حدیث کی تدوین جدید
سوال: قرآن کے بعد احادیث نبویہ کو دینی حجت ماننے یا نہ ماننے میں ہمارے اہل فکرونظر افراط و تفریط میں مبتلا ہیں۔ میرے خیال میں تفریط تو یہ ہے کہ ذخیرہ حدیث کو تاریخی روایات کی حیثیت دی جائے اور افراط یہ ہے کہ احادیث صحاح ستہ میں قال رسولﷺ کے الفاظ سے جو کچھ بھی لکھا گیا ہو اسے کلیتہً رسول اللہﷺ کی سچی حدیث سمجھ لیا جائے اور اس پر دین و اعتقاد کی عمارت کھڑی کرلی جائے۔ میں اپنی معلومات کی کمی اور فکرونظر کی کوتاہی کی وجہ سے اس بارے میں کوئی نقطہ اعتدال نہیں پاسکا، براہِ کرم آپ ہی رہنمائی فرمائیے اور ان شبہات کو صاف کردیجیے۔
کیا احادیث کی تحقیق و تنقیح اور راویوں کے حالات کی تفتیش کا کام اگلے محققین پر ختم ہوگیا ؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟ اور پھر اس کے کیا معنی کہ صحیح بخاری تک میں ایسی حدیثیں موجود ہیں جو نقل صحیح اور عقل سلیم کی روشنی میں محل اعتراض ہیں۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تین مرتبہ جھوٹ بولنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ملک الموت کی آنکھ پر گھونسا مارنا روایات کو ملاحظہ کرلیجیے۔
نیز اگر جواب نفی میں ہو تو بتلائیے کہ کیا وجہ ہے کہ اب تک صحیح اور غلط احادیث کو چھانٹ دینے کا فریضہ متاخرین علمائے اسلام نے انجام نہیں دیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مشتبہ روایات پر وارد ہونے والے اعتراضات تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
جواب: میں اپنے مضامین میں متعدد مقامات پر اس بات کو واضح کرچکا ہوں کہ احادیث کی تنقید و تحقیق و ترتیب کا کام جو کچھ ابتدائی چار صدیوں میں ہوا ہے وہ اگرچہ نہایت قابل قدر ہے مگر کافی نہیں ہے۔ ابھی بہت کچھ اس سلسلے میں کرنا باقی ہے۔ رہی یہ بات کہ علماء نے پھر یہ کام کیوں نہیں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن علماء نے چوتھی صدی کے بعد اجتہاد کو حرام قرار دیا ہو ان کے متعلق یہ پوچھنا ہی غلط ہے کہ انہوں نے حدیث کی چھانٹ پرکھ کا کام کیوں نہیں کیا۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال632ھ جولائی، اکتوبر 44ء)