جماعتِ اسلامی اور علمائے کرام
سوال: جماعتِ اسلامی اور علمائے حق کا نزاع اندریں صورت قابل افسوس ہے۔ اس سے اصل کام کی رفتار پر بہت اثر پڑے گا اور یہ معمولی بات نہ سمجھی جائے۔ مذہبی جماعتوں میں سے جماعتِ اسلامی کو اچھی نگاہ سے دیکھنے والی اور جائز حد تک اتفاق ظاہر کرنے والی ایک اہل حدیث کی جماعت ہے (جو قلیل ہے) اور دوسری جماعت علمائے حق کی ہے جو اہل دیو بند سے متعلق ہے (یعنی بریلویوں کے مقابلے میں) اور یہ کثیر تعداد میں ہے۔ اگر اس گروہ عظیم کے اکابر و اصاغر جماعتِ اسلامی سے اس رنگ میں متنفر ہوتے ہیں تو بنظر غائز دیکھ لیا جائے کہ عوام میں کتنی بے لطفی پیدا ہوجائے گی اور اصل مقصد سے ہٹ کر جماعتِ اسلامی کے افراد کس فرقہ بندی کی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں گے۔
تاحال ابھی اختلافات کی ابتدا ہے۔ بریلویوں کی طرف سے ’’خطرہ کی گھنٹی‘‘ شائع ہوئی ہے۔ معلمین اہل دیو بند کی صرف سے دو چار اشتہار شائع کیے گئے ہیں۔ ان کا تدارک ہوسکتا ہے، غلط فہمی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے اگر تھوڑی دیر جماعت کے اتمام مقاصد کی سیاست کو سامنے نہ بھی رکھا جائے تب بھی سوء ظنی عامتہ المسلمین کی دور کرنی تو ان حالات میں ازروئے اسلام ضروری ہے۔
جماعتِ اسلامی کی طرف سے میری دانست کے موافق شاید کوثر، میں ان شکایات کا جائزہ کچھ سرسری طور پر لیا گیا ہے۔ باقی مستقل طور پر ان کے جوابات کی طرف توجہ نہیں کی گئی ہے۔ اس میں تاخیر و تاجیل بتقاضائے وقت میرے خیال میں ہر گز درست نہیں۔
موٹے موٹے اعتراضات یا شکایات قریباً سامنے آچکے ہیں جو عبارتوں کو قطع و برید کرکے تیار کیے گئے ہیں، یا باستنباط تجویز ہوئے ہیں۔ بہر کیف ان کا نمبر وار تسلی بخش جواب جماعت کی طرف سے آجانا چاہیے۔ اگر وہ معاملہ جماعت سے تعلق رکھتا ہے اور اگر آپ کی ذات سے متعلق ہے تو اس کو آپ ذاتی طور پر بطریق احسن واضح کریں کہ ایک سلیم الطبع آدمی کو پھر سوال و جواب کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑے۔
ان ساری تفصیلات تسلی بخش کے بعد پھر بھی ضدی طبائع اگر جوں کے توں سوال جڑتے رہیں تو اس وقت آپ بے شک جواب سے سروکار نہ رکھیں اور اپنے کام میں مصروف رہیں اور جماعت کے تمام افراد کو بھی یہی تلقین ہونی چاہیے کہ اپنے مسلک کی وضاحت کے سوا اعتراض و جواب سے خاموشی اختیار کی جائے اور معاملہ اللہ جل جلالہ کے سپرد کردیا جائے۔
قریباً سوالات حسب ذیل ہی پیش آ رہے ہیں۔ ان کے جوابات آنجناب خود ہی سپرد قلم فرمادیں:
اوّل: جماعتِ اسلامی میں جو مسلمان داخل نہیں، ان کے اسلام و ایمان کے متعلق کیا رائے ہے؟ اسلام میں داخل اور مسلمان ہیں یا نہیں؟
ثانی: کبائر کے مرتکب مسلمانوں کا کیا حکم ہے؟
ثالث: سلف صالحین (صحابہ، تابعین، اولیا اللہ، صوفیا، علما اہل السنۃ) کے ساتھ جمہور اہل السنۃ و الجماعۃ کے جو کچھ معتقدات ہیں، ان سب کو آپ تسلیم کرتے ہیں یا کہیں کچھ جمہور کے ساتھ اختلاف ہے؟ اگر اختلاف ہے تو ان خلافیات کو بیان فرمایا جائے۔
رابع: اپنے مجدد اور مہدی ہونے کے متعلق کیا رائے ہے؟ آئندہ چل کر اگر آپ مجدد یا مہدی ہونے کا دعویٰ کریں وہ صحیح ہوگا یا غلط؟
خامس: کیا آپ جمہور علما سلف کی تحقیقات و اجتہادات پر اپنی تحقیقات کو ترجیح دیتے ہیں یا اس کے برعکس اپنے استنباطات کو ان کے اجتہادات کے مقابلہ میں مرجوع قرار دیتے ہیں؟
جواب: آپ کا خیال درست ہے کہ موجودہ حالات میں جماعتِ اسلامی اور علمائے کرام کی آویزش اسلامی مقاصد کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اس وجہ سے مجھے بھی اس کا بڑا رنج ہے۔ مگر میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا ہوں کہ اس میں میری یا جماعت کے کارکنوں یا پوری جماعت کی کیا ذمہ داری ہے۔ ہماری مطبوعات دیکھ لیجیے۔ ہماری تقریروں سے متعلق عام سامعین سے پوچھ لیجیے۔ ہماری سرگرمیوں کا جائز لے کر تلاش کیجیے۔ کیا کہیں کوئی ایسی چیز ملتی ہے جو علما کے کسی گروہ کے لیے بجا طور پر موجب اشتعال کہی جاسکتی ہو؟ کیا ہم نے بھی کبھی کسی گروہ کو طعن و ملامت کا ہدف بنایا؟ کسی کے خلاف ’’خطرے کی گھنٹی‘‘ بجائی۔ کسی پر فتوے جڑے؟ کسی کے خلاف اشتہار بازی کی؟ اگر کبھی ہم نے کسی سے اختلاف کا اظہار کیا بھی ہے تو علمی حیثیت سے کیا ہے، دلائل کے ساتھ کیا ہے، دین کی خاطر کیا ہے، احترام اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیا ہے، اور بات کو اسی حد تک محدود رکھا ہے جس حد تک کسی مسئلے میں ہمیں کسی سے اختلاف تھا۔ کوئی شخص ہماری کسی ایسی تحریر یا تقریر کی نشاندہی نہیں کرسکتا جو اس سے مختلف نوعیت کی ہو۔ اہل حدیث ہوں یا دیو بندی یا بریلوی، ہم نے ان میں سے کسی گروہ پر یا اس کے عقائد اور مسلک پر، یا اس کے بزرگوں پر کبھی حملہ نہیں کیا، اور نہ فی الواقع ہمارے دل میں کبھی کسی حملے کا خیال ہی آیا۔ پھر دین کی جو تعبیر و تفسیر ہم آج تک پیش کرتے رہے ہیں، اور جس چیز کی ہم نے دنیا کو دعوت دی ہے، اس میں بھی یہ حضرات درحقیت کوئی خامی نہیں دکھا سکے اور نہ کسی ایسی چیز کی نشاندہی کرسکے جو حقیقت میں ضلالت ہو۔ اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ یہ آویزش یک طرفہ ہے یا دو طرفہ اور اس کی کوئی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے؟
