جماعت اسلامی اور صوبہ سرحد کا ریفرنڈم
سوال: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے صوبہ سرحد میں اس سوال پر ریفرنڈم ہو رہا ہے کہ اس صوبہ کے لوگ تقسیم ہند کے بعد اپنے صوبے کو ہندوستان کے ساتھ شامل کرانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ وہ لوگ جو جماعت اسلامی پر اعتماد رکھتے ہیں، ہم سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کو اس استصواب میں رائے دینی چاہیے اور کس طرف سے رائے دینی چاہیے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس استصواب میں بھی ہماری پالیسی اسی طرح غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے جیسے مجالس قانون ساز کے سابق انتخابات میں رہی ہے ورنہ ہم پاکستان کے حق میں اگر ووٹ دیں گے تو یہ ووٹ آپ سے آپ اس نظام حکومت کے حق میں بھی شمار ہوگا جس پر پاکستان قائم ہو رہا ہے۔
جواب: استصواب رائے کا معاملہ مجالس قانون ساز کے انتخابات کے معاملے سے اصولاً مختلف ہے۔ استصواب رائے صرف اس امر سے متعلق ہے کہ تم کس ملک سے وابستہ رہنا چاہتے ہو۔ ہندوستان سے یا پاکستان سے؟ اس معاملے میں رائے دینا بالکل جائز ہے اور اس میں شرعی قباحت نہیں ہے۔لہٰذا جن جن علاقوں میں استصواب رائے کیا جا رہا ہے وہاں کے ارکان جماعت اسلامی کو اجازت ہے کہ اس میں رائے دیں۔
رہا یہ سوال کہ کس چیز کے حق میں رائے دیں تو اس معاملے میں جماعت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں عائد کی جاسکتی، کیونکہ جماعت اپنے ارکان کو صرف ان امور میں پابند کرتی ہے جو تحریک اسلامی کے اصول اور مقصد سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ معاملہ نہ اصولی ہے نہ مقصدی۔ اس لیے ارکان جماعت کواختیار ہے کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق جو رائے چاہیں دے دیں۔ البتہ شخصی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں خود صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ اس لیے کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہندو اور مسلم قومیت کی بنیاد پر ہو رہی ہے تو لامحالہ ہر اس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو اس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے۔
پاکستان کے حق میں ووٹ دینا لازماً اس نظام حکومت کے حق میں ووٹ دینے کا ہم معنی نہیں جو آئندہ یہاں قائم ہونے والا ہے۔ وہ نظام اگر فی الواقعی اسلامی ہوا جیسا کہ وعدہ کیا جاتا رہا ہے تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے اور اگر وہ غیراسلامی نظام ہوا تو ہم اسے تبدیل کرکے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کررہے ہیں۔
(سہ روزہ ’’کوثر‘‘ مورخہ 5 جولائی 1947ء)