بِکری ٹیکس
سوال: میں بزازی کا کاروبار کرتا ہوں۔ یکم اپریل 48ء سے ہم پر بکری ٹیکس لگایا گیا ہے اور ہمیں اختیار دیا گیا ہے کہ یہ ٹیکس اپنے گاہکوں سے وصول کر لیں۔ لیکن عام دکان دار نہ تو گاہکوں سے یہ ٹیکس وصول کرتے ہیں اور نہ خود ادا کرتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اپنی روزمرہ کی اصل فروخت کا حساب وہ اپنے باقاعدہ رجسٹروں میں درج ہی نہیں کرتے۔ حکومت کے کارندوں کو وہ اپنی فرضی رجسٹر دکھاتے ہیں اور جب ان کے رجسٹروں پر کسی شک کا اظہار کیا جاتا ہے تو رشوت سے منہ بند کردیتے ہیں۔ دوسرے دکانداروں کے لیے تو یہ جعل اور رشوت آسان ہے مگر ایک ایمان دار تاجر کیا کرے؟ وہ خریداروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے تو اس کا مال فروخت نہیں ہوتا کیوں کہ پاس ہی ایک ایسا دکان دار بیٹھا ہے جو ٹیکس لیے بغیر اس کے ہاتھ مال فروخت کرتا ہے۔ اور اگر وہ خریدار سے ٹیکس وصول نہیں کرتا تو اسے اپنے منافع میں سے یہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس صورت میں بسا اوقات اسے کچھ نہیں بچتا بلکہ بعض چیزوں میں تو نفع اتنا کم ہوتا ہے کہ پورا نفع دے دینے کے بعد تاجر کو کچھ اپنی گرہ سے بھی دینا پڑجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم تجارت چھوڑ دیں یا فرضی حسابات رکھنے شروع کردیں؟
مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جو صحیح حسابات رکھتے ہیں انہیں بھی سرکاری کارندے فرضی سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ جہاں99 فیصدی تاجروں کے حسابات فرضی ہوں وہاں ایک فیصدی کے متعلق انہیں یقین نہیں آتا کہ اس کا حساب صحیح ہوگا۔ اس لیے وہ اپنے قاعدے کے مطابق ہماری بکری کا اندازہ بھی زیادہ لگا کر ہم ے سے زیادہ ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اب کیا ہم اس سے بچنے کے لیے انہیں رشوت دیں؟ یا ایمان داری کی پاداش میں زائد ٹیکس کا جرمانہ بھی ادا کردیں؟
جواب: یہ سوال دراصل ہم سے نہیں بلکہ حکومت سے کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کی پیدا کی ہوئی مشکلات کا حل خود اسی کو تجویز کرنا چاہیے۔ اس نوعیت کے سوالات اگر اس کے پاس بھیجے جائیں تو کیا عجب کہ ذمہ داران حکومت کا ضمیر انہیں سوچنے پر مجبور کردے کہ ان کے طریق کار میں آخر کیا غلطی ہے جس کی وجہ سے ساری قوم کو جھوٹ، خیانت اور بے ایمانی کی تربیت مل رہی ہے۔
پھر یہ بھی ایک قابل غور معاملہ ہے کہ پہلے تو ایک بیرونی قوم اپنے مفاد کے لیے ہم پر حکومت کر رہی تھی اس لیے لوگوں کو نہ اس پر اعتماد، نہ اس سے کوئی دلچسپی اور محبت تھی، اور نہ اس کا کوئی حق وہ اپنے اوپر مانتے تھے۔ مگر اب تو وہ پاکستان بن چکا ہے جس کے عشق میں ساری قوم برسوں سے دیوانی ہو رہی تھی۔ اور اس کا انتظام وہ لوگ سنبھالے ہوئے ہیں جو قوم کے محبوب رہنما تھے۔ اب کیا بات ہے کہ اسی پاکستان کا نظم و نسق چلانے اور اسے مستحکم کرنے اور ترقی دینے کے لیے جب ٹیکس لگائے جاتے ہیں تو قوم کی بہت بڑی اکثریت ان کو ادا کرنے سے جی چراتی ہے؟ کیا اس کی وجہ محض قوم کی بے حسی اور نالائقی ہے؟ یا اس سے کچھ ہمارے سربراہ کاروں کی اپنی کوتاہیوں کا بھی دخل ہے؟ اگر ٹیکس دینے والا یہ دیکھتا کہ پاکستان کے لیے جس ایثار و قربانی کا اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے اسی ایثار سے حکومت کے کار فرما حضرات خود بھی کام لے رہے ہیں اور اگر ٹیکس دینے والے کویہ اطمینان ہوتا کہ جو کچھ اس سے لیا جا رہا ہے وہ واقعی اس کی اور ملک کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے نہ کہ چند لوگوں کی عیاشیوں پر، تو کیا پھر بھی وہ اپنی حکومت کے مصارف میں حصہ لینے سے یونہی گریز کرتا؟
سائل کو اور اس جیسے تمام ایماندار تاجروں کو میرا مشورہ ہے کہ اول تو وہ حکومت کے ٹیکس پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر یہ بالکل ناممکن ہوجائے اور اس طرح ان کے لیے اپنا پیٹ پالنا بھی مشکل ہوجائے تو پھر صرف اس حد تک عام دکانداروں کی تقلید کرسکتے ہیں کہ اپنی بکری کا ایک حصہ رجسٹروں میں درج کریں اور ایک حصہ نہ کریں۔ مگر سرکاری کارندوں کے سامنے انہیں جھوٹ نہ بولنا چاہیے، نہ ان کو رشوت دینی چاہیے۔ بلکہ ان سے صاف کہنا چاہیے کہ ہمارے حسابات ادھورے ہیں اور ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ آپ ہم پر مقدمہ چلا دیں۔ پھر اگر مقدمہ چلایا جائے تو انہیں عدالت کے سامنے بازار کی تمام صورت حال صاف صاف بیان کردینی چاہیے اور یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ ان حالات نے ایک ایماندار تاجر کے لیے روٹی کمانا کس قدر دشوار کردیا ہے۔ کاش کچھ صاحب ہمت لوگ ایسے ہوں جو اس طریقے پر عمل کر گزریں۔ اس طرح قوم کے ضمیر کو یہ احساس دلانا آسان ہوگا کہ موجودہ غلط نظام حکومت کی وجہ سے کس طرح ایمانداری، خطا اور بے ایمانی صواب بن کر رہ گئی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ شوال 67ھ ۔ اگست 48ء)