کاروبار میں اسلامی اصول اخلاق کا استعمال
سوال: ہم نے غلہ کی ایک دکان کھول رکھی ہے۔ موجودہ کنٹرول سسٹم کے تحت شہروں میں جمیعت ہائے تاجران غلہ Food Grain Association)) قائم ہیں۔ ان جمعیتوں کو حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ’’فوڈ گرین سنڈیکیٹس‘‘ بنائیں۔ گورنمنٹ ہر سنڈیکیٹ کو اشیائے خوردنی کے پرمٹ دے گی اور آئندہ غلہ کا سارا کاروبار صرف سنڈیکیٹ ہی کی معرفت ہوا کرے گا۔ نفع نقصان سب حصہ داروں پر تقسیم ہو جایا کرے گا۔ چنانچہ ہمارے شہر میں ایسی سنڈیکیٹ بن چکی ہے۔ پورے شہر کے غلے کا کاروبار کئی لاکھ کا سرمایہ چاہتا ہے اور پورا چونکہ سنڈیکیٹ کے شرکا فراہم نہیں کرسکتے۔ لہٰذا بینک سے سودی قرض لیں گے اور اس سودی قرض کی غلاظت سے جملہ شرکا کے ساتھ ہمارا دامن بھی آلودہ ہوگا۔ ہم نے اس سے بچنے کے لیے یہ صورت سوچی ہے ہم اپنے حصہ کا پورا سرمایہ نقد ادا کردیں اور بینک کے قرض میں حصہ دار نہ ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر پورے کاروبار کو سنڈیکیٹ سنبھالنے کے قابل نہ ہوئی تو شاید سنڈیکیٹ ایسے سوداگر مقرر کردے جنہیں ایک چوتھائی سرمایہ سنڈیکیٹ دے گی اور بقیہ تین چوتھائی سوداگر اپنی گرہ سے لگائے گا اور اسے اختیار ہوگا کہ وہ ضروری سرمایہ بینک سے قرض لے، جس کا سود سنڈیکیٹ ادا کرے گی۔اگر یہ صورت ہوئی تو ہمارا ارادہ ہے کہ ہم پورے کا پورا سرمایہ اپنی گرہ سے لگائیں گے۔اور بینک کے قرض اور سود سے اپنا کاروبار گندہ نہ ہونے دیں گے۔ ہماری ان دونوں تجویزوں کو سنڈیکیٹ نے قبول کرلیا ہے کہ ان میں جو شکل بھی ہم چاہیں اختیار کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں جتنے لوگوں سے ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی اور ہمیں اپنے نصب العین کو ان پر واضح کرنے کا موقع ملا، وہ سب ہمارے اصول کی بہت قدر کررہے ہیں۔ تمام بیوپاری ہندو ہیں اور بہت حیران ہیں کہ یہ کیسے مسلمان ہیں کہ اپنے اصول کی خاطر ہر فائدہ کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔ ان پر ہمارے اس رویہ کا اخلاقی اثر اس درجہ گہرا ہوا ہے کہ اب وہ ہر کام میں ہم سے مشورہ طلب کرتے ہیں اور ہم پر پورا اعتماد کرتے ہیں۔ ایک تازہ مثال یہ ہے کہ حال میں ایک جگہ سے دس ہزار بورے گندم خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ہندو بیوپاری کو خریداری کے لیے مقرر کیا گیا ۔ مگر ایسوسی ایشن کا اصرار تھا کہ اس کے ساتھ ہم میں سے بھی کوئی جائے ہم نے لاکھ کہا کہ ہمیں کاروبار کا کچھ زیادہ تجربہ نہیں ہے مگر ان کی ضد قائم رہی۔ آخر راقم الحروف کا جانا طے ہوگیا۔ بعد میں جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان میں سے ایک شخص نے صاف کہا کہ اور جو کوئی بھی جائے گا کسی نہ کسی قسم کی بے ایمانی کرے گا مگر آپ لوگوں میں سے جو گیا وہ نہ خود بے ایمانی کرے گا نہ دوسرے کو کرنے دے گا۔
اس سلسلہ میں حسب ذیل امور کے متعلق آپ کی ہدایت درکار ہے:۔
(۱) سردست تو ہمار اور ان غیر مسلم تاجروں کا ساتھ نبھ رہا ہے لیکن آگے چل کر اگر یہ ساتھ نہ نبھ سکا تو پھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم اپنی ایک الگ ’’مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن‘‘ بنالیں اور خدا کی نافرمانی سے ہر ممکن حد تک بچ کر اپنا کاروبار چلائیں؟
