مسئلہ سود کے متعلق چند اشکالات
سوال: میں معاشیات کا طالب علم ہوں۔ اس لیے اسلامی معاشیات کے سلسلے میں مجھے جس قدر کتابیں مل سکی ہیں، میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔ ’’سود‘‘ کے بعض ابواب میں نے کئی کئی بار پڑھے ہیں۔ لیکن بعض چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں۔
۱۔ زیادہ سے زیادہ صَرف کرو کی پالیسی:
کچھ دن ہوئے ہیں میں نے آپ کو یہ سوال لکھا تھا کہ آپ خرچ پر جس قدر زور دیتے ہیں، اس کا نتیجہ صرف یہی ہوگا کہ اسلامی ریاست میں سرمایہ کی شدید کمی ہو جائے گی اور ملک کی صنعتی ترقی رک جائے گی۔ اس کا جواب آپ کی طرف سے یہ دیا گیا تھا کہ سود میں اس کا جواب موجود ہے۔ متعلق ابواب کو دوبارہ پڑھا جائے۔ میں نے کئی بار ان ابواب کو پڑھا ہے اور میرا اعتراض قائم ہے۔ لہٰذا میں آپ کے پیش کردہ دلائل کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں اور پھر اپنا اعتراض پیش کرتا ہوں۔
آپ کا استدلال یہ ہے کہ لوگ دل کھول کر خرچ کریں تو ہر چیز کی مانگ بڑھے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ (Producers) اپنی پیداوار بڑھائیں گے۔ یعنی زیادہ عوامل کو روزگار مہیا کریں گے۔ عوامی پیداوار کی بڑھتی ہوئی آمدنی کے نتیجہ میں چیزوں کی مانگ اور بڑھے گی۔ غرضیکہ معاشی خوشحالی کا ایسا چکر چلے گا۔ جس سے کہ ایک طرف عوامل پیداوار کی آمدنی اور معیارِ زندگی بلند ہوتا چلا جائے گا اور دوسری طرف صاحبِ پیداوار کی بِکری اور منافع بڑھتا چلا جائے گا۔
اس کے بعد آپ یہ کہتے ہیں کہ صنعتوں کے لیے سرمایہ بڑھے ہوئے منافع اور بڑھتی ہوئی آمدنی سے بچی ہوئی رقم میں سے فراہم ہو جائے گا۔
اب میں اپنے اعتراضات بیان کرتا ہوں۔ میں شروع ہی میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ سود کی بندش سے پس اندازی کا سلسلہ رک جانے کا مجھے کوئی خدشہ نہیں ہے۔ میرا سارا اعتراض یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خرچ کرو کی پالیسی صحیح نہیں ہے۔
آپ کے پورے استدلال کی تہہ میں یہ مفروضہ کام کر رہا ہے کہ ملک پہلے سے ہی پوری طرح صنعتی ترقی کر چکا ہے۔ اب صرف سالانہ (Depreciation) اور (Replacement) کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ لوگوں کی پس انداز کرنے کی عادت کی بناء پر ملک کی موجودہ صنعتی قابلیت بھی پوری طرح استعمال نہیں ہو رہی۔
پہلا نتیجہ میں نے اس طرح اخذ کیا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ اصلاً صنعت کا اندرونی منافع ہی سرمایہ کی کمی کو پورا کر دے گا۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب صنعت پہلے سے خوب ترقی یافتہ ہو۔ اگر صنعت بالکل نہ ہو، یا ابتدائی مراحل میں ہو تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اندرونی سرمایہ ہی سے یا تھوڑا سا باہر کا سرمایہ ملا کر ضرورت پوری ہو جائے مثال کے طور پر پاکستان کا شش سالہ پلان لیجیے۔ باوجود اس کے کہ یہ پلان ہماری ضروریات کے لحاظ سے انتہائی حقیر ہے اور اس میں ملکی ضروریات سے زیادہ سرمایہ کی فراہمی کے مسئلہ کو پیش نظر رکھا گیا ہے، لیکن پھر بھی اس پلان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے صنعتی اور ملکی سرمایہ ملاکر اور غیر ملکی سرمایہ کو بھی شامل کر کے سرمایہ کی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں اور حکومت کو خسارے کا بجٹ بنانے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ یہی حال ہندوستان، انڈونیشیا، جاپان وغیرہ ممالک کا ہے۔ جتنے پسماندہ ممالک ہیں کسی کا ملکی سرمایہ بھی اس کی صنعتی ضروریات کے لیے کافی نہیں۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ صنعت کا اپنا سرمایہ اور تھوڑی بہت پسماندہ رقم ہماری صنعتی ضروریات کے لیے کافی ہو گی کس طرح صحیح ہے۔ اسی بناء پر I,B.D.R.I.ME وغیرہ وجود میں آئے ہیں۔
دوسرا مفروضہ میں نے اس طرح نکالا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ جب لوگ زیادہ خرچ کریں گے تو روزگار بڑھے گا۔ پیدا کنندگان زیادہ عوامل پیداوار سے روزگار مہیا کریں گے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب فاضل صنعتی قوت موجود ہو۔ اگر زائد قوت موجود نہ ہو یعنی کارخانے اپنی قوت کار سے کم کام نہ کر رہے ہوں، یا سرے سے کارخانے ہی موجود نہ ہوں، جیسا کہ عام طور پر پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے، تو زیادہ خرچ کرنے کا نتیجہ سوائے افراطِ زر کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ دوسرے ممالک کو چھوڑیے خود اپنے ہی ملک میں ہمیں اس کا بہت تلخ تجربہ ہوا ہے۔ دوران جنگ میں جب کارخانے دن رات کام کر رہے تھے، لیکن روپے کی فراوانی کی بناء پر لوگ خوب خرچ کر رہے تھے، اس وقت صنعت میں برائے نام ہی ترقی ہوئی تھی۔ البتہ (Inflation) خوب بڑھ گئی تھی۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کس طرح صحیح ہو گا کہ زیادہ خرچ کرنے سے صنعت کو فروغ ہوگا؟ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ آپ کی معاشیات تنزل پذیر ہے، ترقی یافتہ نہیں ہے؟ آپ کا نسخہ ترقی یافتہ ممالک میں تو کارگر ہو سکتا ہے پسماندہ ممالک میں نہیں۔
یہ تو تھا آپ کے دلائل کاجائزہ اور ان پرمیرا اعتراض، اب میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرو کی پالیسی کے خلاف چند دلائل پیش کرنا چاہتا ہوں۔
۱۔ ہر قسم کے اخراجات معاشی نقطہ نظر سے مفید نہیں ہیں۔ اگر اپنا زائد منافع صنعت میں لگا دینے کے بجائے قیمتی مکانات، قیمتی لباس، قیمتی فرنیچر وغیرہ پر صَرف کر دیں تو ملکی صنعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ بلکہ الٹا نقصان ہی پہنچے گا۔ کیونکہ وہ رقم صنعتی سرمایہ نہ بنی۔ علاوہ ازیں اتنی رقم صنعتی پیداوار پر صَرف ہونے سے بھی رہ گئی۔ اس طرح اتنی مالیت کی پیداوار فروخت نہ ہو سکی۔ اور ایسے اخراجات حرام نہیں ہیں۔ لہٰذا خرچ کرو کی پالیسی معاشی مسائل کا حل نہیں ہے۔
۲۔ ’’زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی پسماندہ ممالک کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسے ممالک میں چونکہ ملکی صنعت برائے نام ہی ہوتی ہے۔ اس لیے خرچ کا بیشتر حصہ درآمدہ اشیا پر صَرف ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ پر بہت بوجھ پڑتا ہے۔ ایک تو ویسے ہی ان ممالک کے غیر ملکی وسائل بہت محدود ہوتے ہیں پھر اوپر سے اخراجات صارفین کا جو دباؤ پڑتا ہے اس کی وجہ سے مشینوں کی درآمد کے لیے بہت کم وسائل رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا زیادہ خرچ کرو کی پالیسی سے صنعتی ترقی کو سخت نقصان پہنچتا ہے جب خرچ کا دباؤ زیادہ پڑ رہا ہو تو یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ (Consumption Goods) کی درآمد بند کر دی جائے۔ کیونکہ پھر ملک میں افراطِ زر کا چکر چلنے لگے گا۔ ان دونوں صورتوں کا تجربہ ہم نے خوب کیا ہے پہلی صورت کا تجربہ فضل الرحمن صاحب کا او۔جی۔ایل تھا۔ دوسری صورت کا تجربہ ۱۹۵۳ء سے ہو رہا ہے اور دونوں تجربات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
