سرکاری نرخ بندی پر چند سوالات
سوال: حکومت ایک جماعت کو کچھ اشیا ارزاں قیمت پر مہیا کرتی ہے دوسری جماعت کے افراد اس رعایت سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ پھر کیا موخرالذکر طبقے کا کوئی فرد پہلی جماعت کے کسی فرد کے ذریعہ حکومت کی اس رعایت سے استفادہ کرسکتا ہے؟ مثلاً مروت یا دباؤ سے رعایت پانے والی جماعت کا کوئی فرد محروم رعایت جماعت کے کسی فرد کو کوئی چیز اپنے نام سے کم قیمت پر خرید کر دے سکتا ہے؟ یا اس کی کسی پرانی چیز کو نئی چیز سے بدلوانے کا شرعاً مجاز ہے؟
جواب: آپ نے جس معاملہ کا ذکرکیا ہے وہ دراصل دو مختلف پہلو رکھتا ہے جن کا حکم الگ الگ ہے۔
اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ کسی خاص گروہ کے لیے نرخوں میں جو رعایت کی گئی ہے اس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ یہ بات حکومت کے قانون کی رو سے ناجائز ہو تو ہو، اخلاقاً اس میں مجھے کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ درحقیقت اس وقت قیمتوں کا چڑھاؤ کسی اصل گرانی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک مصنوعی چڑھاؤ ہے جو حکومت اور ملک کے سرمایہ دار طبقے نے بالکل ارادۃً پیدا کیا ہے۔ عام باشندے اس گرانی سے خواہ مخواہ مبتلائے مصیبت کردیے گئے ہیں۔بعض خاص گروہوں کے ساتھ جو رعایت کی جارہی ہے۔ درحقیقت تمام باشندگان ملک اس کے مستحق تھے۔ لیکن حکومت نے ملک میں عام گرانی پیدا کرکے اپنے خاص خدمات انجام دینے والوں کے لیے کچھ رعاتیں اس غرض سے رکھ دی ہیں کہ ان رعایتوں کے لالچ سے لوگوں میں ان خدمات کی طرف میلان پیدا ہو۔ اور جن خادموں کے ساتھ یہ رعایات کی گئی ہیں۔ وہ حکومت کے احسان مند ہوں۔ یہ غرض بجائے خود ناجائز ہے اس لیے اگر کوئی اس بندش میں رخنہ پیدا کرے تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ کسی اخلاقی قانون کی خلاف ورزی کا مجرم ہوگا۔تاہم زبردستی کا قانون ایک الگ چیز ہے جس کے لیے کسی اخلاقی بنیاد کی ضرورت نہیں۔
معاملہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پرانی چیز دے کر کسی خفیہ طریقہ سے نئی چیز اس کے بدلے میں حاصل کرلی جائے۔ یہ البتہ ایک خلاف اخلاق فعل ہے جس سے ہر ایماندار آدمی کو اجتناب کرنا چاہیے۔
سوال: آج کل کنٹرول کا زمانہ ہے۔ مگر کوئی مال دکاندار کو کنٹرول نرخ پر دستیاب نہیں ہوتا۔ وہ چور بازار (Black Market) سے مال خرید کر گاہکوں کو سپلائی کرتا ہے۔یہ ظاہر ہے کہ ایسے مال کو کنٹرول ریٹ پر بیچنے میں اسے خسارہ ہوتا ہے۔ لامحالہ وہ زیادہ نرخ لگاتا ہے۔ مگر بعض لوگ اس خریدو فروخت کو بے ایمانی اور فریب قرار دیتے ہیں اور پولیس بھی اس پرگرفت کرتی ہے۔ اس باب میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: اخلاقی حیثیت سے حکومت کو تسعیر (نرخ بندی) (Price Control) کرنے کا اس وقت تک کوئی حق نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنی مقرر کردہ قیمتوں پو لوگوں کو مال دلوانے کا انتظام نہ کرے۔ اس چیز کا انتظام کیے بغیر محض اشیا کے نرخ مقرر کردینے کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے پاس اشیا کے ذخائر ہوں وہ ان کو چھپا دیں اور پھر یا تو ان کا بیچنا بند کردیں یا قانون کی گرفت سے بچتے ہوئے خفیہ طور پر زائد قیمتوں پر بیچیں۔ جو حکومت اس نتیجہ سے محض عقلاً ہی واقف نہیں ہے بلکہ تجربے اور مشاہدے کی رو سے بھی واقف ہوچکی ہے وہ اگر اس پر بھی نرخ مقرر کرنے کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اسے اخلاقاً یہ مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ عام خریدار اور بیوپاری اس کے مقرر کردہ نرخوں کی پابندی کریں۔
اس وقت یہ صریح طور پر نظر آرہا ہے کہ عام خریدار اور چھوٹے چھوٹے خردہ فروش تاجر اگر بڑے صاحب ذخیرہ تاجروں سے حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر کوئی چیز لینا چاہتے ہیں تو انہیں کچھ نہیں ملتا۔ اور اگر وہ ان سے چور بازار کی قیمتوں پر مال خریدتے ہیں تو پھر ان کے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں رہتا کہ اس مال کو آگے کھلے بازار میں حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر فروخت کریں۔ ایسی حالت میں جو شخص اپنی روزی کمانے یا اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے چور بازار سے مال خریدتا ہے وہ ہر گز کسی اخلاقی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا۔ اور اگر وہ آگے اس طرح کے مال کو سرکاری نرخ سے زیادہ قیمتوں پر فروخت کرتا ہے تب بھی وہ کسی قاعدے سے اخلاقی مجرم نہیں ہے۔ ایسے شخص کو گرفتار کرکے اسے سزا دی جائے گی تو یہ حکومت کا مزید ایک ظلم ہوگا۔
