اسلامی ریاست میں ذمی رعایا
سوال: ’’میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں۔سال گزشتہ صوبہ کی ہندو سبھا کا پروپیگنڈہ سیکریٹری منتخب ہوا تھا۔ میں حال ہی میں جناب کے نام سے شناسا ہوا ہوں۔ آپ کی چند کتابیں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ اول و سوئم، اسلام کا نظریہ سیاسی، اسلامی حکومت کسی طرح قائم ہوتی ہے، سلامتی کا راستہ وغیرہ دیکھی ہیں،جن کے مطالعہ سے اسلام کے متعلق میرا نظریہ قطعاً بدل گیا ہے اور میں ذاتی طور پر یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر یہ چیز کچھ عرصہ پہلے ہوگئی ہوتی تو ہندو مسلم کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا۔ جس حکومت الہٰیہ کی آپ دعوت دے رہے ہیں اس میں زندگی بسر کرنا قابل فخر ہوسکتا ہے مگر چند امور دریافت طلب ہیں۔ خط و کتابت کے علاوہ ضرورت ہوگی تو جناب کا نیاز بھی حاصل کروں گا۔
سب سے پہلی چیز جو دریافت طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہندوؤں کو حکومت الہٰیہ کے اندر کس درجہ میں رکھا جائے گا؟ آیا ان کو اہل کتاب کے حقوق دیے جائیں گے یا ذمی کے؟ اہل کتاب اور ذمی لوگوں کے حقوق کی تفصیل ان رسائل میں بھی نہیں ملتی۔ مجھے جہاں تک سندھ پر عربی حملہ کی تاریخ کا علم ہے، محمد بن قاسم اور اس کے جانشینوں نے سندھ کے ہندوؤں کو اہل کتاب کے حقوق دیے تھے۔ امید ہے کہ آپ اس معاملے میں تفصیلی طور پر اظہار خیال کریں۔ نیز یہ بھی فرمائیے کہ اہل کتاب اور ذمی کے حقوق میں کیا فرق ہے؟ کیا وہ ملک کے نظم ونسق میں برابر کے شریک ہو سکتے ہیں؟ کیا پولیس، فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوؤں کا حصہ ہوگا؟ اگر نہیں تو کیا ہندوؤں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن قبول کرنے کو تیار ہوں گے جو کہ آپ حکومت الہٰیہ میں ہندوؤں کو دیں گے؟
دوسری دریافت طلب چیز یہ ہے کہ کیا قرآن کے فوجداری اور دیوانی احکام مسلمانوں کی طرح ہندوؤں پر بھی حاوی ہوں گے کیا ہندوؤں کا قومی قانون (Personal Law) ہندوؤں پر نافذ ہوگا یا نہیں؟ میرا مدعا یہ ہے کہ ہندو اپنے قانون وراثت، مشترکہ فیملی سسٹم اور متبنٰی وغیرہ بنانے کے قواعد (مطابق منوشاشتر) کے مطابق زندگی بسر کریں گے یا نہیں؟
واضح رہے کہ یہ سوالات محض ایک متلاشی حق کی حیثیت سے پیش کیے جا رہے ہیں۔‘‘
جواب: میں آپ کے ان خیالات کی دل سے قدر کرتا ہوں جو آپ نے اپنے عنایت نامہ میں ظاہر کیے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم مسئلہ کو پیچیدہ اور ناقابل حل حد تک پیچیدہ بنا دینے کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اصول حق اور راستی کی بنیادوں پر مسائل زندگی حل کرنے کے بجائے شخصی، خاندانی، طبقاتی، نسلی اور قومی بنیادوں پر انہیں دیکھنے اور حل کرنے کی کوشش کی۔ اس کا انجام وہی کچھ ہونا چاہیے تھا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں اور اس بدقسمتی میں ہم آپ سب برابر کے شریک ہیں، کوئی بھی فائدے میں نہیں ہے۔
آپ نے جو سوالات کیے ہیں ان کے مختصر جوابات نمبر وار درج ذیل ہیں۔
