میدان جنگ میں قحبہ گری کے انتظامات اور اسلام
سوال: آج کل جنگ میں جہاں سپاہیوں کو وطن سے ہزاروں میل دور جانا پڑتا ہے اور ان کی واپسی کم از کم دو سال سے پہلے نا ممکن ہوجاتی ہے، سوشل قباحتیں مثلاً زنا وغیرہ کا پھیل جانا لازمی ہے، کیونکہ جنگ کے جذبہ کی بیداری کے ساتھ تمام جذبات سفلی بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس چیز کو روکنے کے لیے یا قابو میں لانے کے لیے فوجیوں کے لیے رجسٹرڈ رنڈیاں بہم پہنچانے کی اسکیم پر عمل ہو رہا ہے اور ان کے دلوں کو خوش رکھنے کے لیے (WACI) دفتروں میں ملازم رکھی جارہی ہیں۔ یہ دونوں صورتیں قابل نفرین ہیں، ممکن سوال یہ ہے کہ ان کی تردید کے بعد اسلام اس عقدہ کے حل کا کیا طریق بناتا ہے۔ کنیزوں کا سسٹم کس حد تک اس قباحت کا ازالہ کر سکتا ہے اور کیا وہ بھی ایک طرح کی جائز کردہ قحبہ گری(Prostitution) نہیں ہے؟
جواب: آپ کے سوال میں ایک پیچیدگی ہے جسے شاید آپ نے اپنا سوال تحریر کرتے وقت محسوس نہیں کیا۔ آپ جس مسئلے کا حل دریافت کرنا چاہتے ہیں اس میں آپ کے پیش نظر تو ہیں موجودہ زمانے کی فوجیں اور ان کی ضروریات، لیکن اس کا حل چاہتے ہیں آپ اسلام سے۔حالانکہ اسلام جن فوجوں کی ضروریات کا ذمہ لیتا ہے وہ اس کی اپنی فوجیں ہیں نہ کہ فسّاق و فجّار اور جابرہ کی فوجیں۔
موجودہ زمانے کی فوجوں کا حال یہ ہے کہ انہیں محض لڑنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور جو سلطنتیں ان کو تیار کرتی ہیں ان کے پیش نظر کوئی پاکیزہ اخلاقی نصب العین نہیں ہوتا۔ اگر وہ اپنی فوج تیار کرتی ہیں تو ان کے اندر صرف وہ اخلاقیات پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو قوم کا جھنڈا بلند کرنے اور بلند رکھنے کے لیے درکار ہیں اور ظاہر ہے کہ ان اخلاقیات میں طہارت اخلاق کے عنصر کا کوئی مقام نہیں ہے اور اگر وہ اپنی محکوم قوموں میں سے اپنی اغراض کے لیے فوجیں تیار کرتی ہیں تو انہیں صرف اس اخلاق کی تربیت دیتی ہیں جو پالتو شکاری کتوں میں پیدا کیا جاتا ہے، یعنی یہ کہ روٹی دینے والے کے وفادار رہیں اور شکار اس کے لیے ماریں، نہ کہ اپنے لیے۔ اس کے سوا کسی دوسرے اخلاق کی اہمیت سرے سے ان ’’مہذب‘‘ قوموں میں ہے ہی نہیں۔ رہیں زنا، شراب، جوا اور دوسری قسم کی بداخلاقیاں تو نیچے سے لے کر اونچے طبقوں تک وہ ان کے ہاں پوری قوم کے اندر پھیلی ہوئی ہیں۔ نیز جبکہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر ہی یہ ہے کہ ’’بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘۔تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی فوجوں میں کسی قسم کا اخلاقی انضباط پایا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی فوجیں مار دھاڑ کے فنون میں تو انتہائی کمال کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں، لیکن طہارت اخلاق کے نقطہ نظر سے پستی کی اس حد تک گری ہوئی ہوتی ہیں جس کا مشکل سے ہی کوئی انسان تصور کرسکتا ہے۔ انہیں کھانے کے لیے دل کھول کر راشن دیا جاتا ہے۔ پینے کے لیے خم شراب کا منہ ہر وقت کھلا رکھا جاتا ہے۔خرچ کرنے کے لیے پیسے بھی کافی دیے جاتے ہیں، پھر سانڈوں کی طرح انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اپنی خواہشات نفس جہاں اور جس طرح چاہیں، پوری کرتے پھریں۔ حکومتیں خود بھی ان کے لیے قحبہ خانے تیار رکھتی ہیں، قوم کی لڑکیوں میں بھی یہ جذبہ پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے لیے لڑنے والے سپاہیوں کی خاطر اپنے جسم رضاکارانہ طور پر پیش کرنے کو قومی ایثار اور سرمایہ افتخار سمجھیں۔ اور اس پر بھی جب ان انسانی نروں کے پھڑکے ہوئے جذبات ٹھنڈے نہیں ہوسکتے تو ان کو پوری آزادی حاصل ہوتی ہے کہ انسانی گلہ میں جہاں بھی مادائیں ان کو نظر آئیں، ان سے ’’بزور‘‘ یا ’’بزر‘‘ ان کے جسم خرید لیں یا چھین لیں۔ اس طرح جن فوجوں کو پالا گیا ہو، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ جب وہ دشمنوں کے ممالک میں فاتحانہ داخل ہوتی ہوں گی تو وہاں ان کی شہوانی ضروریات کتنی بڑھ جاتی ہوں گی اور کس قیامت خیز صورت میں وہ پوری کی جاتی ہوں گی۔
اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ ایسی فوجوں کے مسائل اور ان کی ضروریات کا حل اسلام کیسے بتا سکتا ہے۔ انہیں مغرب ہی کے مادہ پرستانہ اخلاق نے پیدا کیا ہے اور ان کے شرمناک مسائل کا حل بھی وہی پیش کرسکتا ہے۔ اسلام جن فوجوں کو تیار کرتا ہے وہ سیاسی و معاشی جغرافیہ کے اوراق پھاڑنے اور جوڑنے کے لیے تیار نہیں کی جاتیں بلکہ صرف اس لیے تیار کی جاتی ہیں کہ دنیا اگر خدا کی اطاعت سے پھری ہوئی ہو اور دعوت و تبلیغ سے راہ راست پر نہ آئے تو اسے بزور شمشیر اتنا بے زور کردیا جائے کہ وہ کم ازکم فتنہ و فساد سے تو باز آجائے۔ اس متعین مقصود کے لیے جو فوجیں جہاد کرتی ہیں، ان کا جہاد فی سبیل النفس نہیں بلکہ فی سبیل اللہ ہوتا ہے اور وہ میدان جنگ میں بھی اسی جذبہ عبادت کے ساتھ جاتی ہیں جس کے ساتھ وہ صحن مسجد میں قدم رکھتی ہیں۔ پھر اس میدان میں ان کو اتارنے سے پہلے تزکیہ نفس اور تطہیر اخلاق کے ایک پورے کورس سے انہیں گزارا جاتا ہے۔ انہیں خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کی سرکوبی کا کام سکھانے کے ساتھ یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو، اگر وہ خدا سے پھرا ہوا ہو، کس طرح زیر کریں اور دوسروں کو احکام الہٰی کا مطیع بنانے سے پہلے خود اپنے آپ کو کس طرح خدا کا مطیع بنائیں۔ انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ میدان جنگ میں قدم قدم پر خدا کو یاد کرتے ہوئے بڑھیں، عین لڑائی کی حالت تک میں نماز اپنے وقت پر ادا کریں اور دن ان کے گھوڑے یا ٹینک کی پشت پر گزریں تو راتیں مصلے پر۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی تربیت یافتہ فوج جو ایک پاکیزہ اخلاقی مقصد کے لیے لڑے اور اپنے عقیدہ کے مطابق زمانہ جنگ کو زمانہ عبادت سمجھتی ہوئی رقبہ جنگ میں رہے، اس کی شہوانی ضروریات موجودہ فوجوں کی ضروریات جیسی نہیں ہوسکتیں۔ اور نہ وہ اپنی ان ضروریات کو پورا کرنے میں ان فوجوں کی طرح آزادی کی خواہش مند ہوسکتی ہے۔
اگرچہ بعض روایات کے مطابق زمانہ جنگ میں نبیﷺ نے متعہ کو جائز رکھا تھا (جسے عرب میں پہلے جائز سمجھا جاتا تھا) لیکن یہ بات ثابت ہے کہ بہت جلدی آپ نے اس کو ممنوع قرار دے دیا۔