افسوس کہ ان حضرات کو حالات کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ انہیں کچھ احساس نہیں کہ اس وقت اہل دین کی باہمی مخالفت دین کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے اور اس سے عہد حاضر کی ضلالتوں کو کتنا بڑا فائدہ پہنچتا ہے۔ انہوں نے اپنے گروہی تعصبات سے خالی ہوکر ایک لمحہ کے لیے بھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جماعتِ اسلامی اس وقت دین کی کیا خدمت کر رہی ہے اور اس مرحلے پر اس کے گر جانے سے دینی محاذ میں کتنا بڑا شگاف پڑ جائے گا، جسے پُر کرنے والا کوئی دوسرا منظم اور مستعد گروہ موجود نہیں ہے۔ انہیں یا تو اس بات کی خبر نہیں ہے، یا اس کی پرواہ نہیں ہے کہ اگر جماعتِ اسلامی خدانخواستہ ناکام ہوگئی تو پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں مسلمانوں کی ’’ نئی روشنی‘‘ سے متاثر نسلوں کو الحاد و اباحیت کی تحریکوں سے بچانے والی کوئی منظم طاقت موجود نہ رہے گی اور علمائے کرام اپنے بل بوتے پر یہ خدمت انجام نہ دے سکیں گے۔ انہیں اس امر کا بھی یا تو شعور نہیں ہے یا ہے تو اس کی کوئی قدر ان کی نگاہ میں نہیں ہے، کہ پاکستان کو ایک اسلامی مملکت میں تبدیل کرنے اور یہاں اقتدار کی مسند پر بے دینی کی جگہ دین کو لانے کے لیے جماعتِ اسلامی کی کوششیں کیا اہمیت رکھتی ہیں اور ان کے ناکام ہونے کی صورت میں یہاں اشتراکیت یا ’’کمالیت‘‘ کو مسلط ہوجانے سے روک دینا تنہا علمائے کرام کے بس کا کام نہیں ہے۔ ان حضرات نے اس حقیقت کی طرف سے بھی آنکھیں بند کرلی ہیں کہ ایک زمانہ دراز کے بعد اس برعظیم میں بڑی سردردی و جانفشانی کے بعد ایک ایسی تحریک اٹھی ہے جو دین کے بعض اجزا کو نہیں بلکہ پورے دین کو پورے نظام زندگی پر غالب کرنا چاہتی ہے اور ایک ایسی جماعت منظم ہوئی ہے جس نے جدید و قدیم دونوں طرز کے تعلیم یافتہ لوگوں کو اس مقصد عظیم کے لیے متحد، منظم اور متحرک کیا ہے۔ افسوس اور صد افسوس کہ ایسی ایک تحریک اور ایسی ایک جماعت کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ کرنے سے انہیں ان کے گروہی تعصبات روک رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی ٹھنڈے دل سے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے کہ کفر و فسق و ضلالت کے اس طوفان میں اس تحریک کا ساتھ دینے کی بجائے اس کو مٹانے کی کوشش کرنا دنیا اور آخرت میں ایک سخت وبال اپنے سر لینا ہے۔
یہ حضرات بار بار اپنی تحریروں اور تقریروں اور اپنے فتوؤں میں اس بات پر زور دے رہے ہیں اور عملاً بھی اس امر کی کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو جماعتِ اسلامی کا لٹریچر پڑھنے سے روکا جائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے اس لٹریچر کو پڑھا بھی ہے یا نہیں۔ بہرحال ان کی یہ کوشش دانستہ ہو یا نادانستہ، فی الواقع ایک سخت دشمنی ہے جو یہ حضرات اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں اور خود اپنے زیر اثر مذہبی گروہوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ اگر ان کوششوں سے جدید تعلیم یافتہ نسل جماعتِ اسلامی کا لٹریچر پڑھنے سے رک جائے تو میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے وہ کون سا لٹریچر پیدا یا فراہم کیا ہے جو ان لوگوں کو خود ان کی زبان میں اور اصطلاحوں میں دین کو سمجھا سکتا ہو اور انہیں دور جدید کی ضلالتوں سے بچا سکتا ہو؟ اور اگر ان کی کوششوں سے مذہبی طبقے اور خصوصاً عربی مدارس کے طلبہ اور فارغ التحصیل حضرات اس لٹریچر کے مطالعے سے رک جائیں تو مجھے بتایا جائے کہ یہاں کون سا اور لٹریچر ایسا موجود ہے جو ان لوگوں کو ٹھیٹھ اسلامی نقطہ نظر سے دَورِ حاضر کے مسائل کو سمجھاتا ہو اور انہیں اس قابل بناتا ہو کہ وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں سے آنکھ ملا کر بات کرسکیں؟ اس پہلو سے اگر آپ معاملہ پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو کہ ہمارے لٹریچر کی جو مخالفت ان حضرات کی طرف سے کی جارہی ہے یہ کیسی سخت ناعاقبت اندیشی ہے اور اس کے نتائج کس قدر برے ہیں۔
