلائیوں کا ارتقاء ہے۔ اس ریاست کا اقتدار، اقتدار اعلیٰ نہیں ہے بلکہ خدا کی نیابت و امانت ہے۔ یہی معنی ہیں خلافت کے۔
۲۔ اموی فرمانرواؤں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا، لیکن دستور (Constitution) کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انہوں نے توڑ دیا تھا۔ نیز ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی۔ اس فرق کو ان کی حکومت کے آغاز ہی میں محسوس کر لیا گیا تھا۔ چنانچہ اس حکومت کے بانی امیر معاویہ کا اپنا قول یہ تھا کہ انا اوّل الملوک (میں سب سے پہلا بادشاہ ہوں) اور جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کیا اس وقت حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن نے اٹھ کر برملا کہا کہ ’’یہ تو قیصریت ہے کہ جب قیصر مرا تو اس کا بیٹا قیصر ہوگیا‘‘۔
۳۔ اصولی حیثیت سے خلافت عباسیہ کی پوزیشن بھی وہی ہے جو خلافت بنی امیہ کی ہے۔ فرق بس اتنا تھا کہ خلفائے بنی امیہ دین کے معاملہ میں بے پروا (Indifferent) تھے اور اس کے برعکس خلفائے بنی عباس نے اپنی مذہبی خلافت اور روحانی ریاست کا سکہ بٹھانے کے لیے دین کے معاملہ میں ایجابی طور پر دلچسپی لی۔ لیکن ان کی یہ دلچسپی اکثر دین کے لیے مضر ہی ثابت ہوئی۔ مثلاً مامون کی دلچسپی نے جو شکل اختیار کی وہ یہ کہ اس نے ایک فلسفیانہ مسئلے کو جو دین کا مسئلہ نہ تھا، خواہ مخواہ دین کا ایک عقیدہ بنایا اور پھر حکومت کی طاقت سے زبردستی اس کو تسلیم کرانے کے لیے ظلم و ستم کیا۔
۴۔ جس دور کے متعلق یہ سوال کیا گیا ہے وہ حقیقت میں فتنے کا دور تھا۔ مسلمان اس وقت سخت انتشار ذہنی میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کا حقیقی لیڈر کون تھا۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ یزید کا سیاسی اثر جو کچھ بھی تھا صرف اس بناء پر تھا کہ اس کے پاس طاقت تھی اور اس کے والد نے ایک مضبوط سلطنت قائم کرنے کے بعد اسے اپنا ولی عہد بنا دیا تھا۔ یہ بات اگر نہ ہوتی اور یزید عام مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتا تو شاید وہ آخری شخص ہوتا جس پر لیڈر شپ کے لیے مسلمانوں کی نگاہ انتخاب پڑ سکتی۔ اس کے برعکس حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اس وقت امت کے نمایاں آدمی تھے اور ایک آزادانہ انتخاب میں اغلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان کے حق ہی میں پڑتے۔
۵۔ ظالم امراء کے مقابلے میں خروج ایسی صورت میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہو جاتا ہے جبکہ ان کو ہٹا کر ایک صالح و عادل حکومت قائم کرنے کا امکان ہو۔ اس معاملہ میں امام ابوحنیفہ کا مسلک بہت واضح ہے جسے ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں اور الموفق المکی نے مناقب ابوحنیفہ میں نقل کیا ہے۔ اس کے برعکس ایک حکومت عادلہ کے خلاف خروج بہت بڑا گناہ ہے اور تمام اہل ایمان پر لازم ہے کہ ایسے خروج کو دبا دینے میں حکومت کی تائید کریں۔ بین بین حالت میں جبکہ حکومت عادل نہ ہو مگر صالح انقلاب کے بھی امکانات واضح نہ ہوں پوزیشن مشتبہ ہے اور ائمہ و فقہا نے اس معاملے میں مختلف طرزِ عمل اختیار کیے ہیں۔ بعض نے صرف کلمہ حق کہنے پر اکتفا کیا مگر خروج کو ناجائز سمجھا۔ بعض نے خروج کیا ایور جام شہادت نوش کرنے کو ترجیح دی۔ اور بعض نے باامید اصلاح تعاون بھی کیا۔
۶۔ حکومت عادلہ کے مقابلہ میں جو لوگ خروج کریں وہ اگر مساجد میں پناہ لیں تو ان کا محاصرہ کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ وہاں سے گولہ باری کریں تو جوابی گولہ باری بھی کی جاسکتی ہے۔ رہا حرم میں ان کا پناہ لینا تو اس صورت میں صرف محاصرہ کر کے اس حد تک تنگ کیا جاسکتا ہے کہ بالآخر باغی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائیں۔ حرم میں قتل و خون کرنا یا حرم پر سنگ باری یا گولہ باری کرنا درست نہیں ہے۔ بخلاف اس کے ایک ظالم حکومت کا وجود خود گناہ ہے اور اپنے قیام و بقا کے لیے اس کی کوشش بھی گناہ میں اضافے کے سوا کچھ نہیں۔
۷۔ قرآن و سنت نے ٹیکسوں کا کوئی نظام تجویز نہیں کیا ہے بلکہ مسلمانوں پر زکوٰۃ بطور عبادت اور غیر مسلموں پر جزیہ (بطور علامت اطاعت) لازم کرنے کے بعد یہ بات حکومت کی صوابدید پر چھوڑی ہے کہ جیسی ملک کی ضروریات ہوں ان کے مطابق باشندوں پر ٹیکس عائد کریں۔ خراج اور محاصل درآمد و برآمد اس کی ایک مثال ہیں۔ جنہیں قرآن و سنت میں شرعاً مقرر نہیں کیا گیا تھا اور حکومت اسلامی نے اپنی صوابدید کے مطابق انہیں خود مقرر کیا۔ اس معاملہ میں اصل معیار ملک کی حقیقی ضروریات ہیں۔ اگر کوئی فرمانروا اپنے تصرف میں لانے کے لیے ٹیکس وصول کرے تو حرام ہے۔ ملک کی حقیقت ضروریات پر صَرف کرنے کے لیے لوگوں کی رضامندی سے ان پر عائد کرے تو حلال ہے۔
۸۔ جی ہاں۔ صرف یہی نہیں بلکہ خود اپنے کیے ہوئے سابق فیصلوں کو بھی بدل سکتا ہے۔
۹۔ حجاج بن یوسف دنیوی سیاست کے نقطہ نظر سے بڑا لائق اور دینی نقطہ نظر سے سخت ظالم حاکم تھا۔
۱۰۔ جی ہاں، ان شرائط کے ساتھ جو نمبر۷ میں بیان ہوئی ہیں۔