اسلامی جمہوریت اور ملازمین حکومت کی حیثیت
سوال: اگست ۱۹۵۵ء کے ترجمان میں اشارات کے زیر عنوان آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان سے مجھے جزوی اختلاف ہے۔ میرے شبہات درج ذیل ہیں۔
۱۔ آپ نے جمہوریت کو قرآن و سنت کا منشا قرار دیا ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ فی زمانہ جمہوریت ایک مخصوص طرزِ حکومت کا نام ہے جس کی بناء عوام کی غیر محدود حاکمیت کے تصور پر قائم ہے جسے ہم کسی طرح بھی کتاب و سنت کے منشاء کے مطابق قرار نہیں دے سکتے۔ آپ جمہوریت کے لفظ کو اس کے معروف معنی سے ہٹ کر استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نے خود اسلامی طرزِ حکومت کے لیے تھیوڈیما کریسی کی اصطلاح وضع کی تھی، اب اس اصطلاح کو چھوڑ کر آپ ڈیمو کریسی کی طرف کیوں رجعت کر رہے ہیں۔
۲۔ آپ کا یہ خیال کہ ملازمین حکومت کو سیاست میں دخل انداز نہ ہونا چاہیے، بالکل مبہم اور مجمل ہے۔ کیا آپ بھی سیاسیات و مذہب کی مصنوعی تقسیم کے قائل ہیں۔
۳۔ آپ کا یہ کہنا بھی تعلیمات اسلامی کے مطابق نہیں کہ سرکاری ملازم ہر اس ہیت حاکمہ کی اطاعت قبول کریں جسے ملک کے باشندوں کی اکثریت آئینی طور پر ملک کا اقتدار سونپ دے۔ مسلمانوں کے لیے خواہ سرکاری ملازم ہو یا عام شہری، اطاعت صرف اسی حکمران کی لازم ہے جو کتاب و سنت کا پابند ہو۔ محض آئینی حیثیت سے ملک کی مسند اقتدار پر متمکن ہو جانا کسی طرح بھی مسلمانوں سے اطاعت کا مستحق نہیں ہو سکتا۔
جواب: جمہوریت کے متعلق میں بارہا اپنی تحریروں اور تقریروں میں یہ بات اچھی طرح واضح کر چکا ہوں کہ اسلام میں جمہوریت کا اصل جوہر موجود ہے مگر جمہوریت کے اسلامی تصور اور جمہوریت کے مغربی تصورات میں بڑا فرق ہے۔ اسلام عوام کی لامحدود حاکمیت کا قائل نہیں ہے، بلکہ خدا کی حاکمیت کے تحت عمومی خلافت کا قائل ہے۔ اس عمومی خلافت کے اختیارات چونکہ کسی شخص یا خاندان یا گروہ میں مرکوز نہیں ہوتے بلکہ بحیثیت مجموعی پوری ملت کو حاصل ہوتے ہیں اور وہی اس کی مجاز ہے کہ جس کو چاہے ان اختیارات کے استعمال کے لیے منتخب کرے، اس لیے شخصی اور گروہی حکومت سے ممتاز کرنے کے لیے اسلام کے طرزِ حکومت کو جمہوری حکومت کہا جاسکتا ہے۔ یہی اسلام کا مخصوص تصور جمہوریت ہے۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت کا ایک ہی معروف اور متفق علیہ تصور رائج ہے۔ مغرب میں بھی جمہوریت کے مختلف تصورات مثلاً سرمایہ دارانہ جمہوریت، اشتراکی جمہوریت وغیرہ موجود ہیں۔ ان کے بالمقابل اسلام کے طرزِ حکومت کو اسلامی جمہوریت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اسی اسلامی جمہوریت کو میں نے تھیوڈیما کریسی کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ اس اصطلاح سے بھی مراد جمہوریت ہی کی ایک قسم ہے جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔
ملازمین حکومت کے سیاسیات میں دخل انداز ہونے کی جو مخالفت میں نے کی ہے اس کے وجوہ دلائل بھی میں نے بیان کر دیے ہیں۔ آپ نے ان دلائل پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہ کی اور ایسے پہلوؤں سے اعتراضات شروع کر دیے جو اصل معاملے سے غیر متعلق ہیں۔ ملازمین حکومت کی ایک حیثیت ذاتی اور دوسری حیثیت ملازم ہونے کی ہے۔ ذاتی حیثیت میں کوئی بھی نہیں کہتا کہ وہ سیاسیات سے ’’علیحدہ‘‘ رہیں۔ اسی وجہ سے تو ان کو بھی عام لوگوں کی طرح ووٹ کا حق حاصل ہے لیکن ملازم حکومت ہونے کی حیثیت سے ان کا سیاسیات میں دخل انداز ہونا اور ان سرکاری اختیارات کو، جو انتظام ملکی کے لیے انہیں دیے گئے ہیں، سیاسی نظریوں اور پارٹیوں میں سے کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف استعمال کرنا، اصولاً بھی غلط ہے اور عملاً بھی ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ کیا آپ اسے صحیح سمجھتے ہیں کہ پولیس اور فوج اور سول سیکریٹریٹ کے لوگ اپنی جتھہ بندی کر کے خود اپنا ایک نظریہ قائم کر لیں اور یہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ وہ خود ملک پر قبضہ کر کے اپنے نظریے کو زبردستی نافذ کریں گے، یا کوئی ایسی پارٹی اگر انتخابات کے نتیجہ میں برسراقتدار آجائے جو ان کے نظریہ سے مختلف نظریہ رکھتی ہو تو اس کی حکومت نہ چلنے دیں گے۔
یہ صحیح ہے کہ ایک سرکاری ملازم کو، ایک عام شہری کی طرح، صرف اسی حکمران کی اطاعت کرنی چاہیے جو کتاب و سنت کا پابند ہو، لیکن کیا یہ بھی صحیح ہے کہ اگر کوئی حکمران کتاب و سنت کا پابند نہ ہو تو اس کی ملازمت تو کی جائے مگر اطاعت نہ کی جائے؟ میں نے تو جس سیاق و سباق میں یہ بات کہی تھی کہ باشندوں کی اکثریت جس ہیت حاکمہ کے سپرد اختیارات کرے اس کی اطاعت ملازمین کو کرنی چاہیے میں اس میں جمہوری اصول بیان کرنے سے پہلے اسلامی دستور کے اصول بھی بیان کر چکا تھا اور میری یہ بات اسی سیاق و سباق سے متعلق سمجھی جانی چاہیے تھی۔ لیکن اگر آپ اس سیاق و سباق سے الگ کر کے بھی اسے لیں تو میں کہوں گا کہ ملک کی اکثریت اگر کسی ایسی ہیت حاکمہ کو اختیارات سونپ دے جو کتاب و سنت سے منحرف ہو تو ایک دیندار ملازم حکومت کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ بہرحال اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ملازمت تو کرتا رہے مگر اطاعت سے انکار کر دے۔
(ترجمان القرآن۔ ۱۳۷۵ھ۔ فروری ۱۹۵۶ء)