۳۔ زیادہ سے زیادہ خرچ کرو کی پالیسی اور بسرعت صنعتی ترقی کی خواہش بالکل متضاد ہیں۔ ہر ملک کے وسائل محدود ہوتے ہیں ان وسائل کو دو طرح سے خرچ کیاجاسکتا ہے۔ (Consumption) پر اور (Production) پر جتنے زیادہ وسائل (Consumption Demand) کو پورا کرنے کے لیے صَرف کیے جائیں گے۔ اتنے ہی کم وسائل کو پورا کرنے کے لیے رہ جائیں گے۔ یہاں الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ سرمایہ جب چاہا جتنا چاہا۔ جس غرض کے لیے چاہا مہیا ہو گیا۔ اور مستقبل کے متعلق فکر بھی نہ کرنی پڑی۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ میں صرف ایک عام فہم مثال دینے پر اکتفا کرتا ہوں۔ انگلستان میں آج بھی رہائشی مکانات کی بہت قلت ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ بنانا نہیں چاہتے۔ بلکہ وجہ یہ ہے کہ وسائل کی کمی زیادہ مکانات بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔ جتنا زیادہ سرمایہ لوہا سیمنٹ میں صَرف کیا جائے گا اتنا ہی کم دوسری صنعتوں کے لیے رہ جائے گا۔ اسی لیے معاشی کونسل ہر صنعت کے لیے تمام عوامل کا کوٹا مقرر کر دیتی ہے تاکہ سب کو کچھ نہ کچھ حصہ مل جائے اور کوئی کام بند نہ ہو۔
۵۔ کوئی پسماندہ ملک بغیر (Consumption Expenditure) کو کم کیے اور بغیر اپنی قومی آمدنی کا خاصا حصہ پس انداز کیے ترقی نہیں کر سکتا۔ بیرونی امداد اور بیرونی سرمایہ کی بڑی سے بڑی رقوم بھی ایسے ملک کے سرمایہ کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتیں۔ اگر یہ ممالک (Consumption Expenditure) کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ پس انداز کرنے پر تیار نہیں ہیں تو پھر صنعتی ترقی کے خواب ہی دیکھتے رہیں۔ ان خوابوں کے پورا ہونے میں بہت وقت لگے گا۔ اور بہت قربانیاں دینی پڑی گی۔ اس دعوے کا بہترین ثبوت روس اور جاپان پیش کرتے ہیں۔ گو کہ سیاسی اعتبار سے دونوں ممالک میں بعدالمشرقین ہے۔ لیکن معاشی ترقی کے لیے دونوں نے ایک ہی ذریعہ اختیار کیا۔ دونوں ہماری طرح ہی بدحال تھے دونوں کو غیر ملکی سرمایہ نہیں ملا اور دونوں سرعت سے صنعتی ترقی کے خواہاں تھے۔ لہٰذا انہوں نے (Consumpution Expenditure) کو کم کیا اور قومی آمدنی کا ایک خاص حصہ جبراً پس انداز کیا اور اس سرمایہ سے اپنی صنعتیں کھڑی کیں۔
۲ بنکنگ کی نشوونما:
میرا دوسرا بڑا اعتراض سود حصہ دوم میں دیتے ہوئے بنکنگ کے تجزیہ پر ہے۔ ص ۱۲۱ سے ص۱۲۳ تک آپ بنکنگ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح پہلے سناروں نے امانت داروں کا سونا قرض دینا شروع کردیا اور پھر اس طرح سونے کے بَل پر ۱۰ گنا قرض دینے لگے۔ آپ کہتے ہیں کہ اس طرح ان لوگوں نے ۹۰ فیصد جعلی روپیہ بالکل بے بنیاد کرنسی کی شکل میں بنا ڈالا اور خواہ مخواہ اس کے مالک بن بیٹھے اور سوسائٹی کے سر پر اس کو قرض کے طور پرلاد لاد کر اس پر دس بارہ فیصد سود وصول کرنے لگے۔ یہ سنار اس مسلسل جعلسازی سے ملک کی ۹۰ فیصدی دولت کے مالک ہو چکے تھے۔