پھر ذرا اس کا بھی اندازہ کیجیے کہ ان حضرات کی مخالفت کے باوجود جو لوگ اس لٹریچر کو پڑھیں گے، ان کی نگاہ میں نہ صرف ان حضرات کی، بلکہ پورے گروہ علما کی وقعت کو کیسا سخت صدمہ پہنچے گا اور وہ علمبردارنِ دین کی دیانت کو کس قدر مشتبہ سمجھنے لگیں گے۔ ہماری آج تک یہ کوشش رہی ہے اور اب بھی ہم اس کے لیے کوشاں ہیں کہ مسلمانوں کو علم دین کی ضرورت اور اہمیت کا احساس دلائیں، اور یہ بات ان کے ذہن نشیں کریں کہ ان کی زندگی کا نظام کبھی درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی باگیں دین کی واقفیت رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہو۔ لیکن آپ مجھے بتائیے کہ جب عوام اور جدید تعلیم یافتہ لوگ ایک طرف ہمارے لٹریچر کو دیکھیں گے کہ بڑے بڑے نامور علما نے اس چیز کی کس کس طرح مخالفت کی ہے تو ہماری کوششیں ان کے اندر علما کے لیے حسن ظن پیدا کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوسکیں گی۔
آپ چوں کہ خود علما کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے میں یہ باتیں آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ آپ انہیں ان حضرات تک پہنچائیں جو خواہ مخواہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں اور جس حد تک بھی آپ کے بس میں ہو، انہیں سمجھانے کی کوشش کریں۔
اب میں ان سوالات کی طرف توجہ کرتا ہوں جو آپ نے عنایت نامہ میں تحریر فرمائے ہیں:
(۱) پہلے سوال کے متعلق اوّلین بات جو دریافت طلب ہے، وہ یہ ہے کہ آخر یہ سوال کیسے پیدا ہوا؟ کیا ہم نے کبھی یہ کہا تھا یا لکھا تھا کہ جو شخص جماعتِ اسلامی میں داخل نہیں ہے، وہ مسلمان نہیں ہے؟ اگر میری یا جماعتِ اسلامی کے کارکنوں کی طرف سے کبھی ایسی کوئی بات کہی یا لکھی گئی ہے تو اس کا حوالہ کیوں نہیں پیش کیا جاتا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے پیدا ہونے میں ہماری کسی غلطی کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ صرف مخالفین کے ’’حسن نیت‘‘ کی آفریدہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عام مسلمانوں کو کسی طرح ہمارے خلاف بھڑکایا جائے اور کہا جائے کہ یہ لوگ تمہیں مسلمان نہیں سمجھتے۔ یہ نسخہ اس سے پہلے بھی اصلاح کرنے والوں کے خلاف بارہا استعمال کیاجا چکا ہے اور آج یہ ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
لیکن میں صرف اس منفی جواب ہی پر اکتفانہ کروں گا۔ میں آج اس سوال کا کوئی نیا جواب بھی نہ دوں گا تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ آج اس الزام سے بچنے کے لیے اس کا انکار کیا جارہا ہے۔ میں اس وقت کی تصریحات پیش کرتا ہوں جبکہ جماعتِ اسلامی کی تشکیل کی گئی تھی۔ اگرآپ کے پاس ’’ترجمان القرآن‘‘ کی پرانی فائل موجود ہو تو براہ کرم ربیع الاول ۶۰ھ، (مئی ۴۱ء) کا پرچہ نکال کر دیکھئے۔ اس کے اشارات میں یہ عبارت آپ کو ملے گی:
’’جماعتِ اسلامی کے نام سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس جماعت سے باہر جو لوگ ہیں، ان کوہم غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ ہم نے یہ نام جس وجہ سے اختیار کیا ہے، وہ اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس جماعت کے مسلک میں نہ اسلام سے کم کوئی چیز ہو نہ اس سے زائد، جس کا عقیدہ وہی ہو جو اسلام کا ہے، نصب العین وہی ہو جو اسلام نے پیش کیا ہے، نظام جماعت وہی ہو جس کا نقشہ کتاب و سنت میں ملتا ہے اور کام کا ڈھنگ وہی ہو جو انبیا نے سکھایا ہے، اس کے لیے آخر ’’جماعتِ اسلامی‘‘ کے سوا اور کیا نام ہوسکتا ہے۔ مگر ہم ہر گز یہ فرض نہیں کرتے، اور ایسا فرض کرلینے کا ہم کو حق نہیں ہے کہ ایمان بس اسی جماعت کے اندر منحصر ہے اور اس کے باہر جو لوگ ہیں وہ مومن نہیں ہیں۔ بلکہ اگر کوئی اس جماعت کی مخالفت کرے تب بھی مجرد اس کی مخالفت کی بِنا پر ہم اسے غیر مومن نہیں کہہ سکتے … بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص ہم سے زیادہ صاحب ایمان ہو اور وہ نیک نیتی کے ساتھ کسی غلط فہمی کی بِنا پر ہماری مخالفت کرے۔ اپنی حد تک ہم انتہائی کوشش کریں گے کہ اپنے مسلک اور طریقہ کار کو عین اسلام کے مطابق رکھیں تاکہ کسی شخص صالح و مومن کے لیے ہم سے علیحدہ رہنے کی کوئی وجہ نہ ہو اور اس طرح تمام اہل ایمان آخر کار ایک ہی نظام میں منسلک ہو سکیں۔ لیکن اپنی اس آرزو کو ایک حاصل شدہ واقعہ فرض کرکے ہم ہر گز فتنہ میں نہ پڑیں گے۔ ہم کو بہرحال مسلمانوں میں ایک فرقہ بننے سے بچناہے اور اس غلو سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں جو ہمیں خیر کی بجائے شرکا خادم بنائے‘‘۔