۱۔اگر حکومت الہٰیہ قائم ہو تو اس کی حیثیت یہ نہ ہوگی کہ ایک قوم دوسری قوم یا اقوام پر حکمران ہے، بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہوگی کہ ملک پر ایک اصول کی حکومت قائم ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسی حکومت کو چلانے کی ذمہ داری باشندگان ملک میں سے وہی لوگ اٹھا سکیں گے جو اس اصول کو مانتے ہوں۔ دوسرے لوگ جو اس اصول کو نہ مانتے ہوں یا کم از کم اس پر مطمئن نہ ہوں، ان کو اس حکومت میں قدرتی طور پر ’’اہل ذمہ‘‘ کی حیثیت حاصل ہوگی، یعنی جن کی حفاظت کی ذمہ داری وہ لوگ لیتے ہیں جو اس اصولی حکومت کو چلانے والے ہیں۔
۲۔ ’’اہل کتاب‘‘ اور ’’عام اہل ذمہ‘‘ کے درمیان اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان نکاح کرسکتے ہیں اور دوسرے ذمیوں کی عورتوں سے نہیں کرسکتے۔ لیکن حقوق میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
۳۔ ذمیوں کے حقوق کے بارے میں تفصیلات تو میں اس خط میں نہیں دے سکتا، البتہ اصولی طور پر آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ذمی دو طرح کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جو اسلامی حکومت کا ذمہ قبول کرتے وقت کوئی معاہدہ کرے اور دوسرے وہ جو بغیر کسی معاہدے کے ذمہ میں داخل ہوں۔ پہلی قسم کے ذمیوں کے ساتھ تو وہی معاملہ کیا جائے گا جو معاہدہ میں طے ہوا ہو۔ رہے دوسری قسم کے ذمی، تو ان کا ذمی ہونا ہی اس بات کو مستلزم ہے کہ ہم ان کی جان اور مال اور آبرو کی اسی طرح حفاظت کرنے کے ذمہ دار ہیں جس طرح خود اپنی جان اور مال اور آبرو کی کریں گے۔ ان کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہوں گے۔ ان کے خون کی قیمت وہی ہوگی جو مسلمان کے خون کی ہے۔ ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہوگی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی۔ ان کو اپنی مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کا حق دیا جائے گا اور اسلامی تعلیم بہ جبر ان پر نہیں ٹھونسی جائے گی۔
ذمیوں کے متعلق اسلام کے دستوری قانون کی تفصیلات انشاء اللہ ہم ایک کتاب کی شکل میں الگ شائع کریں گے۔
۴۔ جہاں تک ذمیوں کے پرسنل لاء کا تعلق ہے وہ ان کی مذہبی آزادی کا ایک لازمی جز ہے۔اس لیے اسلامی حکومت ان کے قوانین نکاح و طلاق اور قوانین وراثت و تبنیت کو، اور ایسے ہی دوسرے تمام قوانین کو جو ملکی قانون(Law of the Land) سے نہ ٹکراتے ہوں، ان پر جاری کرے گی اور صرف ان امور میں ان کے پرسنل لا کے نفاذ کو برداشت نہ کرے گی جن میں ان کا برا اثر دوسروں پر پڑتا ہو۔ مثال کے طورپر اگر کوئی ذمہ قوم سود کو جائز رکھتی ہو تو ہم اس کو اسلامی حکومت میں سودی لین دین کی اجازت نہ دیں گے کیونکہ اس سے پورے ملک کی معاشی زندگی متاثر ہوتی ہے مثلاً اگر کوئی ذمی قوم زنا کو جائز رکھتی ہو تو ہم اسے اجازت نہ دیں گے کہ وہ اپنے طور پر بدکاری(Prostitution) کا کاروبار جاری رکھ سکے، کیونکہ یہ اخلاق انسانی کے مسلمات کے خلاف ہے اور یہ چیز ہمارے قانون تعزیرات(Criminal Law) سے بھی ٹکراتی ہے، جو ظاہر ہے کہ ملکی قانون بھی ہوگا۔ اسی پر آپ دوسرے امور کو قیاس کرسکتے ہیں۔
