آلات کے ذریعہ سے توالد و تناسل
سوال: کیمیاوی آلات کے ذریعہ سے اگر مرد کا نطفہ کسی عورت کے رحم میں پہنچادیا جائے اور اس سے اولاد پیدا ہو، تو یہ عمل مضرت سے خالی ہونے کی وجہ سے مباح ہے یا نہیں؟ اور اس عمل کی معمولہ زانیہ شمار کی جائے گی، اور اس پر حد جاری ہوگی یا نہیں؟ اس امر کا خیال رکھیے کہ آج کل کی فیشن دار عورت مرد سے بے نیاز ہونا چاہتی ہے۔ وہ اگر سائنٹفک طریقوں سے اپنے حصہ کی نسل بڑھانے کا فریضہ ادا کرے تو پھر اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ امریکہ میں اس طرح پیدا ہونے والی اولاد کو ازروئے قانون جائز اولاد تسلیم کیا جاتا ہے۔
جواب: آلات کے ذریعہ سے استقرار حمل کا جواز تو دور رہا، میرے لیے اس عمل کا تصور ہی ناقابل برداشت ہے کہ عورت گھوڑی کے مرتبے تک گرادی جائے۔ آخر انسان کی صنف اناث اور حیوانات کی مادہ میں کچھ تو فرق رہنے دیجیے۔ حیوانات میں بھی اللہ تعالیٰ نے توالد وتناسل کا جو طریقہ مقرر کیا ہے وہ نر اور مادہ کے اجتماع کا طریقہ ہی ہے۔ یہ انسان کی خود غرضی ہے کہ وہ گھوڑیوں کو اپنے نروں سے ملنے کا لطف حاصل نہیں کرنے دیتا اور ان سے صرف نسل کشی کا کام لیتا ہے۔ اب اگر انسان کی اپنی ’’مادہ‘‘ کے ساتھ بھی یہی برتاؤ شروع ہوجائے تو اس کے معنی انسانیت کی انتہائی تذلیل کے ہیں۔
آج کی ’’فیشن دار‘‘ عورت جو مرد سے بے نیاز ہونا چاہتی ہے، دراصل اس کی فطرت کو مصنوعی فکری و صنفی ماحول نے مسخ کردیا ہے۔ورنہ اگر وہ صحیح انسانی فطرت پر ہوتی تو اس قسم کی گری ہوئی خواہش کو دل میں جگہ دینا تو درکنار، ایسی تجویزسننا بھی گوارا نہ کرتی۔ عورت محض نسل کشی کے لیے نہیں ہے بلکہ عورت اور مرد کا تعلق انسانی تمدن کی قدرتی بنیاد ہے۔ فطرت الٰہی نے عورت اور مرد کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ ان میں مودت اور رحمت ہو، حسن معاشرت ہو، مل کر گھر بنائیں، گھر سے خاندان اور خاندان سے سوسائٹی نشونما حاصل کرے۔ اس مقصود کو ضائع کرکے عورت کو محض نسل کشی کا آلہ بنادینا فَلْیُغَیّرُنَّ خَلقَ اللِہ (اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو بدل دینے) کا مصداق ہے جسے قرآن ایک شیطانی فعل قرار دیتا ہے۔
خداوند تعالیٰ نے عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا طریقہ مقرر فرمایا ہے لہٰذا وہی اولاد جائز اولاد ہے جو قید نکاح میں پیدا ہو۔ اسی سے وراثت اور نسب کی تحقیق ہوتی ہے۔ اگر آلہ کے ذریعہ سے بچہ پیدا کیا جائے تو اسے حلالی نہیں کہا جاسکتا۔ شرعی نقط نظر سے وہ حرامی ہی کہا جائے گا۔ نیز اس کا سلسلہ آبائی منقطع ہوگا اور وہ باپ کے ورثہ سے محروم رہے گا جو قطعی طور پر اس کی حق تلفی ہے۔
پھر غور تو کیجیے کہ جس بچے کا کوئی باپ نہ ہو اس کی تربیت کا ذمہ دار کون ہوگا صرف ماں؟ کیا یہ ظلم نہیں کہ خدا نے انسان کے بچہ کے لیے ماں اور باپ، چچا اور ماموں، دادا اور نانا وغیرہ لوگوں کی صورت میں جو مربی پیدا کیے ہیں ان میں سے آدھے ساقط کردیے جائیں اور وہ صرف سلسلہ مادری پر منحصر رہ جائے؟ کیا دنیا سے پدری محبت، پدرانہ ذمہ داریوں اور پدرانہ اخلاق کو فنا کردینا انسانیت کی کوئی خدمت ہے؟کیا یہ انصاف ہے کہ عورت پر ماں ہونے کی ذمہ داری قائم رہے مگر مرد ہمیشہ کے لیے باپ ہونے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائے؟
پھر اگر یہی سلسلہ چل پڑا تو ایک روز عورت مطالبہ کرے گی کہ کوئی ترکیب ایسی ہونی چاہیے کہ انسان کا بچہ میرے رحم میں پرورش پانے کے بجائے’’امتحانی نلیوں‘‘ میں پالا جائے۔ یعنی انسان کیمیاوی معمل میں پیدا ہونے لگے۔ اور جب تک یہ حالت پیدا نہیں ہوتی، عورت چاہے گی کہ اسے صرف بچہ جننے کی تکلیف دی جائے، اس کے بعد ماں کے فرائض انجام دینے کے لیے وہ تیار نہ ہوگی۔
یہ صورت جب رونما ہوگی انسانی بچے اسی طرح ’’کثیر پیدا آوری‘‘(Mass Production) کے اصول پر فیکٹریوں میں ڈھل ڈھل کر نکلیں گے جس طرح اب جوتے اور موزے نکلتے ہیں۔ یہ انسانیت کے تنزل کا آخری مقام، اس کا اسفل السافلین ہوگا۔ ان ’’کارخانے ہائے نسل کشی‘‘ سے انسان نہیں بلکہ دو ٹنگے جانور پیدا ہوں گے، جن میں انسانی شرف اور پاکیزہ انسانی جذبات و احساسات کی خو بو برائے نام بھی نہ ہوگی اور سیرت کا وہ تنوع ناپید ہوگا جو تمدن کی رنگا رنگ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ ان کارخانوں سے کسی ارسطو اور ابن سینا، کسی غزالی اور رازی، کسی ہیگل اور کانٹ کے پیدا ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ میرے خیال میں تو وہ مادہ پرستانہ تہذیب لعنت بھیجنے کے قابل ہے جس کے زیر سایہ ایسی تجویزیں انسان کے دماغ میں آتی ہیں۔ اس قسم کی تجویزوں کا انسانی دماغوں میں آنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس تہذیب نے انسان کے ذہن میں خود انسانیت کے تصور کو نہایت پست اور ذلیل کر دیا ہے۔
ترجمان القرآن۔ محرم، صفر63ھ ۔ جنوری، فروری44ء)