پیشہ وکالت اسلامی نقطہ نظر سے
سوال: میں نے حال ہی میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا ہے اور اس پیشہ میں خاصا کامیاب ہوا ہوں، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایک وکیل کو قوانین الہٰیہ کے برخلاف روزانہ قوانین انسانی کی بنا پر مقدمات لڑنے پڑتے ہیں۔ وہ اپنا پورا زور لگاکر اس چیز کو حق ثابت کرتا ہے جسے انسانی قوانین حق قرار دیتے ہیں خواہ خدائی قانون کی رو سے وہ حق ہو یا نہ ہو اور اسی طرح باطل اسے ثابت کرتا ہے جو ان قوانین کی رو سے باطل ہے خواہ قانون الہٰی کے تحت وہ حق ہی کیوں نہ ہو۔ محتاط سے محتاط وکیل بھی عدالت کے دروازے میں قدم رکھتے ہی معاً حق و باطل اور حقوق اور ذمہ داریوں کے اس معیارکو تسلیم کرتا ہے جس کو انسان کی خام کار عقل نے اپنی خواہشات نفس کے ماتحت مقرر کررکھا ہے۔ غرضیکہ ایک وکیل کفر کی اچھی خاصی نمائندگی کے فرائض انجام دیتا ہے، لیکن کوئی پیشہ بھی مجھے ایسا نظر نہیں آتا جسے اختیار کرکے آدمی نجاستوں سے محفوظ رہ سکے۔ اس دہری مشکل کا حل کیا ہے؟ میں یہ سوال اس مسافر کی طرح پوری آمادگی عمل کے ساتھ کر رہا ہوں جو پابہ رکاب کھڑا ہو۔
جواب: اپنے پیشہ کے متعلق آپ نے جو رائے قائم کی وہ سو فیصدی صحیح ہے اور آپ کی سلامت طبع پر دلالت کرتی ہے۔ آپ جیسے سلیم الطبع لوگوں کے لیے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ ایک کافرانہ نظام جب کلی طور سے کسی سر زمین پر چھا چکا ہوتا ہے تو اس کے ماتحت رہتے ہوئے کسی شخص کا خالص حلال رزق حاصل کرنا اور مطابق شرع زندگی بسر کرنا قریب قریب نا ممکن ہے۔سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ زیادہ حرام سے بچ کر کم حرام اور ناگزیر حرام کو برداشت کیا جائے اور بغاوت سے بچ کر ایسی معصیت کو مجبوراً گوارا کیا جائے جس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔وکالت کو آپ خود سمجھ چکے ہیں کہ یہ قانون الہٰی کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ اس کے مقابلہ میں اگر کسی دوسرے پیشہ میں کچھ حرام کی آمیزش ہو بھی تو بہرحال وہ بغاوت سے تو کم درجہ ہی کا گناہ ہے۔ تجارت، زراعت، صنعت و حرفت، مزدوری، پرائیویٹ فرموں کی ملازمتیں اور اسی قسم کے دوسرے پیشوں میں ایسی صورتیں بہم پہنچ سکتی ہیں جن کے اندر کم سے کم ناگزیر معصیت کی حد پر آدمی قائم رہ سکتا ہے اور وہ کم از کم اس درجہ میں تو حرام نہیں ہے جس درجہ کی یہ وکیلانہ بغاوت حرام ہے۔
(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر۶۳ھ جنوری، فروری۴۴ء)