(۲) ہندو مسلم مخاصمت کی وجہ سے یہاں کی فضا حد درجہ خراب ہے اور چونکہ مارکیٹ پر ہندوؤں کا قبضہ ہے اس لیے مسلمانوں کو ضروریات زندگی حاصل کرنے میں تکلیف پیش آرہی ہے۔ ان حالات میں ایک مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن قائم کی گئی ہے۔ جس کا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے حصہ کا پورا کوٹا اسی کو ملے۔ ہمیں بعض اصحاب مشورہ دے رہے ہیں کہ تم بھی اس میں شامل ہو جاؤ۔ مگر ہمیں اس کے اندر قوم پرستانہ کشمکش کی بو محسوس ہوتی ہے اور اسی بنا پر ہم اس سے پرہیز کر رہے ہیں۔ کیا یہ رویہ ہمارے لیے مناسب ہے؟
(۳) بعض ہندو حضرات جو ہمارے اصول و اخلاق کے قدر دان ہیں ہمیں بہ اخلاص یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر بینک سے آپ لوگ معاملہ نہ کریں گے تو سنڈیکیٹ کے ساتھ آپ کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا بلکہ علیحدہ ہو کر بھی آپ کاروبار نہ چلاسکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسی صورت پیش آجائے تو ہم کیا کریں؟ کیا اضطراراً بینک سے معاملہ کرلیں؟
(۴) پنجاب انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فیکٹری لگانے والوں کو سالانہ گرانٹ ملتی ہے۔ اس وجہ سے کہ گورنمنٹ انڈسٹری کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ ہمارے ہاں کھڈیوں کا کارخانہ بھی ہے۔ ایک دوست کا مشورہ ہے کہ ہم بھی حکومت سے گرانٹ کی درخواست کریں مگر ہمیں شک ہے کہ ارکان جماعت ہوتے ہوئے ہم ایسا کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: آپ نے غیر مسلموں کے ساتھ شرکت میں سود سے بچنے کا جو اہتمام کیا ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیے۔ اگرچہ اس میں بہت سے نقصانات کے اندیشے آپ کے سامنے آئیں گے اور بہت سے فائدے بھی ہاتھ سے جاتے محسوس ہوں گے مگر مآلِ کار میں اس کے اتنے فائدے ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے نہ صرف آپ کی عاقبت درست ہوگی بلکہ ان شاء اللہ بہت سے دوسرے بندگان خدا کو بھی ہدایت نصیب ہوگی۔ آپ نے خود بھی چند ہی روز کے تجربہ سے دیکھ لیا ہے کہ اگر مسلمان ٹھیک ٹھیک اسلامی اصولوں پر کام کرے تو اس کا کیسا زبردست اخلاقی اثر اس کے پورے ماحول پر چھا جاتا ہے۔
آپ نے جو سوالات کیے ہیں ان کے جوابات حسب ذیل ہیں:
(۱) اگر کبھی غیر مسلم شرکا سے آپ کا ساتھ نہ نبھ سکے اور آپ کو اپنی الگ تجارتی جمعیت بنانی پڑے تو اس کا نام ’’مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن‘‘ رکھنے کے بجائے (Fair Dealers Association) یا اسی طرح کا کوئی دوسرا اردو یا انگریزی نام رکھیے اور اس میں شرکت کے لیے انصاف و دیانت کے چند ایسے اصول مقرر کیجیے جن کو دیکھ کر ہر شخص پکار اٹھے کہ یہی انصاف ہے اور اسی کا نام ایمانداری ہے۔مثلاً یہ کہ سود نہ لیں گے، سٹہ نہ کریں گے، ایک مقرر فیصدی سے زیادہ منافع نہ لیں گے، جعلی کھاتے نہ رکھیں گے، جھوٹ نہ بولیں گے، خریدار کو مال کا حسن و قبح ٹھیک ٹھیک بتادیں گے، ناپ تول میں کمی نہ کریں گے وغیرہ۔ پھر اس کا دروازہ ہندو، مسلمان، سکھ، سب کے لیے کھلا رکھیے اور اعلان کر دیجیے کہ ان شرائط پر جو شخص بھی ہمارے ساتھ شریک ہونا چاہے، ہوسکتا ہے۔