۵۔ آپ کا یہ سوال کہ آیا ذمی ملک کے نظم و نسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں۔ مثلاً پولیس، فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوؤں کا حصہ ہوگا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا ہندوؤں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن منظور کریں گے جو آپ ہندووں کو حکومت الہٰیہ میں دیں گے؟ یہ سوال میرے نزدیک دو غلط فہمیوں پر مبنی ہے ایک یہ کہ اصولی غیر قومی حکومت Ideoioglcal Non – Nation State کی صحیح حیثیت آپ نے اس میں ملحوظ نہیں رکھی ہے دوسرے یہ کہ کاروباری لین دین کی ذہنیت اس میں جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
جیسا کہ میں نمبر اول میں تصریح کرچکا ہوں کہ اصولی حکومت کو چلانے اور اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری صرف وہی لوگ اٹھاسکتے ہیں جو اس اصول پر یقین رکھتے ہوں۔ وہی اس کی روح کو سمجھ سکتے ہیں۔انہی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ پورے خلوص کے ساتھ اپنا دین و ایمان سمجھتے ہوئے اس ’’ریاست‘‘ کے کام کو چلائیں گے اور انہی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس ریاست کی حمایت کے لیے اگر ضرورت پڑے تو میدان جنگ میں قربانی دے سکیں گے۔ دوسرے لوگ جو اس اصول پر ایمان نہیں رکھتے اگر حکومت میں شریک کیے بھی جائیں گے تو نہ وہ اس کی اصولی اور اخلاقی روح کو سمجھ سکیں گے۔ نہ اس روح کے مطابق کام کرسکیں گے اور نہ ان کے اندر ان اصولوں کے لیے اخلاص ہوگا۔ جن پر اس حکومت کی عمارت قائم ہوگی۔سول محکموں میں اگر وہ کام کریں گے تو ان کے اندر ملازمانہ ذہنیت کار فرما ہوگی اور محض روزگار کی خاطر وہ اپنا وقت اور اپنی قابلیتیں بیچیں گے اور اگر وہ فوج میں جائیں گے تو ان کی حیثیت کرائے کے سپاہیوں (Mercenaries) جیسی ہوگی اور وہ ان اخلاقی مطالبات کو پورا نہ کرسکیں گے جو اسلامی حکومت اپنے مجاہدوں سے کرتی ہے اس لیے اصولاً اور اخلاقی اعتبار سے اسلامی حکومت کی پوزیشن اس معاملے میں یہ ہے کہ وہ فوج میں اہل ذمہ سے کوئی خدمت نہیں لیتی بلکہ اس کے برعکس فوجی حفاظت کا پورا پورا بار مسلمانوں پر ڈال دیتی ہے اور اہل ذمہ سے صرف ایک دفاعی ٹیکس لینے پر اکتفا کرتی ہے۔ لیکن یہ ٹیکس اور فوجی خدمت دونوں بیک وقت اہل ذمہ سے نہیں لیے جاسکتے۔ اگر اہل ذمہ بطور خود فوجی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں تو وہ ان سے قبول کرلی جائے گی اور اس صورت میں دفاعی ٹیکس ان سے نہ لیا جائے گا۔ رہے سول محکمے تو ان میں سے کلیدی مناصب (Key Positions) اور وہ عہدے جو پالیسی کے تعین و تحفظ سے تعلق رکھتے ہیں بہرحال اہل ذمہ کو نہیں دیے جاسکتے۔ البتہ کارکنوں کی حیثیت سے ذمیوں کی خدمات حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح جو اسمبلی شوریٰ کے لیے منتخب کی جائے گی اس میں بھی اہل ذمہ کو رکنیت یا رائے دہندگی کا حق نہیں ملے گا۔ البتہ ذمیوں کی الگ کونسلیں بنادی جائیں گی جو ان کی تہذیبی خود اختیاری کے انتظام کی دیکھ بھال بھی کریں گی اور اس کے علاوہ ملکی نظم و نسق کے متعلق اپنی خواہشات، اپنی ضروریات اور شکایات اور اپنی تجاویز کا اظہار بھی کرسکیں گی جن کا پورا پورا لحاظ اسلامی مجلس شوریٰ (Assembly) کرے گی۔
صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ حکومت الہٰیہ کسی قوم کا اجارہ نہیں ہے، جو بھی اس کے اصول کو تسلیم کرے وہ اس حکومت کو چلانے میں حصہ دار ہوسکتا ہے۔ خواہ وہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ۔ لیکن جو اس کے اصول کو تسلیم نہ کرے وہ خواہ مسلم زادہ ہی کیوں نہ ہو، حکومت کی محافظت (Protection) سے فائدہ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اس کے چلانے میں حصہ دار نہیں ہوسکتا۔
آپ کا یہ سوال کہ ’’کیا ہندو اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کی وہی پوزیشن قبول کروگے جو حکومت الہٰیہ میں ہندوؤں کودو گے؟ یہ سوال دراصل مسلم لیگ کے لیڈروں سے کیاجانا چاہیے تھا، کیونکہ لین دین کی باتیں وہی کرسکتے ہیں۔ ہم سے آپ پوچھیں گے توہم تو اس کا بے لاگ اصولی جواب دیں گے۔
جہاں حکومت قائم کرنے کے اختیارات ہندوؤں کو حاصل ہوں وہاں آپ اصولاً دو ہی طرح کی حکومتیں قائم کرسکتے ہیں۔
یا ایسی حکومت جو ہندو مذہب کی بنیاد پر قائم ہو۔
یا پھر ایسی حکومت جو وطنی قومیت کی بنیاد پر ہو۔
پہلی صورت میں آپ کے لیے یہ کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے حقوق حکومت الہٰیہ میں ہندوؤں کو ملیں گے ویسے ہی حقوق ہم ’’رام راج‘‘ میں مسلمانوں کو دے دیں گے۔ بلکہ آپ کو اس معاملے میں اگر کوئی رہنمائی ہندو مذہب میں ملتی ہے تو بے کم و کاست اسی پر عمل کریں، قطع نظر اس سے کہ دوسرے کس طرح عمل کرتے ہیں۔ اگر آپ کا معاملہ ہمارے معاملہ سے بہتر ہوگا تو اخلاق کے میدان میں آپ ہم پر فتح پالیں گے۔ اور بعید نہیں کہ ایک روز ہماری حکومت الہٰیہ آپ کے رام راج میں تبدیل ہوجائے۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو ظاہر ہے کہ دیر یا سویر نتیجہ بھی برعکس نکل کر ہی رہے گا۔
رہی دوسری صورت کہ آپ کی حکومت وطنی قومیت کی بنیاد پر قائم ہو تواس صورت میں بھی آپ کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ یا تو جمہوری (Democratic) اصول اختیار کریں اور مسلمانوں کو ان کی تعداد کے لحاظ سے حصہ دیں۔ یا پھر صاف صاف کہہ دیں کہ یہ ہندو قوم کی حکومت ہے اور مسلمانوں کو اس میں ایک مغلوب قوم (Subject Nation) کی حیثیت سے رہنا ہوگا۔
ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت پر بھی آپ چاہیں مسلمانوں سے معاملہ کریں۔ بہرحال آپ کے برتاؤ کو دیکھ کر اسلامی حکومت ان اصولوں میں ذرہ برابر بھی کوئی تغیر نہ کرے گی جو ذمیوں سے معاملہ کرنے کے لیے قرآن و حدیث میں مقرر کر دیے گئے ہیں۔ آپ چاہیں تو اپنی قومی ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام کردیں اور ایک مسلمان بچے تک کو زندہ نہ چھوڑیں۔ اسلامی ریاست میں اس کا انتقام لینے کے لیے کسی ذمی کا بال تک بیکا نہ کیا جائے گا۔ اس کے برعکس آپ کا جی چاہے تو ہندو ریاست میں صدر جمہوریہ اور وزیراعظم اور کمانڈر انچیف سب ہی کچھ مسلمان باشندوں کو بنا دیں۔ بہرحال اس کے جواب میں کوئی ایک ذمہ بھی کسی ایسی پوزیشن پر مقرر نہیں کیا جائے گا جو اسلامی ریاست کی پالیسی کی شکل اور سمت معین کرنے میں دخل رکھتی ہو۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال 63 ھ ۔ جولائی، اکتوبر 44 ء)