داڑھی پر مسلمانوں کے اعتراضات
سوال: ڈاڑھی کے بارے میں اکثر مسلمانوں کے سوچنے کا انداز یہ ہے کہ ڈاڑھی صرف علماء اور مولانا حضرات کو زیب دیتی ہے۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں عام طور پر ڈاڑھی رکھی جاتی تھی اس لیے اکثریت ڈاڑھی رکھنے میں عار نہ سمجھتی تھی۔ مگر اب انسان کے لباس و آراستگی میں کافی فرق واقع ہو چکا ہے۔ چہرے بغیر ڈاڑھی کے پررونق و بارعب نظر آتے ہیں۔ کیا ایسے حالات میں ہر مسلمان کے لیے ڈاڑھی رکھنا لازم ہے؟ براہِ کرم اس معاملے میں ذہن کو یکسو اور مطمئن فرمائیں۔
جواب: ڈاڑھی رکھنا نہ صرف یہ کہ فعلی سنت ہے بلکہ نبی ﷺ نے اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے اور مونڈنے سے منع کیا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ ڈاڑھی رکھنا صرف علماء اور مولانا حضرات کا کام ہے اور عام مسلمان مختار ہیں کہ چاہیں رکھیں یانہ رکھیں، بالکل غیر اسلامی اور غلط طرزِ فکر ہے۔ خصوصاً اگر آدمی ڈاڑھی مونڈنے کو پسند اور رکھنے کو ناپسند کرتا ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اس کے اندر اسلامی ذوق کے بجائے کافرانہ ذوق پرورش پا رہا ہے۔
یہ بڑی عجیب اور افسوسناک بات ہے کہ جس طرح مسلمانوں کو ان کے ہادی و رہبرﷺ نے ڈاڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے اسی طرح سکھوں کو بھی ان کے پیشوا نے اس کا حکم دیا تھا، ہمارے ملک میں انگریزی حکومت کے تحت دونوں رہے اور مغربی تعلیم دونوں نے پائی، لیکن سکھوں نے اپنے پیشوا کے حکم کی وہ بے احترامی نہیں کی جو مسلمانوں نے کی۔ درحقیقت یہ ایک بدترین حالت ہے جس پر مسلمانوں کو شرم آنی چاہیے، کجا کہ وہ بلاتکلف ان خیالات کا اظہار کریں کہ ڈاڑھی کے بغیر چہرے بارونق ہوتے ہیں اور ڈاڑھی رکھنے سے بے رونق ہو جاتے ہیں۔ آج فرنگیت زدہ مسلمان محض ڈاڑھی مونڈنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ڈاڑھی کو برا سمجھتے ہیں۔ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کے رکھنے والوں کی تذلیل و تضحیک کرتے ہیں۔ درس گاہوں میں ہر ممکن طریقے سے ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں انہوں نے بجائے خود ڈاڑھی کو نااہلی کا سرٹیفکیٹ قرار دے رکھا ہے اور بعض ملازمتوں میں تو اس کے رکھنے پر پابندیاں تک عائد ہیں۔ ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ڈاڑھی رکھنے سے آدمی چست اور جامہ زیب (Smart) نہیں رہتا۔ یہ سب کچھ ایک مسلم سوسائٹی اور مسلم ریاست میں ہو رہا ہے۔ لیکن سکھوں نے انگریزی حکومت کے زمانے میں اپنا یہ حق تسلیم کرا کے چھوڑا کہ وہ ڈاڑھی رکھ کر ہر شعبہ حیات میں داخل ہو سکتے ہیں اور بڑے سے بڑے مناصب پر پہنچ سکتے ہیں۔ فوج ایئرفورس اور سول کے کے کس شعبے میں وہ نہیں پہنچے اور کون سا بڑے سے بڑا عہدہ رہ گیا جو محض ڈاڑھی رکھنے کی وجہ سے ان کو نہ ملا ہو۔ کس میں یہ جرأت تھی کہ ان کو نااہل قرار دے سکے، یا ان پر (Smart) نہ ہونے کا فیصلہ صادر کر سکے، یا ان کو یہ حکم دے سکے کہ پہلے ڈاڑھی منڈواؤ پھر انہیں فلاں منصب پر ترقی مل سکے گی، جنہوں نے انگریزی دور میں کسی نہ کسی سکھ افسر کی ماتحتی کی ہوگی اور کبھی ان کو اس بات پر شرم نہ آئی کہ وہ ایک ڈاڑھی والے کی ماتحتی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی شخص کبھی یہ ہمت نہ کر سکا کہ سکھوں کی ڈاڑھی کا مذاق اڑانا تو درکنار، اس پراعتراض تک کر سکے۔ یہ سب کچھ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت تھا کہ سکھ مسلمانوں سے زیادہ کیرکٹر رکھتے ہیں، ان سے زیادہ اپنے شعائر کا احترام کرتے ہیں، ان سے زیادہ اپنے پیشوائے دین کی اطاعت کرتے ہیں، اور ان سے کم ذہنی غلامی میں مبتلا ہوئے ہیں۔ کیااس صریح علامت کم تری پر مسلمانوں کو کبھی شرم نہ آئے گی؟
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۸، عدد۱۔ اپریل ۱۹۶۲ء)