نواقص وضو
سوال: ’’اسلام نے جسم و لباس کی طہارت و نظافت کا جو لحاظ رکھا ہے اس کی قدروقیمت سے عقل انسانی انکار نہیں کرسکتی۔ لیکن اس سلسلے میں بعض جزئیات بالکل ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً ریح کے نکلنے سے وضو کا ٹوٹ جانا،حالانکہ جسم کے ایک حصہ سے محض ایک ہوا کے نکل جانے میں بظاہر کوئی ایسی نجاست نہیں ہے جس سے وضو ساقط ہوجائے۔آخر اس ہوا سے کیا چیز گندی ہوجاتی ہے؟ اسی طرح پیشاب کرنے سے وضو کا سقوط، حالانکہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے اور پھر اچھی طرح دھولیا جائے تو کہیں نجاست لگی نہیں رہ جاتی۔ یہی حال دوسرے نواقص وضو کا ہے، جس سے وضو ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ براہ کرم اس الجھن کو اس طرح دور کیجیے کہ مجھے عقلی اطمینان حاصل ہوجائے۔‘‘
جواب:نواقص وضو کے مسئلے میں آپ کو جو شبہات پیش آئے ہیں انہیں اگر آپ حل کرنا چاہیں تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ شریعت میں جن جن باتوں سے وضو کے ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کا حکم لگایا گیا ہے پہلے ان سب کو اپنے ذہن سے نکال دیجیے، پھر خود اپنے طور پر سوچیے کہ عام انسانوں کے لیے (جن میں عالم اور جاہل، عاقل اور کم عقل، طہارت پسند اور طہارت سے غفلت کرنے والے، سب ہی قسم کے لوگ مختلف درجات و حالات کے موجود ہیں) آپ کو ایک ایسا ضابطہ بنانا ہے جس میں حسب ذیل خصوصیات موجود ہوں:
۱۔ لوگوں کو بار بار صاف اور پاک ہوتے رہنے پر مجبور کیا جائے اور ان میں نظافت کی حس اس قدر بیدار کردی جائے کہ وہ نجاستوں اور کثافتوں سے خود بچنے لگیں۔
۲۔خدا کے سامنے حاضر ہونے کی اہمیت اور امتیازی حیثیت ذہن میں بٹھائی جائے تاکہ نیم شعوری طور پر آدمی خود بخود اپنے اندر یہ محسوس کرنے لگے کہ نماز کے قابل ہونے کی حالت دنیا کی دوسری مشغولیتوں کے قابل ہونے کی حالت سے لازماً مختلف ہے۔
۳۔ لوگوں کو اپنے نفس اور اس کے حال کی طرف توجہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ اپنے پاک یا ناپاک ہونے، اور ایسے ہی دوسرے احوال سے جو ان پر وارد ہوتے رہتے ہیں، بے خبر نہ ہونے پائیں اور ایک طرح سے خود اپنے وجود کا جائزہ لیتے رہیں۔
۴۔ضابطہ کی تفصیلات کو ہر شخص کے اپنے فیصلہ اور رائے پر نہ چھوڑا جائے بلکہ ایک طریق کار معین ہو تاکہ انفرادی طور پر لوگ طہارت میں افراط وتفریط نہ کریں۔
۵۔ ضابطہ اس طرح بنایا جائے کہ اس میں اعتدال کے ساتھ طہارت کا مقصد حاصل ہو، یعنی نہ اتنی سختی ہو کہ زندگی تنگ ہو کر رہ جائے اور نہ اتنی نرمی کہ پاکیزگی باقی نہ رہے۔
ان پانچ خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر آپ خود ایک ضابطہ تجویز کریں اور خیال رکھیں کر اس میں کوئی بات اس نوعیت کی نہ آنے پائے جس پر وہ اعتراضات ہو سکتے ہوں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں۔
اس قسم کا ضابطہ بنانے کی کوشش میں اگر آپ صرف ایک ہفتہ صرف کریں گے تو آپ کی سمجھ میں خود بخود یہ بات آجائے گی کہ ان خصوصیات کو ملحوظ رکھ کر صفائی و طہارت کا کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا جاسکتا جس پر اس نوعیت کے اعتراضات وارد نہ ہوسکتے ہوں جو آپ نے پیش کیے ہیں۔ آپ کو بہرحال کچھ چیزیں ایسی مقرر کرنی پڑیں گی جن کے پیش آنے پر ایک طہارت کو ختم شدہ فرض کرنا اور دوسری طہارت کو ضروری قرار دینا ہوگا۔ آپ کو یہ بھی متعین کرنا ہوگا کہ ایک طہارت کی مدت قیام(Duration) کن حدود تک رہے گی اور کن حدود پر ختم ہوجائے گی۔ اس غرض کے لیے جو حدیں بھی آپ تجویز کریں گے ان میں ناپاکی ظاہر اور نمایاں اور محسوس نہ ہوگی بلکہ فرضی اور حکمی ہی ہوگی اور لامحالہ بعض حوادث ہی کو حد بندی کے لیے نشان مقرر کرنا ہوگا۔ پھر آپ خود غور کیجیے کہ آپ کی تجویز کردہ حدیں ان اعتراضات سے کس طرح بچ سکتی ہیں جو آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔
جب آپ اس زاویہ نظر سے اس مسئلہ پر غور کریں گے تو آپ خود بخود اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ شارع نے جو ضابطہ تجویز کردیا ہے وہی ان اغراض کے لیے بہترین اور غایت درجہ معتدل ہے۔اس کے ایک ایک جزئیہ کو الگ الگ لے کر علت و معلول اور سبب و مسبب کا ربط تلاش کرنا معقول طریقہ نہیں ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ ہے کہ کیا بحیثیت مجموعی ان اغراض و مصالح کے لیے جو اوپر بیان ہوئی ہیں، اس سے بہتر اور جامع تر کوئی ضابطہ تجویز کیا جاسکتا ہے؟ لوگوں کو احکام وضو میں جو غلط فہمی پیش آتی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس بنیادی حکمت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جو بحیثیت مجموعی ان احکام میں ملحوظ خاطر رکھی گئی ہے بلکہ ایک ایک جزئی حکم کے متعلق یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں فعل میں آخر کیا بات ہے کہ اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی ضرب آخر کس طرح شکست وضو کا سبب بن جاتی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر63ھ۔ جنوری، فروری 44ء)