غیر حکیمانہ تبلیغ
سوال: ’’ایک شخص کو ایک مدرسے میں تبلیغ کے لیے ملازم رکھا گیا ہے۔ اب مدرسے کے منتظمین خود ہی اس کی تبلیغ مساعی کو روکنا چاہتے ہیں۔ مثلاً بعض آیات بچوں کو یاد کرانے میں وہ مانع ہوتے ہیں۔ ایسی چند آیات درج ذیل ہیں۔
٭۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ
٭قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲ
٭وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ…… ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ……ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔
اب ایسے شخص کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ اسے مدرسے میں رہنا چاہیے یا نہیں۔‘‘
جواب: آپ جس طریقے سے سوال کررہے ہیں اس سے شبہ ہوتا ہے کہ صورت واقعہ اس سے مختلف ہے اور آپ اسے ایک معصوم شکل میں پیش کرکے استفسار کررہے ہیں۔
تبلیغ کے معنی یہ نہیں ہے کہ موقع و محل کو دیکھے بغیر آدمی ہر جگہ ایک ہی طرح کی شدت برتے اور ہر مخاطب کے سامنے وہ انتہائی باتیں کہہ ڈالے، جن کا تحمل ابتدائی مراحل میں کم ہی کوئی شخص کرسکتا ہے۔ جہاں لوگ توحید و رسالت اور آخرت کے ابتدائی تصورات تک سے بیگانہ ہو کر رہ گئے ہوں وہاں یکایک ان کے سامنے ان عقائد کا محض مکمل تصور ہی نہیں بلکہ اسے تسلیم کرنے کے تمام لوازم اور عملی تقاضے تک پیش کر ڈالنا، اور پھر اس پر اتنا اصرار کرنا کہ لوگوں میں چڑ پیدا ہوجائے، حکمت تبلیغ کے خلاف ہے۔
اگر آپ کو، یا آپ کے کسی دوست کو، کسی وکیل یا جج کے ہاں بچوں کو پڑھانے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ نے کیسی غلطی کی ہے کہ اس کے بچوں کو چن چن کر وہی آیتیں یاد کرانی شروع کردیں جو آپ نے نقل فرمائی ہیں، اور اس طرح اسے مجبور کردیا کہ یا تو وہ قرآن کے مقابلے میں آکھڑا ہو، یا نہیں تو خود اپنے بچوں کی نگاہ میں کافر و فاسق قرار پائے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے کے بجائے اگر آپ بتدریج ان بچوں کو اسلامی عقائد کے مبادی سے، پھر ان کی تفصیلات سے، پھر ان کے لوازم اور تقاضوں اور مطالبوں سے آگاہ کرتے، اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ذریعہ سے یہ چیزیں ان کو سمجھاتے چلے جاتے تو خطرے کا الارم بھی نہ بجتا، بچوں کو دین کی تعلیم بھی اچھی طرح مل جاتی، اور ان کے والد صاحب چاہے جو کچھ بھی بنے رہتے، مگر ان کی اولاد درست ہوجاتی۔ آپ نے اس کے برعکس کم سمجھ بچوں کو ایسی باتیں یاد کرانی شروع کردیں۔ جن کی بنا پر وہ ہر جگہ الٹے سیدھے فتوے جڑنے لگے ہوں۔ یہی چیز خطرے کی گھنٹی بن گئی اور اس نے وہ صورتحال پیدا کردی جس میں آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ بچے کسی ایسے معلم کے حوالہ کیے جائیں گے جو مذہب کا ایسا تصور ان کے ذہن میں بٹھائے جس کی رو سے خدا اور قیصر کے حقوق الگ الگ ہوں اور ساتھ ساتھ بے کھٹکے ادا کیے جاسکیں۔
(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر64 ھ ۔ جنوری، فروری45ء)