اس کے بعد جب ہندوستان میں پہلی مرتبہ مجھ پر یہ الزام لگایا گیا کہ میں عام مسلمانوں کی تکفیر کر رہا ہوں اور بعض حضرات نے ازراہِ عنایت مجھے ’’مکفر ملت‘‘ کا خطاب عنایت فرما دیا تو میں نے اپنے ایک مضمون میں پھر پوزیشن واضح کی۔ یہ مضمون ’’رفع شبہات‘‘ کے عنوان سے ستمبر، اکتوبر، نومبر ۱۹۴۱ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس کی یہ عبارت قابل ملاحظہ ہے:
’’میرا اصل مدعا اقامت دین کی جدو جہد کے لیے صالح آدمی چھانٹنا ہے نہ کہ مسلمانوں کے کفر و ایمان کی بحث چھیڑنا۔ مسلمانوں کی موجودہ ایمانی و اخلاقی حالت پر جو تنقیدیں میں نے کی ہیں، ان سے بھی میرا مقصد یہ بتانا تھا کہ دعوتِ الی اللہ کے مقصد عظیم کا اعتبار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اس وقت کیا کیا کوتاہیاں پائی جاتی ہیں اور یہ کہ اس کار خیر کے لیے مسلمانوں کے اس مجموعہ میں سے کس قسم کے لوگ مناسب اور مطلوب ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے دستور میں شہادتین کو شرط رکنیت قرار دینے کی غرض بھی صرف یہ ہے کہ جو لوگ اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں، ان کے متعلق یہ اطمینان کرلیا جائے کہ وہ صالح العقیدہ ہیں اور جاہلیت کی ان آمیزشوں کو لیے ہوئے نہیں آرہے ہیں جو بدقسمتی سے مسلمانوں کے اندر گھس آئی ہیں، نیز یہ کہ دعوت الی اللہ کی خدمت شروع کرنے سے پہلے وہ ایک مرتبہ پھر اللہ کے ساتھ اپنے عہد و میثاق کو استوار کرلیں اور نو مسلمان والے جوش کے ساتھ اس کام کے لیے آگے بڑھیں۔ میرے اس مقصد کو لوگوں نے نہیں سمجھا اور بعض ہوشیار لوگوں نے قصداً بھی اس کے متعلق غلط فہمیاں پھیلائیں۔ اس وجہ سے جن بزرگوں کو میری تحریرات کے تفصیلی مطالعہ کا موقع نہیں ملا ہے اور جن تک میری بات دوسروں کی تحریفات کے واسطہ سے پہنچی ہے، انہیں یہ غلط فہمی ہوگئی کہ میں مسلمانوں کو ’’ایمان اور یقین‘‘ سے خالی قرار دے رہا ہوں اور ان کو ’’دین کے دائرے سے باہر دھکیل کر پھر اندر آنے کی دعوت دیتا ہوں‘‘ اور یہ کہ ’’جس توپ خانے کا دہانہ کفر کی طرف کھولا گیا تھا، اب اہل ایمان کی طرف کھول رہا ہوں۔‘‘اللہ شاہد ہے کہ میں ان باتوں سے بری ہوں‘‘۔
یہ تصریحات اب سے دس برس پہلے کی گئی تھیں اور اس کے بعد سے آج تک بارہا ان کو دہرایا جا چکا ہے، مگر داد دیجیے ان لوگوں کی ذہانت اور جسارت کی جو ان کے باوجود آج تک برابر اپنا یہ الزام دہرائے چلے جا رہے ہیں کہ یہ شخص مسلمانوں کو نا مسلمان قرار دیتا ہے، اور جماعتِ اسلامی اپنے دائرے سے باہر کسی کے ایمان و اسلام کی قائل ہی نہیں ہے۔ اللہ کے بندے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم جو ہر مسجد میں ہر امام کے پیچھے عام مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں۔ کیا ان سب کو کافر سمجھ کر ہی ایسا کرتے ہیں۔
(۲) آپ کو دوسرے سوال کا جواب بھی آج نئے سرے سے دینے کی بجائے اپنا ایک پرانا جواب ہی نقل کرتا ہوں جو اب سے کئی برس پہلے دیا گیا تھا۔ نومبرو دسمبر ۱۹۴۵ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے پہلے یہ بتایا تھا کہ کفر کی دو قسمیں ہیں، ایک کفر باعتبار حقیقت، جسکی بِنا پر آدمی عنداللہ مومن نہیں رہتا، دوسرا کفر باعتبار ظاہر جس کی بِنا پر ایک آدمی کو از خارج ملت قرار دے کر اسلامی سوسائٹی سے کاٹ پھینکنا جائز ہو۔ اسکے بعد پہلی قسم کے متعلق میں نے لکھا تھا :
’’اس میں شک نہیں کہ معصیت ایمان کی ضد ہے، لیکن مجرد معصیت، خواہ کتنی ہی بڑی ہو، لازماً ایمان کے مستقل طور پر سلب ہوجانے کی موجب نہیں ہوتی۔ کافر کی طرح مومن سے بھی بڑے سے بڑا گناہ سرزد ہوسکتا ہے۔ البتہ جو چیز مومن کے گناہ اور کافر کے گناہ میں فرق کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ مومن جب گناہ کرتا ہے تو عین حالت گناہ میں تو ایمان اس سے نکلا ہوا ہوتا ہے، لیکن جب وہ شہوات نفس کے اس غلبے اور نادانی کے اس پردے سے، جو عارضی طور پر اس کے قلب پر پڑگیا تھا، باہر نکل آتا ہے تو اس کو شرمساری لاحق ہوتی ہے۔ خدا سے نادم ہوتا ہے، آخرت کی سزا کا خوف کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ پھر اس سے ایسی حرکت کا ارتکاب نہ ہو۔ اس قسم کی معصیت خواہ کتنی ہی بڑی ہو، آدمی کو کافر نہیں بناتی، صرف گناہ گار بناتی ہے اور توبہ اس کو ایمان کی طرف واپس لے آتی ہے۔ برعکس اس کے کافر کے گناہ کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اسی گناہ گارانہ طرز عمل اور طرز زندگی کو اپنے لیے مناسب اور لذیذ اور درست سمجھتا ہے، اس کو خدا کی اور اس کے حکم کی کچھ پروا نہیں ہوتی کہ اس نے اس فعل کو گناہ اور حرام قرار دیا ہے، وہ پورے اصرار و استکبار کے ساتھ اسی فعل کا ارتکاب کیے جاتا ہے اور ندامت اس کے پاس نہیں پھٹکتی۔ یہ دوسری قسم کی گناہ گاری سلب ایمان کی موجب ہے اور یہ بجائے خود کبیرہ ہے، خواہ اس کے جذبہ کے ساتھ کوئی ایسا کام کر لیا جائے جس کو عرف عام میں ’’صغیرہ‘‘ سمجھا جاتا ہو۔ ان دونوں قسم کے گناہوں کو ایک ہی حیثیت دینا اور ان پر یکساں کفر کا حکم لگا دینا بالکل غلط ہے اور اس قسم کی افراط و تفریط خود کبیرہ کی تعریف میں آتی ہے۔ پہلی صدی سے آج تک بجز خارجیوں کے، یا معتزلہ کے گروہ کے اور کسی نے یہ رائے قائم نہیں کی‘‘۔
