لفظ فطرت کا مفہوم
سوال: ایک لفظ ’’فطرت کا استعمال بہت عام ہے آخر فطرت ہے کیا چیز؟ کیا یہ انسان کی خود پیدا کردہ چیز ہے؟ یا فطرت انسان کی ان پیدائشی صلاحیتوں کا نام ہے جو وہ ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوتا ہے؟ کیا فطرت انسان کی اپنی جدوجہد سے اچھی یا بری بن سکتی ہے یا انسان اس معاملہ میں بالکل مجبور ہے؟ اگر نہیں تو کیا فطرت کے نقائص جدوجہد کے ذریعہ دور کیے جاسکتے ہیں؟ یہ سوال میری اپنی ذات سے متعلق ہے۔ میری فطرت انتہائی ناقص ساخت کی معلوم ہوتی ہے جس کے اثرات میری گھٹی میں سمائے ہوئے ہیں اور باوجود انتہائی کوششوں کے دور نہیں ہوتے۔ اس لیے آپ سے استدعا ہے کہ مجھے کوئی مشورہ دیں۔
جواب: فطرت کے اصل معنی ساخت کے ہیں۔ یعنی وہ بناوٹ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے ہر ایک جنس، نوع اور فرد کو عطا کی ہے اور وہ صلاحیتیں اور قوتیں جو اس نے ہر ایک کی ساخت میں رکھ دی ہیں۔ ایک فطرت بحیثیت مجموعی انسان کی ہے جو پوری نوع انسانی میں پائی جاتی ہے۔ ایک فطرت ہر ہر انسانی فرد کی جدا جدا بھی ہے جس سے ہر ایک کی الگ ایک مستقل شخصیت و انفرادیت تشکیل پاتی ہے۔ اور اسی فطرت میں وہ قوتیں بھی شامل ہیں جن کو استعمال کر کے اپنے آپ کو درست کرنے یا بگاڑنے، اور دوسروں کے مفید یا مضر اثرات کو قبول یا رد کرنے کی قدرت انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے نہ تو یہ کہنا درست ہے کہ وہ بالکل مجبور ہے اور کوئی قدرت اس کو سرے سے حاصل ہی نہیں ہے بات ان دونوں کے درمیان ہے۔ آپ کوشش کر کے اپنی بعض فطری کمزوریوں کی اصلاح بھی کر سکتے ہیں اور یہ اصلاح کی فطرت بھی آپ کی فطرت ہی کا ایک حصہ ہے۔ آپ نے اپنی جن کمزوریوں کا ذکر کیا ہے اپنے نفس کا جائزہ لے کر اچھی طرح ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اپنی قوت فکر و فہم، قوت تمیز اور قوت ارادی سے کام لے کر بتدریج ان کو گھٹانے اور اعتدال پر لانے کی کوشش کرتے چلے جائیں آپ کا یہ کہنا کہ میرے اندر یہ کمزوریاں ہیں خود اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ انہیں محسوس کرتے ہیں۔ اب جس وقت بھی ان میں سے کسی کمزوری کا ظہور شروع ہو، اور آپ کو محسوس ہو جائے کہ اس کمزوری نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے، اسی وقت اپنی ارادی قوت کو اس کی روک تھام کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیجیے اور اپنی قوت فکر و فہم اور قوت تمیز سے کام لے کر معلوم کیجیے کہ نقطہ اعتدال کون سا ہے، جس کی طرف اپنے آپ کو موڑنے اور آگے بڑھانے کے لیے آپ اپنی ارادی قوت استعمال کریں۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۲، عدد ۲۔ اگست ۱۹۵۹ء)