رکنیت جماعت اسلامی کی ایک درخواست پر فیصلہ
سوال: ایک مقامی جماعت اسلامی کے امیر رپورٹ کرتے ہیں
’’… ایک صاحب عرصہ سے سرگرمی سے کام کررہے ہیں، رکنیت کے اہل ہیں، عرصہ سے ان کی درخواست پڑی ہے… ان کی ذاتی زندگی شریعت کے مطابق ہے۔ مگر دکان کے حسابات اصلی پیش نہیں کرتے… کیونکہ انکم ٹیکس والے نفع کی فیصدی اتنی زیادہ لگاتے ہیں اگر اصل بکری دی جائے تو ساری آمدنی ٹیکس میں چلی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چیز قابل اعتراض نہیں ہے۔‘‘ اس پر حلقے کی جماعت اسلامی کے امیر رپورٹ کرتے ہیں:
’’درخواست کندہ نہایت صالح نوجوان ہے اور جماعت کے کاموں میں کافی ایثار و سرگرمی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ اس کے بارے میں انہی جعلی حسابات کا معاملہ ہمارے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اگر صحیح حسابات پیش کیے جائیں تو سیلزٹیکس اور انکم ٹیکس کی نظر نہ صرف منافع کی کمائی بلکہ پونجی کا ایک حصہ بھی صرف ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں وہ نہایت مجبوری کی حالت میں غلط حسابات پیش کرتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمارے لیے یہ بھی مشکل ہے کہ ایک ایسے شخص کو جان بوجھ کر غلط بات کو صحیح بنا کر پیش کرتا ہے، رکنیت کے لیے کیسے قبول کرلیں۔ چونکہ یہ ایک منفرد کیس نہیں ہے… اس لیے اپنی اور مجلس شوریٰ کی رہنمائی کے لیے یہ درخواست آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں کہ آپ ہمیں اس کے متعلق مشورہ دیں کہ ایسے حالات میں ہم کیا رویہ اختیار کریں؟‘‘
جواب: ہم نے یہ جماعت اس لیے نہیں بنائی ہے کہ ایک ایک آدمی ایک ایک مجبوری کی بنا پر دین و اخلاق کے ایک ایک اصول کو توڑتا چلا جائے۔ اگر ہمیں ایسا کرنا ہوتا تو پھر اس جماعت کے بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہمارے پیش نظر ایسے لوگوں کو منظم کرنا ہے جو بہرحال صداقت اور دیانت پر مضبوطی سے قائم رہیں اور جھوٹ اور بددیانتی کی طاقتوں سے دبنے کی بجائے ان سے لڑیں۔ اگر ہم اس طرح جماعت کے نظم میں ڈھیل دیتے چلے جائیں کہ جن جن بددیانتیوں کے لیے لوگ مجبور ہوں، ان کی اجازت دے دیا کریں تو اس جماعت میں ضعیف الاخلاق لوگ جمع ہوجائیں گے اور ان سے اصلاح کا کام نہ ہوسکے گا۔ یہ ہم کو معلوم ہے کہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس نے کس طرح تمام تجارت پیشہ لوگوں کو جھوٹا اور جعل ساز بنادیا ہے۔ یہ بھی ہم کو معلوم ہے کہ سرکاری ملازموں کو رشوت دے کر بڑی آسانی سے وہ تمام تکلیفیں رفع کی جاسکتی ہیں جو اس سلسلے میں پیش آسکتی ہیں۔ یہ بھی ہم کو معلوم ہے کہ اگر کوئی رشوت نہ دے اور جعلی حسابات نہ رکھے تو اس کے لیے کاروبار چھوڑ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ ہم اپنے ارکان کو رشوت دینے کی اجازت دے سکتے ہیں اور نہ جعلی حسابات دینے کی۔
اس کی بجائے ان کا کام یہ ہے کہ وہ تجارت پیشہ لوگوں میں اخلاقی حسن پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ان کو منظم کریں اور ان کی باقاعدہ انجمنیں قائم کرکے… اور اگر وہ پہلے سے قائم ہوں تو ان کی رائے کو ہموار کرکے… یہ متفقہ فیصلہ کرائیں کہ کوئی شخص کسی سرکاری افسر کو ایک پیسہ رشوت نہ دے، کوئی جھوٹے حسابات نہ رکھے، اگر سرکاری ملازمین انتقاماً ان کے اصلی حسابات کو غلط قرار دے کر ان کی فروخت یا آمدنی فرضی طور پر زائد تشخیص کریں اور ان پر زیادہ ٹیکس عائد کریں تو کوئی شخص اس ٹیکس کا پیسہ ادا نہ کرے۔ اگر ایسے بے جاٹیکس کی وصولی کے لیے کسی کی دکان کا مال نیلام کیا جائے تو اس پر کوئی شخص بولی نہ دے جب تک اس طرح کی تنظیمیں نہ ہوں گی، ہمارے ارکان کو نقصان اٹھا کر کام کرنا پڑے گا، کیونکہ 99 بے ایمانوں کے درمیان ایک ایماندار کبھی چین سے زندگی بسر نہیں کرسکتا لیکن اگر سب کو… یا کم از کم اکثریت ہی کو… دیانت اور راست بازی پر متفق کرلیا جائے تو سب کے لیے حلال روزی حاصل کرنا بھی ممکن ہوجائے گا اور سرکاری ملازمین کی زیادتیوں کا بھی سدباب ہوسکے گا۔
(ترجمان القرآن۔ رمضان ۱۳۷۰ھ، جولائی ۱۹۵۱ء)