شیطان کی حقیقت

سوال: لفظ شیطان کی ماہیت کیا ہے جو قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور یوں بھی عام فہم زبان میں استعمال ہوتا ہے۔ کیا شیطان ہم انسانوں جیسی کوئی مخلوق ہے جو زندگی و موت کے حوادث سے دوچار ہوتی ہے اور جس کا سلسلہ توالد و تناسل کے ذریعہ قائم ہے؟ کیا یہ بھی ہماری طرح ہم آہنگی میں مربوط ہوتی ہے جس طرح سے ہم کھانے کمانے اور دیگر لوازماتِ زندگی میں مشغول رہتے ہیں؟ اس کے انسان کو دھوکا دینے کی کیا قدرت ہے؟ کیا یہ اعضائے جسمانی میں سرایت کی جانے کی قدرت رکھتی ہے اور اس طرح انسان کے اعصاب و محرکات پر قابو پالیتی ہے اور بالجبر اسے غلط راستے پر لگا دیتی ہے اگر ایسانہیں ہے تو پھر دھوکا کیسے دیتی ہے۔

یا شیطان عربی زبان کی اصطلاح میں محض ایک لفظ ہے جو ہر اس فرد کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو تخریبی پہلو اختیار کرلے۔ یا یہ انسان کی اس اندرونی جبلت کا نام ہے جسے قرآن نفس امارہ یا نفس لوامہ کے الفاظ سے تشبیہہ دیتا ہے۔ یعنی نفس جو غلط کاموں کی طرف اکساتا ہے۔ چونکہ شیطان کا حربہ بڑا خطرناک ہے ہوتا ہے اس لیے اس سے بچنے کی خاطر یہ سوال پوچھا جارہا ہے۔

جواب: شیطان کے متعلق میرے پاس کوئی ذریعہ معلومات قرآن اور حدیث کے سوا نہیں ہے۔ اس ذریعہ سے جو کچھ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ شیطان محض کسی قوت کا یا انسان ہی کے کسی رجحان کا نام نہیں ہے بلکہ وہ جنوں میں سے ہے اور جن ہماری طرح ایک مستقل مخلوق ہے جس کا ہر فرد، فرد انسان کی طرح ایک شخصیت Personlity رکھتا ہے۔ اس کی معیشت اور اس کے مشاغل اور توالد و تناسل وغیرہ کے متعلق ہم کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ اس کو ہمارے جسم پر قبضہ کرکے ہم سے بالجبر کوئی کام کرالینے کے اختیارات نہیں دیے گئے ہیں۔ وہ صرف ہمارے نفس کو ترغیب دینے، اکسانے اور برے کاموں کی طرف مائل کرنے یا وساوس اور شبہات ڈالنے کا کام کرسکتا ہے۔ اور ہم چاہیں تو اس کی ترغیبات کو رد کر کے اپنے ارادے سے ایک راہ اختیار کر سکتے ہیں۔

(ترجمان القرآن۔ جلد۵۲، عدد۵۔ اگست ۱۹۵۹ء)