اس میں شک نہیں کہ جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوئی ہوں ان سے تمتع کرنے کی اجازت اسلام میں دی گئی ہے، مگر سخت جاہل ہے وہ شخص جس نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ جس طرح آج کل ناخدا ترس فوجیں غنیم کے ملک میں گھسنے کے بعد عورتوں کو آزادانہ پکڑتی پھرتی ہیں اور جہاں جس سپاہی کو جو عورت مل جاتی ہے وہ اس سے زنا کر ڈالتا ہے، ایسی ہی اجازت اسلام نے بھی اپنی فوجوں کو دے دی ہے۔ دراصل یہ اجازت چند شرائط کے ساتھ ہے۔
اول تو عورتوں کا پکڑنا فی نفسہ مقصود کی حیثیت نہیں رکھتا کہ خواہ مخواہ فوج کی شہوانی ضروریات پوری کرنے کی خاطر دشمن قوم کی عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ لایا جائے، بلکہ عہد نبویﷺ اور زمانہ خلافت راشدہ کی نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں جب کبھی گرفتار ہوں گی تو دو ہی صورتوں میں ہوں گی۔ ایک اس صورت میں جبکہ وہ دشمن کے لشکر میں ہوں۔اس صورت میں جس طرح لشکر کے مرد گرفتار ہوں گے اسی طرح عورتیں بھی گرفتار کرلی جائیں گی۔ دوسرے اس صورت میں جبکہ کوئی شہری آبادی اسلامی فوج کا مقابلہ کرے اور عنوۃً(By Storm) فتح ہو۔ اس صورت میں اسلامی فوج کے کمانڈر کو حق ہے کہ ضرورت سمجھے تو پوری آبادی کو گرفتار کرلے۔ نیز اس صورت میں جو عورتیں اور بچے ایسے رہ جائیں جن کے سرپرست مرد مارے جا چکے ہیں ان کو بھی اسلامی فوج اپنے چارج میں لے لے گی۔
پھر جو عورتیں ان صورتوں میں سے کسی صورت میں فوج کے قبضے میں آجائیں انہیں کوئی سپاہی اس وقت تک ہاتھ نہیں لگا سکتا جب تک کہ اسلامی حکومت اس امر کا فیصلہ نہ کرلے کہ انہیں لونڈیاں بنا لینا ہے، اور جب تک کہ ان کو فوج میں باقاعدہ تقسیم نہ کردیا جائے اور یہ فیصلہ صرف اس صورات میں کیا جائے گا جبکہ غنیم سے فدیے پر، یا اسیران جنگ کے تبادلےپر کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔
اس طرح جو عورت حکومت کی جانب سے کسی مرد کی ملک میں باقاعدہ دے دی گئی ہو اس پر صرف وہی ایک مرد تصرف کرسکے گا اور اس کے لیے بھی قانون یہ ہے کہ استبراء رحم کی خاطر وہ اس وقت تک صبر کرے جب تک کہ عورت کو ایک مرتبہ حیض نہ آجائے۔ یہ اس غرض کے لیے ہے تاکہ اس امر کا اطمینان ہوجائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے اور اگر حاملہ ہو تو پھر وضع حمل تک اس کو صبر کرنا چاہیے۔ اس دوران میں وہ اس سے مباشرت کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
پھر جو عورت اس طریقے سے کسی شخص کی ملک میں دی گئی ہو، وہ اگر اس سے تمتع کرے تو جو اولاد اس کے بطن سے پیدا ہوگی وہ اس شخص کی جائز اولاد قرار پائے گی اور اس کی وارث ہوگی، نیز اولاد کی ماں بن جانے کے بعد پھر وہ شخص اس عورت کو بیچنے کا مجاز نہ رہے گا، اور اس کے مرنے کے بعد وہ خود بخود آزاد ہوجائے گی۔
یہ ہے جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں کے بارے میں اسلام کا اصل قانون۔ اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلام حالت جنگ میں اپنی فوجوں کی شہوانی ضروریات پوری کرنے کے لیے اخلاقی قیود میں کسی قسم کی ڈھیل پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام تو ان پر یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ جائز تعلق کے مواقع میسر آنے تک بہر حال وہ ضبط نفس سے کام لیں خواہ ایسا موقع میسر آنے میں کتنی ہی مدت لگ جائے۔