پھر دوسری قسم کے کفر کے متعلق میں نے لکھا تھا:
’’اس چیز کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ شریعت نے ایسی تکفیر کو کس و ناکس کی رائے کا کھلونا نہیں بنایا ہے۔ جس طرح کسی انسان کے جسمانی قتل کے لیے یہ شرط ہے کہ نظام اسلامی موجود ہو اور با اختیار قاضی تمام شہادتوں اور پوری صورتحال پر غور کرکے پوری تحقیق کے بعد یہ رائے قائم کرے کہ یہ شخص واجب القتل ہے، تب اسے قتل کیا جاسکتا ہے، اسی طرح ایک شخص کے روحانی قتل یعنی تکفیر کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ اس کے اوپر جو الزام لگایا گیا ہے، اس کی ایک قاضی شرح پوری تحقیق کرے، اس کا اپنا بیان لے، اس کے اقوال و افعال کو جانچ کر دیکھے، شہادتوں پر غور کرے اور اس کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ یہ شخص جماعت المسلمین سے کاٹ کر پھینک دینے کے لائق ہے‘‘۔
غور کیجیے کہ جو لوگ اس قدر صاف اور صریح بیان کے باوجود مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میں خوارج کی طرح گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتا ہو، وہ کتنا جھوٹ بولتے ہیں اور اسے پھیلا کر کتنا بڑا وبال اپنے سر لیتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ مجھ پر یہ الزام آج وہ لوگ لگا رہے ہیں جن کا اپنا دامن بہت سے اگلے اور پچھلے مسلمانوں کی تکفیر سے آلودہ ہے اور جن کے اپنے قلم سے لکھے ہوئے بہت سے فتاوائے تکفیر موجود ہیں۔ کیا یہ لوگ میری کوئی بھی ایسی تحریر پیش کرسکتے ہیں جس میں، میں نے کبھی کسی مسلمان کی تکفیر کی ہو۔
(۳) آپ کے تیسرے سوال کے متعلق میں پھر پوچھتا ہوں کہ آخر یہ سوال پیدا کہاں سے ہوا۔ کیا واقعی میری کوئی ایسی تحریر پیش کی جاسکتی ہے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہو کہ ان بزرگوں کے متعلق میرے خیالات جمہور اہل سنت سے مختلف ہیں۔ اس الزام کے ثبوت میں میری بعض تحریروں کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مگر ان کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اور ان کے اندر طرح طرح کی تحریفات کرکے ان کو ایسی معنی پہنائے گئے ہیں جو میرے خیالات کے بالکل برعکس ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں ایک طرف ان دانستہ تحریفات کو دیکھتا ہوں، جو مجھے زبردستی مجرم بنانے کے لیے کی گئی ہیں، اور دوسری طرف ان محرفین کے جبوں اور عماموں، اور ان کے تقویٰ کی شہرتوں کو دیکھتا ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان کے متعلق کیا رائے قائم کی جائے۔ افسوس ان لوگوں کو خود اپنی عزت کا بھی پاس نہیں۔ یہ ذرا نہیں سوچتے کہ پاکستان و ہندوستان میں ہزاروں انسان موجود ہیں جنہوں نے میری کتابیں پڑھیں ہیں۔ وہ جب ان کے فتوؤں میں میرے خلاف اس قسم کے بے بنیاد الزامات دیکھیں گے تو ان کی نگاہ میں ان کی کیا وقعت رہ جائے گی۔
میں نہ صرف آپ کو بلکہ ان تمام لوگوں کو جن تک یہ الزام پہنچے، یہ مشورہ دیتا ہوں کہ صرف مخالفین کے پیش کردہ اقتباسات پر اعتماد نہ کرلیں بلکہ میری جن عبارات کے حوالے دیئے جاتے ہیں، انہیں میری اصل کتابوں میں سے نکال کر دیکھیں اور ان کے سیاق و سباق کو ساتھ ہی دیکھ لیں۔ اس کے بعد انہیں خود معلوم ہوجائے گا کہ اس الزام کی حقیقت کیا ہے؟
(۴) آپ نے چوتھے نمبر پر جو سوال کیا ہے، اس کا جواب ’’ترجمان القرآن‘‘ میں اس سے پہلے بارہا دیا جا چکا ہے۔ اگر آپ کی نگاہ سے وہ جواب گزر چکے ہوتے تو اس سوال کی حاجت پیش نہ آتی۔ بہرحال جب آپ نے یہ سوال کیا ہے تو میں اس کا کوئی تازہ جواب دینے کی بجائے اپنے وہ جوابات نقل کیے دیتا ہوں جو اب سے کئی برس قبل میں نے اس وقت دیے تھے جب اس الزام تراشی کی ابتدا ہوئی تھی۔ ۴۱ء میں سب سے پہلے مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی نے ازراہ عنایت دبی زبان سے میرے متعلق اس شبہ کا اظہار کیا تھا۔ اس پر میں نے اپنے مضمون ’’رفع شبہات‘‘ میں عرض کیا تھا:
’’آپ کو میرے جرأت آمیز الفاظ سے شاید یہ گمان گزرا ہوگا کہ میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہوں اور کسی بڑے مرتبے کی توقع رکھتا ہوں۔ حالاں کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں، صرف اپنے گناہوں کی تلافی کے لیے کر رہا ہوں اور اپنی حقیقت خوب جانتا ہوں۔ بڑے مراتب تو درکنار اگر صرف سزا سے بچ جاؤں تو یہ بھی میری امیدوں سے بہت زیادہ ہے۔‘‘