(۲) ہندوؤں اور مسلمانوں کی قومی کشمکش سے اپنے آپ کو قطعاً بالاتر رکھیے۔ اگر کبھی غیر مسلموں سے آپ کو تجارتی شرکت توڑنی پڑے بھی تو اسے قومی جھگڑے کی بنا پر نہ توڑئیے بلکہ اصول کی لڑائی لڑ کر توڑئیے۔ اور ان سے الگ ہو کر جو تجارتی جمعیت آپ بنائیں اسے بھی کسی ایک قوم کے تاجروں تک محدود نہ رکھیے بلکہ چند معروف اصولوں پر قائم کرکے صلائے عام کیجیے کہ جوان اصولوں کو قبول کرے وہ ہمارے ساتھ شریک ہو سکتا ہے۔ آپ کی تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قوم کے لوگوں کے ساتھ آپ کا زیادہ سے زیادہ سابقہ اور معاملہ پیش آئے، تاکہ آپ اپنی بجائے اصولی دعوت کو اور اپنے اخلاقی اثرات کو ہر طرف بے روک ٹوک پھیلا سکیں۔ قوم پرستانہ کشاکش میں اپنا دامن آپ نے الجھالیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گویا آپ نے ہر چار دروازوں میں سے تین دورازے اپنے اوپر خود بند کر لیے۔
(۳) اگر کسی وقت آپ دیکھیں کہ سودی معاملات کیے بغیر بڑے پیمانے کی تجارت نہیں کی جاسکتی توبجائے اس کہ آپ ’’اضطرار‘‘ کے بہانے سودی معاملات کریں بڑے پیمانے کی تجارت چھوڑ دیجیے اور صرف اس تھوڑی سی بقدر کفاف آمدنی پر قناعت کیجیے جو اللہ حلال ذرائع سے آپ کو دے۔ آپ کا یہ سوال کہ ’’کیا ہم اضطراراً بینک سے معاملہ کر لیں؟‘‘ بڑا ہی عجیب سوال ہے۔ کیا واقعی بہت کمانے کے لیے بھی آدمی کبھی مجبور و مضطر ہو سکتا ہے؟ کوئی بھوکا مر رہا ہو تو بے شک وہ کہہ سکتا ہے کہ میں حرام کے چند لقمے حاصل کرنے پر مجبور ہوں، مگر کھاتا آدمی کہے کہ حرام کے ہزاروں روپے کمانے پر مجبور ہوں تو یہ بالکل ایک نرالی قسم کی مجبوری ہوگی۔ ایسے حیلوں سے حرام کو اپنے لیے حلال کرنے کا تصور بھی آپ کے ذہن میں کبھی نہ آنا چاہیے۔پھر ذرا یہ بھی سوچیے کہ اپنے اصولوں کی اس قدر شورا شوری کے بعد آخر کار آپ نے یہ بے نمکی دکھائی کہ ذرا سے تجارتی مفاد کو نقصان پہنچتے دیکھ کر بینک کے دروازے پر توبہ توڑ بیٹھے تو آج تک آپ نے جو کچھ کیا ہے اس سب پر کس بری طرح پانی پھر جائے گا۔ یہ حرکت کرکے تو گویا آپ خود ہی یہ ثابت کردیں گے کہ اسلام کے اصول صرف بیان کرنے کے لیے ہیں، برتنے کے لیے نہیں ہیں۔ جو ہندو دوست آپ کو یہ مشورہ دے رہے ہیں ان کو جواب دیجیے کہ آپ کی ہمدردی کا بہت شکریہ، مگر بجائے اس کے کہ ہم آپ کا مشورہ قبول کرکے اپنے اصولوں کے خلاف سودی کاروبار میں مبتلا ہوں، ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر ایک مرتبہ آپ غیر سودی اصولوں پر لین دین کرنے کا تجربہ کر دیکھیں۔ اس تجربے سے آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ یہ چیز ہمارے اور آپ کے اور سب لوگوں کے لیے سودی کاروبار سے بہتر ہے۔ اگرآپ تعاون کرنے پر آمادہ ہوں تو ہم ایک غیر سودی بینک قائم کرکے اور کامیابی کے ساتھ اس کو چلا کر عملاً اس کا فائدہ آپ کو د یکھا سکتے ہیں۔
(۴) حکومت سے گرانٹ کی درخواست آپ رکن جماعت ہوتے ہوئے نہیں کر سکتے۔ البتہ اگر حکومت آپ سے یہ درخواست کرے کہ آپ اس کی گرانٹ قبول کرلیں اور اس بات کا اطمینان دلائے کہ وہ یہ گرانٹ محض ملکی صنعت کی ترقی کے لیے دینا چاہتی ہے، آپ کا ضمیر خریدنا اس کے پیش نظر نہیں ہے تو اس درخواست پر ہمدردانہ غور کیا جاسکتا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ شعبان65 ھ، جولائی 46ء)