والدین کی مشتبہ جائیداد اور کمائی سے استفادہ
سوال:مدت سے جماعت اسلامی میں شامل ہونے کے لیے اپنے آپ کو تیار کررہا ہوں مگر رزق حرام سے اپنے آپ کو بچانے اور حلال اور طیب طریقوں سے ضروریات زندگی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا ہوں۔ہمارا آبائی ذریعہ معاش زمینداری ہے اور مجھے یہ معلوم ہے کہ مدتوں سے ہماری زمینیں نہ تو شرعی ضابطہ کے مطابق وارثوں میں تقسیم ہوئی ہیں اور نہ ان میں سے شرعی حقوق ادا کیے جاتے رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ مجبوراً میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے والدین سے روپیہ لیتا ہوں۔ اس کا لینا اور استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟نیز یہ کہ آئندہ جو میراث مجھے ان سے پہنچنی ہے وہ مجھے لینی چاہئے یا نہیں؟
جواب: زمانہ جاہلیت کی جائیدادیں جو غیر اسلامی معاشی نظام میں پیدا ہوئی ہوں اور ایک سے دوسرے کو غیر اسلامی طریقوں پر منتقل ہوتی رہی ہوں، اصولاً تو ساری کی ساری مشتبہ اور غلط ہوتی ہیں، لیکن مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ جو ایسی جائیدادیں آباؤ اجداد کے ترکہ میں پہنچی ہیں انہیں وہ تلف کردیں یا ان سے دست بردار ہوجائیں۔ اور نہ انہیں یہ تکلیف دی گئی ہے کہ کسی مال کو لیتے ہوئے اس کی ابتدائی اصل کی تحقیق کریں۔بلکہ حکم صرف یہ دیا گیا ہے کہ جب سے تم اسلام کو اپنے قانون زندگی کی حیثیت سے قبول کررہے ہو اس وقت سے کوئی مال تمہارے پاس نہ تو ناجائز طریقہ سے آئے اور نہ کسی ناجائز راستے میں جائے، اور یہ کہ جتنے تصرفات اس میں آئندہ تم کرو وہ سب شریعت کے مطابق ہوں۔ رہے سابق کے اہل حقوق تو اگر وہ موجود ہوں اور ان کا حصہ بھی متعین طور پر معلوم ہو تو ان کے حق انہیں ادا کردیے جائیں، ورنہ ایسے اموال کو اپنے قبضہ میں رکھتے ہوئے آئندہ جن جن لوگوں کے حق ان اموال میں پیدا ہوں وہ ادا کیے جاتے رہیں۔
(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر۶۴ھ جنوری، فروری۴۵ء)