مذہب حنفی اور حدیث
سوال: بعض اعمال میں اقوال حضرت امام اعظم احادیث صحیحہ کے خلاف پائے جاتے ہیں جیسے فاتحہ خلف الامام، رفع یدین، آمین بالجہر، شرطِ مصر فی صلوٰۃ الجمعہ، وغیرہ تو کیا امام موصوف کے اقوال قرآن مجید سے مستنبط ہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ احادیث کونسی ہیں؟ کیا وہ عندالمحدثین صحیح ہیں؟
جواب: امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام مالک کے مذہب میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر اہل حدیث کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ حدیث کے خلاف ہیں اور ان آئمہ کے پیروں کی طرف سے ان اعتراضات کے جوابات بھی دیے گئے ہیں۔ جو شخص خود علم رکھتا ہو اور جس میں خود اجتہاد کی صلاحیت موجود ہو وہ فریقین کے درمیان محاکمہ کرسکتا ہے اور اسے حق ہے کہ حدیث سے جس طریقے کو ثابت پائے اسے اختیار کرے اور جسے ثابت نہ پائے اسے چھوڑ دے۔ لیکن یہ عام اہل حدیث جو ان مسائل پر بحث کرتے پھرتے ہیں ان کا حال عام حنفیوں سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ان کا علم بھی ویسا ہی تقلیدی ہے جیسا حنفیوں کا ہے۔ یہ اپنے آئمہ و علما پر اعتماد کرتے ہیں، اور حنفی اپنے آئمہ و علما پر۔ ان میں خود اجتہادی قابلیت نہیں، نہ یہ احادیث کا اتنا علم اور اصول میں اتنی بصیرت رکھتے ہیں کہ احکام کی تحقیق کرسکیں۔ ان کا یہ کہنا کہ فاتحہ خلف الامام یا رفع یدین یا آمین بالجہر حدیث سے ثابت ہے اور اس کا خلاف ثابت نہیں ہے، دراصل تقلید کی بنیاد پر ہے نہ کہ اجتہاد کی بنیاد پر۔ لہٰذا ان کے جواب میں خاموشی بہتر ہے۔ البتہ جو علم رکھتے ہیں وہ ان مسائل پر بول سکتے ہیں۔
فاتحہ خلف الامام کے بارے میں جو کچھ میں نے تحقیق کیا ہے اس کی رو سے زیادہ صحیح مسلک یہ ہے کہ جب امام بآواز بلند پڑھ رہا ہو تو مقتدی خاموش رہیں اور جب امام آہستہ پڑھ رہا ہو تو مقتدی بھی فاتحہ پڑھیں۔ اس طرح کسی حکم قرآنی اور کسی حدیث کی خلاف ورزی کا اندیشہ نہیں رہتا اور تمام مختلف دلائل دیکھ کر یہ ایک متوسط طریقہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ نے بھی اسی انداز کو اختیار کیا ہے۔ لیکن جو شخص امام کے پیچھے کسی صورت میں بھی فاتحہ نہیں پڑھتا یا ہر حال میں پڑھتا ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی نماز نہیں ہوتی۔ کیونکہ دونوں مسلکوں کی تائید میں دلائل موجود ہیں اور وہ شخص جان بوجھ کر حکم کی خلاف ورزی نہیں کررہا ہے، بلکہ جو حکم اس کے نزدیک دلیل سے ثابت ہے اسی پر عمل کر رہا ہے۔ لہٰذا اس پر وہ الزام نہیں رکھا جاسکتا جو حکم شرعی کی بالقصد مخالفت کرنے والے پر رکھا جاتا ہے۔
رہا ’’رفع یدین‘‘ اور ’’آمین بالجہر‘‘ تو ان کے فعل اور ترک دونوں کی تائید میں دلائل مجھ کو تقریباً مسادی الوزن نظر آتے ہیں۔ اس لیے جو ان افعال کو کرتا ہے وہ بھی حدیث کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے اور جو انہیں ترک کرتا ہے اسے بھی مخالفت حدیث کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ صاحب شریعت علیہ السلام نے مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے عمل کیا ہے، اور اسی طرح صحابہ کرام نے بھی۔ اب ایک شخص جس طریقہ کی پیروی کرتا ہے وہ صاحب شریعت ہی کا مطیع ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اسے غیریت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے یا اسے اپنے ہی پسندیدہ طریقہ کی طرف تشدد سے کھینچا جائے، ہاتھ اٹھانا یا نہ اٹھانا، اور آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا کوئی ایسی اہمیت نہیں رکھتا کہ ایک کا التزام اور دوسرے کے ترک کا اہتمام کیا جائے۔
نماز جمعہ میں شرطِ مصر کے متعلق مجھے علمائے حنفیہ سےاختلاف ہے، میری تحقیق یہ ہے کہ بعد کے لوگوں نے خود امام ابوحنیفہ ہی کے استدلال و استنباط کو اس معاملے میں نہیں سمجھا۔ امام صاحب کا مدعا صرف یہ تھا کہ اقامت جمعہ ایسی آبادیوں میں ہو جو اپنے علاقے کے اندر مرکزی حیثیت رکھتی ہو اور یہ حدیث کے عین مطابق ہے لیکن بعد کے لوگوں نے مصر کا مدلول متعین کرنے میں کھینچ تان کی اور متعدد ایسی شرطیں بڑھا دیں جن کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہےاس مسئلے پر مفصل بحث ترجمان القرآن میں کی جاچکی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال 63ھ ۔ جولائی اکتوبر 44ء)