(ترجمان القرآن۔ ستمبر، اکتوبرو نومبر ۱۹۴۱ء)
اس کے بعد اسی زمانہ میں جناب مولانا سیّد سلیمان ندوی نے میری ایک عبارت سے یہ معنی نکالے کہ میں مجدد ہونے کا مدعی ہوں۔ حالاں کہ میں نے اس عبارت میں اپنی حقیر کوششوں کو تجدید دین کی مساعی میں سے ایک سعی قرار دیا تھا۔ ان کے اس صریح الزام کے جواب میں، میں نے عرض کیا تھا:
’’(کسی کام کو تجدیدی کام کہنے سے) یہ لازم نہیں آتا کہ جو تجدیدی کام کرے وہ مجدد کے لقب سے بھی ملقب ہو۔ صدی کا مجدد ہونا تو اس سے بلند تر بات ہے۔ اینٹیں چن کر دیوار بنانا بہر حال ایک تعمیراتی کام ہے، مگر کیا یہ لازم ہے کہ جو چند اینٹیں چن دے، وہ انجینئر بھی کہلائے اور پھر انجینئر بھی معمولی نہیں، بلکہ اپنی صدی کا انجینئر؟ اسی طرح کسی کا اپنے کام کو تجدیدی کام یا تجدیدی کوشش کہنا، جبکہ فی الواقع وہ تجدید دین ہی کی غرض سے یہ کام کر رہا ہو، محض ایک امر واقع کا اظہار ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مجدد ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس صدی کا مجدد بننا چاہتا ہے۔ کم ظرف لوگ بے شک تھوڑا سا کام کرکے اور اونچے اونچے دعوے کرنے لگتے ہیں، بلکہ کام کا ارادہ ہی دعویٰ کی شکل میں کرتے ہیں۔ لیکن کسی ذی فہم آدمی سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کام کرنے کی بجائے دعوے کرے گا۔ تجدید دین کا کام ہندوستان میں اور دنیا کے دوسرے حصوں میں بہت سے لوگ کر رہے ہیں۔ خود مولانا(حضرت معترض) کو بھی ہم انہی میں شمار کرتے ہے۔ میں نے اپنی استطاعت تک اس خدمت میں حصہ لینے کی سعی کی ہے اور اب ہم چند خدام دین ایک جماعت کی صورت میں اسی کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کے کام میں بھی اتنی برکت دے کہ واقعی اس کے ہاتھوں سے دین کی تجدید ہوجائے، وہی درحقیقت مجدد ہوگا۔ اصل چیز نہ آدمی کا اپنا دعویٰ ہے نہ دنیا کا کسی کو مجدد کے لقب سے یاد کرنا، بلکہ اصل چیز آدمی کا ایسی خدمت کرکے اپنے مالک کے حضور پہنچنا ہے کہ وہاں اسے ایک مجدد کا مرتبہ حاصل ہو۔ میں مولانا کے حق میں اسی چیز کی دعا کرتا ہوں اور بہتر ہے کہ وہ بھی ’’عنقارا بلند است آشیانہ‘‘ کہنے کی بجائے دوسروں کے حق میں دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے دین کی کوئی ایسی خدمت لے لے۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بعض اسلامی الفاظ کو خواہ مخواہ ہوا بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ دنیا میں کوئی رومی عظمت کی تجدید کا داعیہ لے کر اٹھتا ہے اور رومیت کے پرستار اس کو مرحبا کرتے ہیں۔ کوئی ویدک تہذیب کی تجدید کا عزم لے کر اٹھتا ہے اور ہندویت کے پرستار اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ کوئی یونانی آرٹ کی تجدید کے ارادہ سے اٹھتا ہے اور آرٹ کے پرستار اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ کیا ان سب تجدیدوں کے درمیان صرف اللہ کے دین کی تجدید ہی ایسا جرم ہے کہ اس کا نام لیتے ہوئے آدمی شرمائے اور اگر کوئی اس کا خیال ظاہر کرے تو اللہ تعالیٰ کے پرستار اس کے پیچھے تالی پیٹ دیں‘‘۔
(ترجمان القرآن۔ دسمبر ۴۱ء، جنوری و فروری ۴۲ء)
ان تصریحات کے بعد بھی ہمارے بزرگان دین اپنے پروپیگنڈے سے باز نہ آئے۔ کیوں کہ میرے خلاف مسلمانوں کو بھڑکانے کے لیے منجملہ اور ہتھکنڈوں کے ایک یہ ہتھکنڈا بھی ضروری تھا کہ مجھ پر کسی دعویٰ کا الزام چسپاں کیا جائے۔ چنانچہ ۴۵، اور ۴۶ء میں مسلسل یہ شبہ پھیلا یا جاتا رہا کہ یہ شخص مہدویت کا دعویٰ کرنے والا ہے۔ اس پر میں نے جون ۴۶ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں لکھا:
’’جو حضرات اس قسم کے شبہات کا اظہار کرکے بندگان خدا کو جماعتِ اسلامی کی دعوت حق سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے ان کو ایک ایسی خطرناک سزا دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جس سے وہ کسی طرح رہائی حاصل نہ کرسکیں گے اور وہ سزا یہ ہے کہ انشاء اللہ میں ہر قسم کے دعوؤں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اپنے خدا کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور پھر دیکھوں گا کہ یہ حضرات خدا کے سامنے اپنے ان شبہات کی اور ان کو بیان کر کرکے لوگوں کو حق سے روکنے کی کیا صفائی پیش کرتے ہیں‘‘۔
