مسئلہ تقدیر
سوال: مجھے آپ کی تصنیف مسئلہ جبرو قدر کے مطالعہ کا موقع ملا۔ یہ بات بِلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آپ نے نہایت ہی علمی انداز میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جبرو قدر کے جو مبحث ملتے ہیں ان میں قطعاً کوئی تناقض نہیں اس معاملہ میں میری تو تشفی ہو چکی ہے مگر ذہن میں پھر بھی دو سوال ضرور ابھرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا انسان کی تقدیر پہلے سے طے ہے اور مستقبل میں جو واقعات و حوادث اسے پیش آنے والے ہیں وہ ازل سے ہی مقرر اور معین ہیں اور اب ان کے چہرے سے صرف نقاب اٹھانا باقی رہ گیا ہے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتحال انسان کے ارادہ عمل کی آزادی کے ساتھ کیسے میل کھاسکتی ہے؟
جواب: تقدیر سابق اور انسان کی آزادی ارادہ کے درمیان کس نوعیت کا تعلق ہے اور ان دونوں کے حدود کیا ہیں، یہ مسئلہ درحقیقت ہماری گرفت سے باہر ہے اور اس کے متعلق کوئی یقینی بات کہنے کی پوزیشن میں ہم نہیں ہیں۔ البتہ اصولی طور پر تین باتیں ایسی ہیں جو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں۔
ایک یہ کہ انسان اپنی تقدیر خود بنانے پر کلیتہً قادر نہیں ہے بلکہ جو طاقت پوری کائنات کا نظام چلا رہی ہے وہی انسان کی (بحیثیت نوع، بحیثیت قوم، بحیثیت گروہ اور بحیثیت فرد) تقدیر بناتی ہے۔ البتہ اس کا ایک حصہ (جس کی مقدار ہمیں معلوم نہیں) انسان کے دائرۂ اختیار میں بھی ہے۔
دوسرے یہ کہ اللہ کا علم سابق انسان کے تمام آنے والے حالات پر حاوی ہے۔ خدائی کا عظیم الشان کام ایک دن بھی نہیں چل سکتا اگر خدا اپنی کائنات میں ہونے والے واقعات سے بے خبر ہو اور کوئی واقعہ جب پیش آجائے تب ہی اسے خبر ہو۔
تیسرے یہ کہ اللہ کی قدرت نے انسان کو محدود پیمانے پر کچھ اختیارات دیے ہیں جن کے لیے آزادی اور ارادہ ناگزیر ہے اور اللہ کا علم خود اسی کی قدرت کے کسی فعل کو باطل نہیں کرتا۔
(ترجمان القرآن۔ جلد۵۳، عدد۲۔ نومبر ۱۹۵۹ء)