لباس اور چہرے کی شرعی وضع
سوال: مطالبہ کیا جاتا ہے کہ صحیح معنوں میں مسلمان بننے کے لیے آدمی کو لباس اور چہرے کی اسلامی وضع قطع اختیار کرنی چاہئے۔براہ کرم بتائے کہ اس سلسلے میں اسلام نے کیا احکامات دیے ہیں؟
جواب: لباس اور چہرہ کی وضع قطع کے متعلق آپ نے جو سوال کیا ہے اس کا جواب تو میں دے دیتا ہوں، لیکن اس سے پہلے آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ظاہر کی اصلاح باطن کی اصلاح پر مقدم نہ ہونی چاہئے۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو قرآنی معیار کے مطابق حقیقی مسلمان بنانے کی کوشش کیجیے۔ پھر ظاہر کی تبدیلی اس حد تک کرتے چلے جائے جس حد تک باطن میں واقعی تبدیلی ہوتی جائے۔ ورنہ مجرد ضابطہ و قانون(Rules and Regulations) کو سامنے رکھ کر اگر آپ نے اپنے ظاہر کو اس نقشہ پر ڈھال لیا جو حدیث و فقہ کی کتابوں میں ایک متقی انسان کے ظاہری نقشہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ اور اندر تقویٰ پیدا نہ ہوا تو آپ کی مثال ایسی ہوگی جیسے تانبے کے سکہ پر اشرفی کا ٹھپہ لگا ہوا ہو۔ اشرفی کا ٹھپہ لگانا کوئی بڑا مشکل کام نہیں ہے۔ بہت آسانی سے جس سستی سے سستی دھات پر چاہیں اس کو لگا سکتے ہیں۔ لیکن زر خالص بہم پہنچانا ایک مشکل کام ہے، اور مدت کی کیمیا گری سے یہ چیز حاصل ہوا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک مدت سے ظاہر پر غیر معمولی زور دیا جارہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اشرفی کے ٹھپے کے ساتھ تانبے، لوہے، سیسے اور ہر قسم کی گھٹیا دھاتوں کے سکے چل پڑے ہیں۔ عملی دنیا کا بازار ایسا بے لاگ صراف ہے کہ وہ زیادہ مدت تک اس جعل سازی سے دھوکا نہیں کھا سکتا۔ کچھ مدت تک تو ہماری دھوکے کی اشرفیاں چل گئیں، لیکن اب بازار میں کوڑی بھر بھی قیمت ان کی باقی نہیں رہی ہے۔ پس ہمیں جماعت اسلامی میں جس قسم کی دینداری پیدا کرنی ہے،اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اشرفی کا ٹھپہ لگانے سے پہلے سونے کا سکہ بننے کی کوشش کریں۔
لباس اور چہرے کی وضع اور ایسے ہی دوسرے ظواہر کے متعلق نبی کریمﷺ نے جتنی ہدایات دی ہیں وہ مدینہ طیبہ کے آخری پانچ چھ برسوں کی ہیں۔ اس سے پہلے پندرہ سولہ سال تک آپ اپنے متبعین میں تقویٰ اور احسان کی وہ صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے جن کا مفصل نقشہ قرآن مجید اور احادیث نبویﷺ میں بیان ہوا ہے۔اس ترتیب پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے جس کو تزکیہ نفوس کی خدمت پر مقرر فرمایا تھا، اس نے بھی پہلے اپنی پوری توجہ مس خام کو کندن بنانے ہی پر صرف کی تھی۔ پھر جب کندن بنالیا تب اس پر اشرفی کا نقش مرتسم کیا۔
لیکن اس تقدیم و تاخیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے احکام شرعی کی تعمیل سے جی چرانے کا بہانہ بنالیا جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی متقیانہ وضع بنانے سے پرہیز کیا جائے جس کی تہہ میں واقعی تقویٰ اور خدا ترسی موجود نہ ہو اور جس کے اندر اسلامی اخلاق کی روح مفقود ہو۔
لباس کے متعلق اسلام نے جس پالیسی کا تعین کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ایسی وضع میں رہیں جس میں آپ کو دیکھ کر ہر شخص معلوم کرسکے کہ آپ مسلمان ہیں بحیثیت مجموعی آپ کی وضع قطع کفار سے مشابہ نہ ہونی چاہئے۔
ڈاڑھی کے متعلق نبی کریمﷺ نے کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے، صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ رکھی جائے۔ آپ اگر ڈاڑھی رکھنے میں فاسقین کی وضعوں سے پرہیز کریں اور اتنی ڈاڑھی رکھ لیں جس پر عرف عام میں ڈاڑھی رکھنے کا اطلاق ہوتا ہو،(جسے دیکھ کر کوئی شخص اس شبہ میں مبتلا نہ ہو کہ شاید چند روز سے آپ نے ڈاڑھی نہیں مونڈی ہے) تو شرع کی منشا پوری ہوجاتی ہے خواہ اہل فقہ کی استنباطی شرائط پر وہ پوری اترے یا نہ اترے۔
سر کے بالوں کے متعلق صرف یہ ہدایت ہے کہ کچھ منڈوانا اور کچھ رکھنا ممنوع ہے موجودہ زمانہ میں جس قسم کے بالوں کو پنجاب میں ’’بودے‘‘کہتے ہیں اور جنہیں یوپی میں انگریزی بال کہا جاتا ہے، ان کے ناجائز ہونے کی مجھے کوئی دلیل نہیں ملی۔ لیکن ایک غیر مسلم قوم کی ایجاد کردہ وضع کو سر چڑھانے میں کراہت کا پہلو ضرور ہے اور اسی لیے میں نے اس وضع کو بدل دیا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال62ھ ۔ ستمبر، اکتوبر43ء)