سرکاری نرخ بندی کے سلسلہ میں مزید ایک سوال
سوال: آڑھت کے سلسلے میں ہم کو گندم خریدنی پڑتی ہے۔ گندم کی خریدو فروخت کے لیے اس وقت کنٹرول ریٹ مقرر ہے، لیکن اس مقررہ نرخ پر گندم ملنی ممکن نہیں ہے۔ منڈی کے تمام بیوپاری قدرے گراں نرخ سے خریدو فروخت کرتے ہیں مگر رجسٹروں میں اندراج کنٹرول ریٹ کے مطابق کرتے ہیں۔ دکاندار خریدو فروخت میں کنٹرول ریٹ سے زائد جو قیمت لیتا ہے اس کا حساب دکاندار کے کھاتوں سے نہیں بلکہ اسکی جیب سے متعلق ہوتا ہے۔ اب آپ فرمائیے کہ کیا اپنے استعمال کے لیے اور تجارت کے لیے اس ڈھنگ پر گندم خریدنا جائز ہے؟ نیز یہ امر بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر اس قسم کا کوئی معاملہ عدالت کی گرفت میں آجائے جس کا ہر وقت امکان ہے، تو کیا یہ جائز ہوگا کہ عدالت میں بھی کھاتے کے جھوٹے اندراجات کے مطابق بیان دیا جائے؟ واضح رہے کہ سچ بولنے سے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت عدالت مقررہ سزا نافذ کردے گی۔
جواب: ان حالات میں آپ اپنے استعمال کے لیے تو بہرحال گیہوں خرید ہی سکتے ہیں۔کیونکہ اس صورت میں حساب رکھنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔البتہ دکان کے معاملے میں ایک قباحت یہ ہے کہ جس بھاؤ سے فی الواقع مال خریدا جاتا ہے اس کا کھاتے میں اندراج پُرخطر بنادیا گیا ہے۔ اگر اس کاروبار سے بچنے کی صورت ہو تو بہتر ہے اور اگر آپ کے لیے بس یہی ایک ذریعہ معاش ہو، اور اس کے سوا کسی دوسرے کام سے رزق پیدا کرنا آپ کے لیے ممکن نہ ہو، تو پھر جائز طور پر جو طریق کار آپ اختیار کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے حسابات اپنے واقعی لین دین کے مطابق ہی رکھیں، اور جب گرفتار کیے جائیں تو عدالت میں بالکل ٹھیک ٹھیک بیان دے دیں۔ عدالت سے صاف کہیے کہ اس حکومت نے اپنی غلط پالیسی سے پورے ملک کو جھوٹا بننے پر مجبور کردیا ہے۔ کنٹرول کیا تھا تو کنٹرول ریٹ پر اشیاء ضرورت کی فراہمی کا ذمہ بھی اس کو لینا چاہیے تھا۔ لیکن اس نے یہ انتظام تو کیا نہیں اور نرخ مقرر کردیے۔ اب اگر ہم اس کے مقرر کیے ہوئے نرخوں کے مطابق مال خریدنے پر اسرار کرتے ہیں تو بازار سے ضروریات زندگی فراہم کرنا غیر ممکن ہے۔ کنٹرول ریٹ کا نام لیا جائے تو بائع سرے سے مال ہونے کا ہی انکار کردیتا ہے اور بلیک مارکیٹ سے اپنی ضروریات پوری کی جائے تو آپ گلہ دبانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ بہرحال ہم نے جتنے میں مال خریدا ہے ہم تو وہی ظاہر کریں گے۔ آپ کے قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنے کی وہ پالیسی ہم اختیار نہیں کرسکتے جو ملک کے لاکھوں کروڑوں باشندوں نے مجبوراً اختیار کر رکھی ہے۔ آپ کا انصاف اگر ہمیں مجرم سمجھتا ہے تو ضرور سزا دیجیے۔ مگر انصاف کے جن اصولوں سے انسانی عقل عام واقف ہے ان کی رو سے کنٹرول آرڈی نینس جاری کرنے والے بزرگ سے لے کر نیچے تک وہ سارا عملہ اصل مجرم ہے جو ان احکام کو نافذ کر رہا ہے اور جس کی زبردستی سے سارا ملک جھوٹ اور بے ایمانی کے طریقے اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الثانی65ھ ، مارچ 46)