دوسری احادیث و آثار کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی کمزوریوں کا لحاظ کرتے ہوئے یہ دیکھنا بھی اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ اس کے سپاہی زیادہ مدت تک اپنی عورتوں سے علیحدہ رہ کر، اور ان کی عورتیں زیادہ دیر تک اپنے مردوں سے جدا رہ کر کہیں بد اخلاقیوں میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ یہی غرض تھی جس کی خاطر نبیﷺ نے فرمایا:
حرمت نساء المجاہدین علی القاعدین کحرمتہ امھاتکم
مجاہدین کی بیویاں پیچھے رہنے والے مردوں کے لیے ویسی ہی حرام کی گئی ہیں جیسی خود ان کی مائیں ان پر حرام ہیں۔
اور یہ کہ:
مامن رجل من القاعدین یخلف رجلاً من المجاہدین فی اھلہ فیخونہ فیھم الا وقف لہ یوم القیٰمتہ فیاخذ من عملہ ما یشاء فما ظنکم
پیچھے رہ جانے والے مردوں میں سے جو شخص مجاہدین میں سے کسی کے بال بچوں میں اس کا جانشین ہو اور پھر وہ ان کے معاملے میں اس کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کرے وہ قیامت کے روز کھڑا کیا جائے گا اور اس مجاہد کو حق دیا جائے گا کہ اس شخص کے عمل میں سے جو کچھ چاہے لے لے۔ پھر تمہارا کیا گمان ہے کہ وہ اس کے پاس کچھ چھوڑ دے گا؟
اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے مدینے کے دو خوبصورت نوجوانوں کو صرف اس لیے شہر سے منتقل کردیا کہ آپ نے بعض عورتوں کی زبان سے ان کے حسن کی تعریف سن لی تھی اور آپ کو اندیشہ ہوگیا تھا کہ کہیں یہ چیز ان عورتوں کے حق میں فتنہ نہ بن جائے جن کے شوہر جہاد پر گئے ہوئے ہیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے اعلان کردیا تھا کہ جو شخص کسی عورت سے تشبیب کرے گا اس کو درے لگائے جائیں گے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے جب ایک مرتبہ ایک مجاہد کی بیوی کو اپنے شوہر کے فراق میں مشتاقانہ اشعار گاتے ہوئے سنا تو آکر پہلا حکم جو آپ نے جاری کیا وہ یہ تھا کہ آئندہ سے سپاہیوں کو اتنی طویل مدت تک ان کی بیویوں سے جدا نہ رکھا جائے جس سے ان کے کسی بداخلاقی میں ملوث ہوجانے کا احتمال ہو۔ بالفاظ دیگر فوج میں رخصت(Furlough) کا طریقہ اسلامی حکومت میں جاری ہی اس غرض کے لیے کیا گیا تھا کہ حکومت اپنے سپاہیوں اور ان کی عورتوں کے اخلاق کی حفاظت کرنا چاہتی تھی۔
رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا کنیزوں کے استعمال کی اجازت ایک طرح کی جائز کردہ قحبہ گری نہ تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یا تو آپ قحبہ گری کے معنی نہیں جانتے یا کنیزوں سے تمتع کا اسلامی قانون آپ کو معلوم نہیں ہے۔ قحبہ گری اس کو کہتے ہیں کہ ایک مرد کسی عورت سے اس کا جسم کرایہ پر مستعار حاصل کرے اور آج کل کی ’’مہذب‘‘ سوسائٹی میں ایک نئی قسم قحبہ گری بھی پیدا ہوگئی ہے جسے ’’شوقیہ قحبہ گری‘‘ (Amateurish Prostitution) کہتے ہیں، جس میں یہی عارضی تعلق باقاعدہ طے شدہ کرائے کے معاوضے میں نہیں بلکہ ہدیوں تحفوں کے بدلے میں قائم ہوتا ہے اور سوسائٹی میں خاتون محترم کی عزت بدستور برقرار رہتی ہے۔ رہا کنیزوں سے تمتع کا اسلامی قانون، تو وہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں۔ دونوں کا مقابلہ کرکے آپ خوددیکھ لیں۔
(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، جمادی الثانیہ 64ھ۔ مارچ، جون ۴۵ء)