جماعت اسلامی کے ارکان میں سے جو لوگ تاجر ہیں انہیں ایسی صورت پیش آئے تو ان کو چاہیے کہ کچہری میں وکیل کے بغیر حاضر ہوں۔ معاملے کی اس صورت کو صاف صاف مجسٹریٹ کے سامنے رکھ دیں۔ اور پھر بلاتامل اس سے کہیں کہ اگر اس صورت حال میں بھی آپ کی حس انصاف ہمیں مجرم سمجھتی ہے تو ضرور سزا دیجیے۔ہم آپ کی ان عدالتوں سے بالاتر ایک عدالت سے توقع رکھتے ہیں کہ آخر کار وہ ہمارا اور آپ کا انصاف ضرور کرے گی۔
’’تسعیر‘‘ کے سلسلے میں چونکہ ذکر آگیا ہے اس لیے میں مختصراً یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس معاملہ میں اسلام کی پالیسی کیا ہے۔
نبیﷺ کے زمانہ میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں قیمتیں چڑھ گئیں۔ لوگوں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ آپ قیمتیں مقرر فرمادیں۔ آپ نے جواب دیا۔
ان السعر غلاوہ ورخصہ بید اللہ وانی ارید ان القی اللہ ولیس لاحد عندی مظلمتہ یطلبنی بھا۔
قیمتوں کا چڑھنا اور گرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (یعنی قدرتی قوانین کے تحت ہے) اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے خدا سے ملوں تو اس حال میں ملوں کہ کوئی شخص میرے خلاف ظلم و بے انصافی کی شکایت کرنے والا نہ ہو۔
اس کے بعد آپ نے مسلسل اپنے خطبوں میں، بات چیت میں، اور لوگوں سے ملاقاتوں میں یہ فرمانا شرع کیا کہ۔
الجالب مرزوق والمحتکر ملعون۔
ضروریات زندگی کو بازار میں لانے والا خدا سے رزق اور رحمت پاتا ہے اور ان کو روک رکھنے والا خدا کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے۔
من احتکر طعاماً اربعین یوماً یرید بہ الغلاء فقد برئ من اللہ بری اللہ منہ۔
جس نے چالیس دن تک غلہ روک کر رکھا تاکہ قیمتیں چڑھیں تو اللہ اس سے اور اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔
بئس العبد المحتکران ارخص اللہ الا سعارحزن وان اغلاھا فرح۔
کتنا برا ہے وہ شخص جو اشیا ضرورت کو روک کر رکھتا ہے۔ ارزانی ہوتی ہے تو اس کا دل دکھتا ہے، گرانی بڑھتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔
من احتکرطعاما اربعین یوماً ثم تصدق بہ لم یکن لہ کفارۃ۔
جس نے چالیس دن تک غلہ کو روک رکھا، پھر اگر وہ اس غلہ کو خیرات بھی کردے تو اس کے گناہ کی تلافی نہ ہوگی جو ان چالیس دنوں کے دوران میں کرچکا ہے۔ اس طرح نبیﷺ احتکار کے خلاف مسلسل تبلیغ و تلقین فرماتے رہے یہاں تک کہ تاجروں کے نفس کی اصلاح خود بخود ہوگئی اور جو ذخیرے روکے گئے تھے وہ سب بازار میں آگئے۔
یہ شان ہے اس حکمران کی جس کی حکومت اخلاق فاضلہ کی بنیادوں پر قائم ہو۔ اس کی اصل قوت پولیس اور عدالت اور کنٹرول اور آرڈی نینس نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانوں کے قلب و روح کی تہوں میں برائی کی جڑوں کا استیصال کرتا ہے، نیتوں کی اصلاح کرتا ہے۔ خیالات اور ذہنیتیں بدلتا ہے، معیار قدر بدلتا ہے۔ اور لوگوں سے رضاکارانہ اپنے ان احکام کی پابندی کراتا ہے جو بجائے خود صحیح اخلاقی بنیادوں پر مبنی ہوتے ہیں۔برعکس اس کے یہ دنیوی حکام، جن کی اپنی نیتیں درست نہیں ہیں، جن کے اپنے اخلاق فاسد ہیں، اور جن کی حکمرانی کے لیے جابرانہ تسلط کے سوا کوئی دوسری بنیاد بھی موجود نہیں ہے، انہیں جب کبھی اس طرح کے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے جیسے آج کل درپیش ہیں تو یہ سارا کام جبر سے نکالنے کو کوشش کرتے ہیں اور اخلاق کی اصلاح کرنے کے بجائے عامتہ الناس کے اخلاقی بگاڑ میں جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے اسے بھی پورا کرکے چھوڑتے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال 43ھ ۔ جولائی، اکتوبر 44ء)