کس قسم کا اجماع حجت ہے؟
سوال: ایسا اجماع جو کسی صحیح حدیث پر مبنی ہو واقعی شرعی حجت ہے اور ایسے اجماع کا منکر یقیناً کافر ہے لیکن ایسا اجماع جو علماء نے کسی ایسے مقصد پر کرلیا ہو جو مخبر صادق کے لفظوں سے صراحتاً ثابت نہ ہو یا کسی ایسی حقیقت سے تعلق رکھتا ہو جس کی تصریح شارع علیہ السلام نے نہ کی ہو اور اسے مصلحتاً مجمل ہی رہنے دیا ہو، کیا یہ بھی شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا منکر کافر ہے؟
جواب: اجماع کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ یہاں اس کے تمام پہلوؤں پر بحث کرنا مشکل ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اجماع سے مراد امت کا متفقہ فیصلہ ہے، اور یہ متفقہ فیصلہ لامحالہ دو ہی قسم کے امور سے متعلق ہوسکتا ہے۔ ایک قسم کے امور وہ جو احکام شرعی میں سے ہوں۔ دوسری قسم کے امور وہ جو دنیاوی تدابیر کے قبیل سے ہوں۔ پہلی قسم کے امور میں سے کسی امر میں اگر امت متفق ہو کر کسی حکم مخصوص کی تشریح کرے اور وہ تشریح کسی وقتی ضرورت یا مصلحت کو پیش نظر رکھ کر نہ کی گئی ہو، بلکہ اصولاً شارع کا منشا یا سنت کا طریقہ بالاتفاق متعین کیا گیا ہو تو ایسا اجماع یقیناً حجت ہے اور ہمیشہ کے لیے حجت ہے اور اگر کسی مصلحتِ وقتی کو ملحوظ رکھ کر کسی حکم کی تشریح کی گئی ہو تو ایسے اجماع کی پابندی اس وقت تک امت پر لازم ہوگی جس وقت تک وہ مصلحت باقی ہے۔ حالات بدل جانے کے بعد اس کی پابندی لازم نہیں رہے گی۔ بخلاف اس کے اگر کوئی اجماع کسی حکم شرعی کی تشریح کے متعلق نہ ہو، بلکہ کسی تدبیر دنیاوی کے متعلق امت نے متفق ہو کر طے کرلیا ہو کہ اس طرح عمل کیا جائے تو اگر اصولِ شریعت میں اس طرزعمل کے لیے کوئی گنجائش موجود ہو تو ایسا اجماع واجب العمل ہوسکتا ہے۔ ورنہ نہیں نیز یہ کہ ایسا اجماع کبھی دائمی اور ابدی وجوب کا مرتبہ حاصل نہیں کرسکتا۔ عین ممکن ہے کہ ایک زمانے کے مسلمان یا ایک ملک یا ایک قوم کے مسلمان کسی تدبیر یا کسی کام پر اتفاق کریں اور دوسرے زمانے میں اسی قوم یا اسی ملک کے لوگ کسی اور امر پر اتفاق کرلیں۔ یہ ملکی، قومی اور زمانی اجماع صرف ایک خاص زمانے اور خاص ملک یا قوم کے مسلمانوں ہی کے لیے واجب العمل ہوسکتے ہیں۔ بعد کے زمانے والوں یا دوسرے ممالک کے مسلمانوں کو اگر اس میں تغیر و تبدل کی ضرورت محسوس ہو تو یہ دعویٰ کرنا صحیح نہ ہوگا کہ چونکہ پہلے فلاں خاص امر پر اجماع ہوچکا ہے یا فلاں ملک میں اس پر اتفاق ہوچکا ہو۔ اس لیے اب اس کے بارے میں کلام نہیں کیا جاسکتا۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال 63ھ ۔ جولائی، اکتوبر 44ء)