اگر ان لوگوں کے دلوں میں خدا کا کچھ خوف اور آخرت کا کوئی یقین موجود ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ میرے اس جواب کے بعد پھر کبھی ان کی زبان پر یہ الزام آتا۔ لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج کس جرأت کے ساتھ اسے ازسرنو پھیلایا جا رہا ہے اور ’’ترجمان القرآن‘‘ کی قریبی اشاعتوں میں اس کے متعلق جو کچھ لکھ چکا ہوں، اسے دیکھ لینے کے باوجود ان میں سے کسی کی زبان میں لکنت نہیں آتی۔ آخرت کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے۔ مگر مجھے بتائے کہ کیا دنیا میں ایسی حرکتوں سے علما کا وقار قائم ہونے کی توقع ہے؟
لطف یہ ہے کہ میری کتاب ’’تجدید و احیائے دین‘‘ جس کی بعض عبارتوں پر ان شبہات کی بنا رکھی گئی ہے اور جس کے اقتباسات طرح طرح کی رنگ آمیزیوں کے ساتھ پیش کرکر کے لوگوں کو بہکایا جا رہا ہے، اسی میں میرے یہ الفاظ موجود ہیں:
’’نبی کے سوا کسی کا یہ منصب ہی نہیں ہے کہ دعویٰ سے کام کا آعاز کرے، اور نہ نبی کے سوا کسی کو یقینی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس خدمت پر مامور ہوا ہے۔ مہدویت دعویٰ کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ کرکے دکھانے کی چیز ہے۔ اس قسم کے دعوے جو لوگ کرتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں، میرے نزدیک دونوں ہی اپنے علم کی کمی اور اپنے ذہن کی پستی کا ثبوت دیتے ہیں‘‘۔
آج جو لوگ میری اس کتاب کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں، ان سے پوچھئے کہ ان کو یہ عبارت نظر نہیں آئی یا انہوں نے دانستہ اسے چھپایا ہے؟
(۵) آپ کا آخری سوال بھی آج کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے متعدد مرتبہ مجھے اس سے سابقہ پیش آچکا ہے اور میں اس کا جواب دے چکا ہوں۔ چنانچہ اس کا بھی آج کوئی نیا جواب دینے کی بجائے ایک پرانا نقل کیے دیتا ہوں:
’’میں تمام بزرگان دین کا احترام کرتا ہوں مگر پرستش ان میں سے کسی کی بھی نہیں کرتا اور انبیا کے سوا کسی کو معصوم بھی نہیں سمجھتا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ بزرگان سلف کے خیالات اور کاموں پر بے لاگ تحقیقی و تنقیدی نظر ڈالتا ہوں، جو کچھ ان میں حق پاتا ہوں، اسے حق کہتا ہوں اور جس چیز کو کتاب و سنت کے لحاظ سے یا حکمت عملی کے اعتبار سے درست نہیں پاتا، اس کو صاف صاف نادرست کہہ دیتا ہوں۔ میرے نزدیک کسی غیر نبی کی رائے یا تدبیر میں خطا پائے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی عظمت و بزرگی میں کوئی کمی آجائے۔ اس لیے میں سلف کی بعض رایوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ان کی بزرگی کا بھی قائل رہتا ہوں، اور میرے دل میں ان کا احترام بھی بدستور رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ بزرگی اور معصومیت کو ہم معنی سمجھتے ہیں، اور جن کے نزدیک اصول یہ ہے کہ جو بزرگ ہے وہ خطا نہیں کرتا، اور جو خطا کرتا ہے وہ بزرگ نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بزرگ کی رائے یا کسی طریقے کو نادرست قرار دینا لازمی طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا خیال ظاہر کرنے والا ان کی بزرگی کا احترام نہیں کرتا اور ان کی خدمات پر قلم پھیرنا چاہتا ہے۔ پھر وہ اس مقام پر بھی نہیں رکتے بلکہ آگے بڑھ کر اس پر الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھتا ہے ۔ حالاں کہ علمی معاملات میں ایک شخص کا دوسرے کی رائے سے اختلاف کرنا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ جس سے اختلاف کر رہا ہے، اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا بھی سمجھے اور بہتر بھی۔ امام محمد ؒ اور امام ابویوسفؒ نے بکثرت معاملات میں امام ابوحنیفہ کی رائے سے اختلاف کیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اختلاف یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ مختلف فیہ معاملات میں اپنی رائے کو صحیح اور امام صاحب کی رائے کو غلط سمجھتے تھے۔ لیکن کیا اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ یہ دونوں حضرات امام ابوحنیفہ ؒ کے مقابلے میں اپنے آپ کو افضل سمجھتے تھے؟‘‘
(ترجمان القرآن۔ جون ۱۹۴۶ء)