اس پورے تجزیہ سے مجھے سراسر اختلاف ہے۔ جہاں تک آپ نے بنکنگ کی تاریخ بیان کی ہے وہاں تک مجھے کوئی اختلاف نہیں۔ میرا اختلاف ان باتوں سے ہے جنہیں میں نے آپ کے الفاظ میں قلمبند کیا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ:
۱۔ وہ سرمایہ جعلی نہیں۔
۲۔ بنکر کی ملک نہیں۔
۳۔ وہ سوسائٹی پر زبردستی قرض کی صورت میں لادا نہیں گیا۔
۴۔ بنکر ملک کی ۳۰ فیصد دولت کے مالک نہیں بن گئے تھے۔
۵۔ روپیہ تخلیق (Create) کرنے کا عمل بنکنگ کی ابتدا میں ہی نہیں ہوا تھا۔ بلکہ روز ہوتا ہے۔ ان باتوں کو ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بنکنگ کی حقیقت کو جس طرح میں نے سمجھا ہے اسے بیان کردوں۔
ایک شخص بنک کھولتا ہے۔ اس کے پاس اپنا کوئی سرمایہ نہیں اور نہ ہی کوئی امانت دار اس کے پاس رقم رکھواتا ہے۔ چونکہ بنک صفر سے قائم ہوتا ہے (B-0) اس کے پاس ایک شخص A آتا ہے اور ۱۰۰ روپے قرض مانگتا ہے۔ بنک اس کی درخواست قبول کر لیتا ہے لیکن نقدی کی صورت میں کچھ بھی نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے نام ۱۰۰ روپے اپنے کھاتہ میں جمع کر لیتا ہے (A+100) اب A بازار، سے کچھ مال خریدتا ہے اور اسے ۱۰۰ روپوں کا چیک دے دیتا ہے۔ C اسے بنک میں جمع کرا دیتا ہے۔ بنک A کے کھاتہ سے ۱۰۰ روپے گھٹا دیتا ہے۔ (A+100-100=0) اور سی کے نام جمع کر لیتا ہے (C+100) بازار میں سو روپے کی چیز C سے A کے پاس چلی گئی اس کے عوض میں اسٹیٹ بنک کا ایک نوٹ بھی نہ دیا گیا بلکہ B کے کھاتے میں ۱۰۰ روپے کا اندراج کر دیا گیا۔ بنک (B) کے پاس پہلے بھی کوئی رقم نہ تھی اور اب بھی کوئی رقم نہیں ہے اب C مال خریدتا ہے اور S کو ۱۰۰ روپے کا چیک دے دیتا ہے۔ بنک C کے کھاتے سے ۱۰۰ روپے گھٹا دیتا ہے اور S کے نام جمع کردیتا ہے۔ غرضیکہ اسی طرح تجارت کاچکر چلتا رہتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بنکر کے پاس اپنا کچھ نہیں تھا۔ لیکن اس نے پھر بھی ۱۰۰ روپے کا قرض دے دیا اور بنک کا قرض بازار میں کرنسی نوٹوں کی طرح چل رہا ہے۔ اس رقم سے اسی طرح خرید و فروخت ہو رہی ہے جس طرح عام نوٹوں سے ہوتی ہے اور بنک صفر سرمایہ سے کام شروع کرنے کے باوجود ۱۰۰ روپے سود کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ پکار اٹھتے ہیں کہ بنکر جعلساز ہے۔ اس نے خود ہی جعلی روپیہ بنایا اور اس کا مالک بن کر اسے سوسائٹی پر قرض کی صورت میں لاد دیا۔ اسی طرح اتنی ملکی دولت اس کے قبضہ میں چلی گئی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ احتجاج صحیح ہے۔
میں نے بنکر کو صفر سرمایہ سے اس لیے شروع کیا ہے کہ آپ کے الزامات کی سنگینی پوری شدت سے ابھر آئے اور روپے بنانے میں ۱۰= ۱ کے تناسب کی قید بھی حائل نہ ہو۔ پوری پوری رقم ایک شخص سے دوسرے شخص کے نام تبدیل کرنے میں حسابی سہولت مقصود ہے۔
ہماری مثال میں اب صورت حال یہ ہے کہ بنک کے پاس ایک دھیلہ بھی نہیں لیکن بنک کو A سے ۱۰۰ روپے ملنے ہیں کیونکہ یہ رقم اس نے بنک سے قرض لی تھی۔ اس رقم کے علاوہ بنک کو سود بھی ملنا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بنک کے کھاتے میں S کے نام ۱۰۰ روپے دینے ہیں۔ یعنی بنک کو اگر ایک طرف سے سود+۱۰۰ ملنا ہے تو دوسری طرف اس کے ذمہ ۱۰۰ روپے واجب الادا بھی ہیں۔ اب پوری بات صاف ہو جاتی ہے۔
۱۔ وہ رقم جو بنک نے پیدا کی تھی وہ بنک کی ملک نہیں ہے وہ بچانے والے (S) کی ملک ہے بنک صرف سود کی رقم کا مالک ہے۔
۲۔ لہٰذا بنک نے کوئی جعلی سرمایہ نہیں بنایا۔ اس نے صرف بچانے والے کی رقم کو ادھار پر لگایا ہے۔
۳۔ بنک سوسائٹی کی ۹۰ فیصد دولت کا مالک نہیں بن رہا۔
۴۔ بنک سوسائٹی کے سر پر زبردستی کوئی قرض نہیں لاد رہا دولت بچانے والا جس دن چاہے اس چکر کو بند کر سکتا ہے۔ S نے بنک سے نقد اپنے ۱۰۰ روپے کا مطالبہ کر دیا۔ بنک نے A سے کہا کہ میرا دیا ہوا قرض واپس دو۔ A نے ۱۰۰+ سود واپس کر دیا۔ بنک نے S کو سو روپے دے دیے اور سود کا کچھ حصہ خود رکھ لیا کچھ S کو دے دیا۔ اب بنک پھر خالی ہے نہ اس کا کسی پر قرض ہے اور نہ ہی اس کے ذمہ کوئی قرض ہے۔
اگر بنک جعلی روپیہ بنا سکتے تو وہ کبھی فیل نہ ہوتے۔ فیل وہ ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ جعلی روپیہ نہیں بنا سکتے۔ امانت دار اپنے روپے طلب کرتے ہیں اور بنک بعض اوقات فوری طور پراپنے قرض واپس نہیں لے پاتا۔ امانتدار فوری نقدی طلب کرتے ہیں۔ اس لیے امانت داروں کے تقاضے بنک پورے کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں اور لال بتی جلا دیتے ہیں۔
آپ کی تحریر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ساہو کاروں نے اپنی ترقی کے ابتدائی دور میں ایک کے دس بنائے تھے۔ اب وہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔ روز ہر بنک ایک روپے کے بل پر دس روپے قرض دیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے بنک قرض اپنے نوٹوں کی شکل میں دیتے تھے اب چیک کی صورت میں دیتے ہیں۔ لیکن نوٹ اور چیک دونوں کی ماہیئت اور دونوں کی (Theory) ایک ہی ہے۔ دونوں بنک کے ذمہ واجب الادا رقوم کے ثبوت ہیں۔ چونکہ (Creation of Money) تخلیق زر کے طریقہ سے آپ بخوبی واقف ہیں اس لیے اسے دہرانا بیکار ہے۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری کم سمجھی کی بناء پر یا آپ کی عبارت کی ساخت کی بناء پر مجھے یہ خیال گزرا۔ آپ اس عمل کو بنکنگ کی تاریخ کا ایک پرانا باب سمجھتے ہیں۔ کیا میرا یہ خیال صحیح ہے؟
۳۔ تخلیق زر:
میرا تیسرا اور آخری سوال کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ فقہی استفسار ہے، کیا اسلامی بنکنگ میں تجارتی بنکوں کو تخلیق زر کی اجازت ہو گی یا نہیں؟… اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ ہو گی تو اعتباری نظام میں لچک کس طرح پیدا کی جائے گی۔
امید ہے کہ آپ میرے اعتراضات کے تشفی بخش جواب دے کر میرے ذہن کو اطمینان بخشیں گے۔
جواب: آپ کے سوالات کا مختصر جواب حاضر ہے۔ تفصیلی بحث کی فرصت نہیں۔ صرف اشارات پر اکتفا کرتا ہوں۔
آپ کا پہلا اعتراض دو مفروضوں پر مبنی ہے۔ ایک یہ کہ ’’صَرف کرو‘‘ کی تبلیغ فوراً یہ نتیجہ دکھا دے گی کہ لوگ بے تحاشا صَرف کرنا شروع کر دیں گے اور روپیہ بچانے یا کام پر لگانے کے سارے رجحانات بھی ختم ہو جائیں گے دوسرے یہ کہ صَرف کرو سے مراد اپنے اوپر ہی صَرف کرنا اور ضروریات سے گزر کر تعیشات پر صَرف کر دینا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں ہی باتیں درست نہیں ہیں۔ صَرف کرنے کا رجحان بتدریج بڑھے گا۔ اس دوران میں اگر ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کے لیے بھی کوشش جاری رہے تو اس کام کے لیے روپیہ ملتا رہے گا اور ان دونوں چیزوں کے متوازن نشوونما سے جیسے جیسے صنعتیں بڑھیں گی ان کے پیدا کردہ مال کی کھپت بھی بڑھتی اور صنعتوں کے مزید ترقی کا سامان لاتی چلی جائے گی۔ پھر صَرف کر دینے سے ہماری مراد صرف اپنی ہی ذات پر صَرف کرنا نہیں، بلکہ انفاق فی سبیل اللہ بھی ہے، اس لیے روپے کا ایک بڑا حصہ ان طبقوں میں جائے گا جن کی قوت خرید بحالت موجودہ بہت گھٹی ہوئی ہے اور وہ قوت خرید پیدا ہونے کے بعد اپنی ہر قسم کی ضروریات لینی شروع کر دیں گے جن سے تمام مختلف قسم کی صنعتوں کی آبیاری ہوگی۔ میرے ان دونوں بیانات کے پیچھے یہ بات بنیادی مفروضے کے طور پر کام کر رہی ہے کہ ملک کا نظام ایسے دانشمند لوگوں کے ہاتھوں چل رہا ہو، جو ایک طرف اخلاق عامہ کی اصلاح اور صحت مند ذہنیت کی تخلیق کر رہے ہوں اور دوسری طرف تمام ان ذرائع کو جو ملک کے اندر فراہم ہو سکتے ہوں، ترقی کے کاموں پر ہوشیاری کے ساتھ لگاتے چلے جارہے ہیں۔
بنکنگ کے سلسلے میں میں نے جو کچھ لکھا ہے، اس میں پہلے جدید بنکنگ کی ابتدا بتائی گئی ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ رفتہ رفتہ نشوونما پاکر اب یہ کاروبار کس طرح چل رہا ہے۔ اس میں میرے پیش نظر بجائے خود بنکنگ پر فنی بحث کرنا نہیں ہے، بلکہ دراصل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سسٹم میں قباحت کا پہلو کیا ہے اور اس قباحت کے پہلو کو اس سے خارج کر کے وہ اصل ضرورت کیسے پوری کی جاسکتی ہے جس کے لیے ایک بنکنگ سسٹم درکار ہے۔ اسی لیے میں زیادہ تفصیلی بحثوں میں نہیں گیا ہوں۔ آپ نے اپنا اعتراض اٹھاتے وقت اس بات کا لحاظ نہیں رکھا کہ میں نے بنکنگ کی پیدائش اور نشوونما کو تین مرحلوں میں بیان کیا ہے اور آپ نے ساری بحث کو ایک ہی مرحلہ بنا کر وہ باتیں جو ابتدائی دور سے متعلق تھیں موجودہ صورت حال کے متعلق سمجھ لی ہیں۔ نیز موجودہ صورتحال کو بھی آپ ایک مجرد مفروضے کی صورت میں پیش کر رہے ہیں، حالانکہ میں تیسرے مرحلہ کے عنوان سے جو بحث کر رہا ہوں وہ بنکوں کے اس عملی طریق کار سے تعلق رکھتی ہے جس پر اب فی الواقع کام چل رہا ہے۔ آپ کے پاس اگر کتاب وہاں موجود ہو تو میری ساری بحث کو اس تقسیم کے مطابق پڑھیں۔ جس طرح میں نے اپنے ذیلی عنوانات قائم کر کے کی ہے۔ پھر آپ کا یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ میں تخلیق زر (Creation of Money) کو بنکنگ کی تاریخ کا محض ایک پرانا باب سمجھ رہا ہوں میں جانتا ہوں کہ یہ عمل ابھی جاری ہے۔ لیکن میں نے تیسرے مرحلے کی بحث میں اس کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ جس مدعا کی خاطر میں ساری بحث کر رہا ہوں اس سے یہ چیز براہ راست متعلق نہیں ہے۔ جیسا کہ میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں، میری بحث کا مقصد بنکنگ پر فنی گفتگو نہیں ہے بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے اس کے نقصان دہ پہلوؤں کو واضح کر کے اصلاح کی شکل پیش کرنا ہے۔
آپ کے آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ تخلیق زر کی پشت پر اگر سود اور فریب نہ ہو تو اس میں کوئی حرمت کا پہلو نہیں ہے۔ اب یہ دیکھنا آپ لوگوں (یعنی اہل فن) کا کام ہے کہ معاشی ضرورت کے لیے ایک صحت مند تخلیق زر کا نظام کیسے قائم ہو سکتا ہے جو قباحت کے پہلوؤں سے پاک ہو۔
(ترجمان القرآن۔ شعبان، رمضان ۱۳۷۶ھ۔ جون ۱۹۵۷ء)