مجھے امید ہے کہ اس عبارت سے آپ کو میرا مسلک پوری طرح معلوم ہوگیا ہوگا۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ اس مسلک سے اتفاق کریں، یا خود بھی اسے قبول کرلیں۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اس میں ضلالت کا کونسا پہلو ہے؟ اور اس کے ضلالت ہونے کے لیے کتاب و سنت میں دلیل کیا ہے؟ آپ بڑی خوشی سے میری کسی رائے کو، جو میں نے بزرگان سلف میں سے کسی سے اختلاف کرکے پیش کی ہو، ردّ کردیں اور اسی رائے کو ترجیح کریں جس سے اختلاف کیا ہے۔ بلکہ اگر آپ مضبوط دلائل سے میری رائے کو مرجوح اور سلف کی رائے کو راجح ثابت کردیں گے تو میں خود اس سے رجوع کرلوں گا۔ مگر میں پوچھتا ہوں کہ جب میں کتاب و سنت کے دلائل سے ایک رائے پیش کرتا ہوں اور کتاب و سنت ہی کی دلیل سے دوسری رائے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں تو آخر محض اپنی رائے پیش کردینے سے میں کس گناہ کا مرتکب ہوجاتا ہوں؟ اور میری رائے صرف اس لیے کیوں لازماً مرجوح ہے کہ میں خلف ہوں، اور سلف کے ہر بزرگ کی رائے صرف اس وجہ سے کیوں راجح ہے کہ وہ سلف ہیں؟ دو چار صدی بعد پیدا ہونا کوئی قصور نہیں ہے جس کی وجہ سے آدمی کی رائے لازماً بے وزن اور اس کی حیثیت کم تر ہوجاتی ہو اور دو چار صدی پہلے پیدا ہوجانا کوئی کمال نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی مقدس اور منزہ عن الخطا قرار پاجائے اور اس کی ہر رائے کو راجح ہونے کا ذاتی استحقاق حاصل ہوجائے۔
بعض نادان لوگ ہر اس اختلاف پر، جو بزرگان سلف میں سے کسی کی رائے یا کسی کے طریقے سے کیا جائے، حدیث لعن اخر ھذہ الامۃ اولھا چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہ وہ اختلاف کتنے ہی ادب کے ساتھ کیا گیا ہو۔ معلوم نہیں کہ یہ لوگ اس حدیث کے معنی سے ناواقف ہیں، یا لفظ ’’لعنت‘‘ کا مفہوم نہیں جانتے، یا جان بوجھ کر محض دوسروں کو مطعون کرنے اور عوام الناس کو بھڑکانے کے لیے فرمودہ رسول ﷺ کے غلط استعمال کی جرأت کر بیٹھتے ہیں۔ بہرحال کوئی صاحب علم اور صاحب عقل آدمی تو کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ علمی تحقیقات میں ایک شخص کا دوسرے شخص سے مدلل اختلاف ’’لعنت‘‘ کا ہم معنی ہے۔ اگر یہ لعنت ہے تو پھر آج ہمارے درمیان رائے اور تحقیق کے جتنے بھی اختلافات پائے جاتے ہیں وہ سب ختم ہوجانے چاہئیں اور ان کا اظہار حرام ہونا چاہیے کیوں کہ لعنت تو معاصرین کے حق میں بھی جائز نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ دو باتوں کی اور توضیح کردوں۔ اگرچہ آپ نے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا ہے، مگر ہیں وہ ایک طرح سے آپ ہی کے سوال کے متعلق۔
اوّل کہ یہ میں نے فقہی مسائل میں مذہب حنفی کے مفتی بہ اقوال کے خلاف جب کبھی کسی رائے کا اظہار کیا ہے، اس غرض سے کیا ہے کہ وقت کے علما اس پر غور کریں اور اگر میرے دلائل سے مطمئن ہوں تو میری تجویز کے مطابق فتویٰ میں تغیر کردیں۔ میرے نزدیک ایسا کرنا حنفیت کے خلاف نہیں ہے اور مذہب حنفی میں اس کی گنجائش ہونے کے دلائل میں نے اپنی کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ (صفحہ ۶۱۔۶۰) میں بیان کردیے ہیں۔ اس کے ساتھ میں اصولاً اس بات کا بھی قائل ہوں کہ ہر صاحب علم کی تجویز پر فتویٰ نہیں ہوسکتا فتویٰ ایک قانونی بیان کا نام ہے اور نظام شریعت میں قانون صرف وہی ہوسکتا ہے جس پر یا تو اجماع ہو یا جسے جمہور علما نے تسلیم کیا ہو۔ اس لیے جب تک ایک تجویز کو اہل علم بالاتفاق یا اکثریت کے ساتھ قبول نہ کرلیں، وہ نہ قانون بن سکتی ہے اور نہ اس پر فتویٰ ہوسکتا ہے۔ اس بات کو بھی میں نے اپنی کتاب ’’اسلامی قانون‘‘ (صفحہ ۲۸۔۲۹) میں بیان کرچکا ہوں۔ میرے اس مسلک کو سمجھ لینے کے بعد اب کوئی مجھے بتائے کہ اگر ایک صالح شخص مصالح دینی کی بنا پر کسی فقہی مسئلے میں تغیر فتویٰ کی ضرورت محسوس کرے اور اسے محض ایک تجویز کے طور پر اہل علم کے غور کے لیے بہ دلائل پیش کردے تو کیا فی الواقع یہ کوئی گناہ ہے؟ اور کیا اس سے واقعی دین میں کوئی فتنہ پیدا ہوجاتا ہے؟
دوم یہ کہ میں فقہی مسائل میں انفراد کو پسند نہیں کرتا۔ میں زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے میں مذہب حنفی پر میرا اطمینان نہیں ہوتا تو مذاہب اربعہ میں سے دوسرے مذاہب کے احکام اور دلائل پر نگاہ ڈالتا ہوں اور اپنی بساط بھر ان کو جانچنے کے بعد ان میں سے کسی ایک کے فتویٰ کو ترجیح دیتا ہوں۔ شاذو نادر ہی میں نے کبھی اس طریقے سے ہٹ کر مذاہب اربعہ سے باہر کے کسی فتویٰ کو ترجیح دی ہے اور اگر کبھی ایسا کیا ہے تو بالعموم مجتہدین امت ہی میں سے کسی اور کی رائے کو قبول کیا ہے، محض اپنی منفرد رائے کم ہی کبھی پیش کی ہے۔ اگرچہ انفراد میرے نزدیک حرام نہیں ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے بہت زیادہ مضبوط دلائل کی ضرورت ہے اور کم ہی ایسا اتفاق ہوا ہے کہ کبھی میں نے فقہی مسئلے میں کوئی ایسی رائے ظاہر کی ہو جس میں سلف میں سے کوئی بھی میرے ساتھ نہ ہو۔ اس طرح کی ’’غیر مقلدیت‘‘ کا مجھے خود اعتراف ہے اور میں اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں تاوقتیکہ سب وشتم کی بجائے کتاب و سنت کی دلیل سے اس کو گناہ ثابت نہ کردیا جائے۔
(ترجمان القرآن۔ ذی القعدہ، ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ، ستمبر ۱۹۵۱ء)